امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سیمینار

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سیمینار
رپورٹ ؛مولانا محمد کلیم اللہ
اتحاد اہل السنۃ والجماعۃ لاہور ڈویژن کے زیر اہتمام مورخہ 11دسمبر کو لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت سیمنیار کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک بھر کی عظیم علمی مذہبی اور روحانی شخصیات نے شرکت کی۔
چونکہ یہ سیمینار ولی کامل خواجہ خان محمدرحمہ اللہ کی یاد میں تھا اس لیے بطور خاص حضرت خواجہ صاحب مرحوم کے صاحبزادے اور اجل خلفاء بھی رونق افروز تھے۔ قابل ذکر مندوبین کے نام یہ ہیں۔
علامہ خالد محمود،مولانازاہد الراشدی، مولانامحمد الیاس گھمن، صاحبزادہ رشید احمد، مولانا فضل الرحیم اشرفی، مولانامحب اللہ آف لورالائی، مولانا عبدالغفور آ ف ٹیکسلا، مولانامحمد طیب حنفی، مولانامحب النبی، مولاناعبدالشکور حقانی، مولاناعابد جمشید، سید سلمان گیلانی، مولانا مقصود احمد حنفی،مولاناامجد سعید،مولانا مجیب الرحمن انقلابی، مولانا عزیز الرحمان ثانی،مولانا عبدالعزیز۔وغیرہ
معروف مذہبی شخصیت مولانازاہد الراشدی نے مولانامحمد الیاس گھمن اور ان کی جماعت کی خدمات کو سہراتے ہوئے کہا۔
بحیثیت تاریخ کا طالب علم ہونے کے ایک سوال کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ امام اعظم ابوحنیفہ کو چیف جسٹس کا عہدہ سونپنے پر مجبور کیا گیا امام موصوف نے نہ صرف اس سے انکار کر دیا بلکہ جیل جانا گوارہ کرلیا اور وہیں سے آپ کا جنازہ نکلا جبکہ دوسری طرف امام موصوف کے شاگرد خاص امام ابو یوسف نے قاضی القضاۃ کے عہدے کو قبول کر لیا۔آخر کیوں؟
اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امام ابو حنیفہ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کا اڑھائی سالہ دور حکومت دیکھا اس کے بعد جب یزید بن عبدالملک تخت نشین آرا ہوا تو اس نے کہا عمر بن عبدالعزیز فریب خوردہ شخص تھا اپنے عمال کو حکم جاری کیا کہ آج سے جیسے تین سالہ پہلے کی حالت تھی دوبارہ وہی حالات پیدا کیے جائیں چنانچہ ایسا ہوا بھی لوگ دوبارہ اسی ابتری کا شکار ہوگئے۔امام اعظم ابوحنیفہ نے جب یہ صورتحال دیکھی تو دو بنیادی کاموں کی طرف متوجہ ہوگئے جس سے اسلامی ریاست قائم کی جاسکتی تھی وہ دو بنیادی کام قانون سازی اور افراد سازی کے تھے شریعت کو قانون کی شکل دینے کے لیے پرائیویٹ سطح پر ایک ادارہ قائم کیا جس میں مختلف الانواع علوم وفنون کے ماہرین بٹھائے اور باہمی مباحثے کرائے محتاط اندازے کے مطابق تقریبا80 ہزار دفعات پر مشتمل عملی قوانین مرتب فرمائے،اسی طرح قانون سازی بھی کی گویا فقہ اسلامی کے پہلے مدون امام اعظم ابوحنیفہ ہیں۔
لیکن آپ جانتے ہیں کہ پہلا اسلامی دستور کس نے مرتب کیا؟وہ امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام ابویوسف ہیں جنہوں نے ہارون الرشید کی درخواست پر دستور اسلامی مرتب کیا، اس کے بعد کام تھا اافراد سازی امام ابو حنیفہ نے کوفہ کی جامع مسجد میں اپنے تلامذہ کو جمع فرمایا اور کہا کہ میں نے تم کو تیار کر دیا ہے اب تم میں سے 40تو ایسے ہیں جو قاضی بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور 10 ایسے ہیں جو قاضی بنانے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔اب تم اٹھو اور سارے عالم میں انصاف وعدل کی بہاریں چلا دو۔چونکہ قانون سازی اور افراد سازی کے لیے محکمہ قضا سے دور رہنا حکمت ودانش کا تقاضا بھی تھا اور مجبوری بھی تھی اس لیے خود علمی کام میں مصروف رہے اور امام ابو یوسف کو چونکہ تیار کرلیا تھا اس لیے وہ چیف جسٹس بن گئے۔
