ضرورت الفقیہ

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
ضرورت ’’الفقیہ‘‘
متکلم اسلام مولانامحمدالیاس گھمن
ذہنی عیاشی اور تحریر وتقریر کی بدکاری نے آج جو گل کھلا رکھے ہیں عقل سلیم اور طبع مستقیم رکھنے والے پر وہ مخفی نہیں۔ اظہار خیال کی اس آزادی نے ملک کی فضاء کو مسموم کردیاہے۔روشن خیالی کی خیالی روشنینے چارسو پھیل کر جس تاریکی کا اضافہ کیا ہے اس تاریکی نے علم وعمل کے بہت سے میناروں کو دھندلا دیا ہے۔ ’’
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ
‘‘کا قرآنی اصول جسے اقوام عالم نے (Dignity of Man)کے نام پر تسلیم کیا ہےآج کے قلم فروش طبقہ کی نظروں سے اوجھل ہے۔ بربنائے جہالت کہیے یا برائے تعصب اسلاف امت کی پگڑیاں اچھالنے کو تحقیق سمجھا جاتا ہے اور پھر اپنی اس خود ساختہ تحقیق کے خوشگوار کھلونوں سے جوانان ملت کو ذہنی طور پراغوا کیا جاتا ہے۔
ایسے وقت میں جب حالات اس قدر دگرگوں ہوں تو اہل حق پر حق ہے کہ اس ظلمت کدہ میں نورحق سے ضیا پاشی کریں اور کند ذہنی وغباوت کو فقاہت سے آشنا کریں۔ اسی ذہنی پسماندگی کو درماندگی سے بچانے اور اسے علم ومعرفت کی منزل سے ہمکنار کرنے کے لئے اہل حق کی طویل مشاورت اور اصحاب خیر کے اصرار سے ماہنامہ ’’الفقیہ‘‘کا اجراکیا گیا ہے، جس کا پہلا شمارہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
جو اپنے ماضی سے واقف ہو وہی اپنے مستقبل کے لئے کوئی راہ عمل متعین کرسکتا ہے۔حق قوم اپنے اسلاف کے کارنامے بھول جائے تو اس کا حال بے حال اور مستقبل مشکوک ہوتا ہے۔’’الفقیہ‘‘ ہمیں اپنے اسلاف کی درخشندہ تاریخ دکھائے گا کہ ہم اس مصفی آئنیے میں اپنا چہرہ باطن سنوار لیں۔جب انسان فوت ہوجائے تو اس پر تنقید آسان ہوجاتی ہے۔ فوت شدہ انسان اگرچہ محسن انسانیت ہو مگر انسانی فطرت اس کی تحریر وتقریر سے خبث نفس کی تسکین کے لئے عیب چننے میں دیر نہیں کرتی۔ بعد والے کسی کی عیب جوئی سے ضروری نہیں کہ گزر جانے والے اسلاف کو ہدف تنقید بنایا جائے۔قطرہ پنہاں صدف میں گرتا ہے تو موتی بنتا ہے اور سانپ کے منہ میں گرتا ہے تو زہر بن جاتا ہے۔’’الفقیہ‘‘ کو سانپ کے زہر سے غرض نہیں البتہ صدف میں پڑے موتی کا تعارف وتحفظ اس کا حق ہے۔
’’الفقیہ‘‘محض دفع الوقتی یا فارغ البالی کا حل نہیں بلکہ میدان علم وتحقیق میں ایک انقلاب برپا کرنے کا عزم رکھتا ہے، جس میں ماضی سے مضبوط رشتہ ہوگا، حال کی الجھی گتھیاں سلجھائی جائیں گی اور مستقبل کے لئے ایک ایسی دیرپا یاد تعمیر کی جائے گی جو رہروان حق کو تا صبح قیامت انشاء اللہ نشان ِمنزل کا کام دے گی اور ہم بقول شورش اس عزم کے داعی ہیں کہ ’’مختصر بامقصد زندگی بے مقصد طویل زندگی سے بہتر ہے۔ بلوط اور ببول کے درخت صدیوں زمین پر بوجھ بنے رہتے ہیں۔ ان کی طویل زندگی بے مقصد اور بے لطف ہوتی ہے۔پھول کے لبوں پرہر صبح تبسم سجتا ہے، تو شام کو اس کی پتیاں بکھر کر فناء کی گود میں سو چکی ہوتی ہیں۔ مگر ان مختصر لمحات کی زندگی میں پھول فطرت کو رعنائی، کائنات کورنگینی، ویرانے کو رونق، عندلیب کو قرار، آنکھوں کو مسرت، دل کو فرحت، روح کو سرور اور وجدان کو کیف دے جاتا ہے۔‘‘پس ’’الفقیہ‘‘وہ پھول ہے جو بعض نا عاقبت اندیشوں کے افکار کی سرانڈ کو عظمت فقہ وفقہاءکے معطر تذکروں سے ختم کرے گا۔ خداوند قدوس سے ہماری دعا ہے کہ ہماری اس حقیر سی کوشش کو اپنی بارگاہ صمدیت میں شرف قبولیت بخشے۔ اگر ہماراعمل اور ہماری ٹیم کی محنت اس کی بارگاہ میں قبول ہوگئی تو ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دنیا ہمارے بارے میں کیا کہتی ہے اور اگر خدا نخواستہ ہماری کوئی تحریریا تقریر اس کے ہاں نا مقبول ہے تو اے اللہ ہم اس سے اعلان برأت کرتے ہیں، اگرچہ ساری دنیا اس کی تعریف میں رطب اللسان ہو۔ والسلام