مولانا زاہد الراشدی نےمزید کہا؛ اگر آج امام ابو حنیفہ آجائیں تو وہ تمام دینی وسیاسی تحریکات کی اصلاح اور سرپرستی کریں گے اور معاشرے سے کرپشن کو بالکل ختم کردیں گے علمی دنیا میں اجتماعی شورائی کمیٹی تشکیل دیں گے۔
سفیر احناف متکلم اسلام مولانامحمد الیاس گھمن نے تمام حضرات مندوبین اور شرکاء سیمینار کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہمارے بارے میں یہ غلط مشہور کیا جا رہا ہے ہم اللہ اور اس کے رسول کے ذکر کو چھوڑ کر امام ابو حنیفہ کا ذکر کرتے ہیں انہوں نے سختی سے اس کا رد کیا کہ واللہ بخدا ایسی بات بالکل نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں ہے اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم اللہ کی اطاعت کرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور جو تم میں اولی الامر ہیں ان کی اطاعت کرو اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو فقہاء کے حوالے کیا معجم کبیر طبرانی میں موجود ہے حضرت علی نے سوال کیا یارسول اللہ اگر کوئی مسئلہ پیش آ جائے جس بارے میں نہ تو کرنے کاحکم ہو اور نا ہی چھوڑنے کا ذکر ہو تو ہم کیا کریں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تشاورون الفقہاء تم فقہاء سے مشاورت کرو۔
اس لحاظ سے تدوین فقہ کا سہرا چونکہ امام ابوحنیفہ کے سر پر تھا وہ سید الفقہاء ہیں روضہ رسول کے سامنے جو ستون ہیں ان پر امام ابوحنیفہ کا نام کندہ ہے ہم وطن عزیز پاکستان بلکہ پوری دنیا میں امام ابوحنیفہ کی تعلیمات کا پرچم لہرا رہے ہیں اور کثیر تعداد میں لوگ روز بروز اس کے سائے تلے جمع ہو رہے ہیں امام ابوحنیفہ وہ عظیم المرتب شخصیت ہیں جن کو معاصرین فقہاء اور بعد میں آنے والے جلیل القدر محدثین اور فقہاء نے خراج عقیدت پیش کیا ہے؟
چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہو اگر وہ اس لکڑی کے ستون کو سونا کا ثابت کرنا چاہے تو دلائل کی قوت سے اسے ثابت کر سکتا ہے اور وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ کا فرمان موجود ہے کہ اگر کوئی شخص دین کی تفقہ حاصل کرنا چاہے وہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورآپ کے اصحاب سے حاصل کرے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے عیال ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں علم و روع اور تقوی کے جس مقام پر ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہے وہاں دنیا کا کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا۔
انہوں نے کہا کہ علم کی دنیا میں ہم نے امام ابوحنیفہ کے دلائل کو ترجیح کے ساتھ ماناہے اور ان کا دفاع کرنا بھی ہمارا جانتے ہیں۔جماعتی پالیسی کے لحاظ سے انہوں نے کہاکہ ہمارا علمی اور فکری لٹریچر مارکیٹ میں موجود ہے۔ اس موقع پر انہوں نے یاد دلایا کہ بعض مشائخ خصوصا مولانامکی حجازی نے مجھے فرمایاکہ نماز کے موضوع پر ایک ایسی کتاب لکھی جائے جس میں شروع تا آخر احادیث سے دلائل احناف کو جمع کر دیا جائے چنانچہ''نماز اہل السنت والجماعت'' کے نام سے ہم نے ایک کتاب شائع کر دی ہے۔ ہم سال نو جنوری 2012سے ماہنامہ " الفقیہ" کا اجراء کر ر ہے ہیں۔
عالم اسلام کی عظیم علمی شخصیت ڈاکٹر علامہ خالد محمود، پی ایچ ڈی آف لندن نے اپنی گفتگو کا آغاز ان الفاظ سے کیا۔
یورپ اور باہر کی دنیا میں جب ہم اسلام کی نمائندگی کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو لوگ ہم سے عموما یہ پوچھتے ہیں قرآن کی ساڑھے چھ ہزار کے قریب آیات اور حذف مکررات کے ساتھ تقریبا دس ہزار احادیث تو محدود ہیں اور زمانے کے مسائل لامحدود ہیں تو اسلام عالمگیر مذہب کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب واضح ہے کہ قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی دو حیثیتیں ہیں منصوصہ اور غیر منصوصہ اللہ تعالی نے فقہاء کو یہ مہارت دی ہے کہ وہ غیر منصوصہ سے مسائل واحکام کا استنباط کر لیتے ہیں گویا یہ علوم کی کنجیاں ہیں جہاں سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مسائل کا حل نکل آتا ہے اسی کانام فقہ اور اجتہاد ہے لیکن باقی ائمہ کرام کی رائج فقہوں میں اور امام ابوحنیفہ کی مدون شدہ فقہ میں ایک بنیادی فرق ہے باقی ائمہ کی فقہ فی المسائل ہے اور امام ابوحنیفہ کی فقہ فی الایمان وفقہ فی المسائل دونوں ہیں امام ابوحنیفہ نے اپنے دو رکے گمراہ فرقوں کے ساتھ مباحثے اور مناظرے کیے پہلے فقہ اکبر ہے یعنی فقہ فی الایمان پھر فقہ اصغر ہے یعنی فقہ فی المسائل امام ابوحنیفہ کی محنت کا دائرہ کار ایمانیات،عبادات،معاملات اور معاشرت و تجارت وغیرہ پر محیط ہے۔
مولانافضل الرحیم اشرفی دامت برکاتہم نے تمام علماء کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ مولانامحمد الیاس گھمن اوران کی جماعت اتحاد اہل السنت والجماعت نے جس طرز پر فقہی اور فکری شعور بیدار کرنے کی تحریک چلائی ہے یقینا قابل تحسین ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے اسلاف پر اعتماد کرکے آگے بڑھنا ہوگا اسلاف کو برابھلا کہنا یقینا ایمان سے محرومی کا باعث ہے
قاری محمد طیب حنفی نے کہا؛ امام اعظم کی تعلیمات کو معاشرہ میں عام کیا جائے اس سے جہاں جہالت کا خاتمہ ہوگا وہاں پر دینی شعور بھی بیدار ہوگا۔ "امام اعظم" کا مطلب یہ ہے کہ باقی ائمہ فقہاء مثلا امام مالک امام شافعی امام احمد بن حنبل امام سفیان ثوری وغیرہ جیسےائمہ کی صف میں امام ابوحنیفہ "امام اعظم "ہیں انہوں نے بڑی سختی سے اس کی تردید کی کہ امام اعظم کو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا امام مانتے ہیں [العیاذ باللہ]
شاعرا سلام سید سلمان گیلانی اور مولانا مقصود حنفی بھی اس سیمینار میں مدعو تھے انہوں نے اپنے منظوم کلام سے امام اعظم کی بارگاہ عالیہ میں خراج عقیدت پیش کیا
احناف میڈیا سروس کے ڈائریکٹرمولانا عابد جمشید رانا نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ کے نقصانات دوطرح کے ہیں فحاشی وعریانی کا فروغ اورعقائد واعما ل کا بگاڑ۔ نام نہاد اسکالرز جنہوں نے اپنے آپ پر مذہب کا لیبل چسپاں کیا ہوا ہے آئے دن عقائد ونظریات اور اسلام کے احکامات ونواہی پر عقل نارسا کی وجہ سے اعتراضات اٹھاتے ہیں۔ اکابر کی سرپرستی میں ہم اس میدان میں بھی مورچہ زن بیٹھے ہیں۔ عنقریب ہم ایک ٹی وی چینل لانچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس کے لیے ہم نے پیپر ورک مکمل کر لیا ہے اسٹوڈیو کی تعمیر کا کام بھی شروع ہے علاوہ ازیں ہماری چار ویب سائٹس بیک وقت کام کر رہی ہیں۔
اللہ تعالی ہمیں امام ابوحنیفہ کا جانشین بنائے اور ان کی فکر، تفقہ، ورع اور خشیت الہی سے وافر حصہ عطا فرمائے۔