احادیث نبویہ کی حکیمانہ تشریح

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
مجلس الشیخ
احادیث نبویہ کی حکیمانہ تشریح
مجلس الشیخ کے عنوان کے تحت حضرت الاستاذ مرشدی پیر طریقت متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن صاحب حفظہ اللہ کے ان اصلاحی مواعظ کو پیش کرنے کا ارادہ تھا جو حضرت الشیخ حفظہ اللہ ہر انگریزی ماہ کی پہلی جمعرات بعد نماز مغرب فرماتے ہیں۔حضرت کی خدمت میں عرض کیا تو فرمایا کہ میرے پیر ومرشد عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم موجود ہیں،میرے مواعظ کی بجائے حضرت حکیم محمد اختر دامت برکاتہم کے مواعظ و ملفوظات کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ چنانچہ’’مجلس الشیخ ‘‘کے تحت عارف باللہ حضرت شاہ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم کے ملفوظات ومواعظ کو پیش کیا جائے گا۔ان شا٫ اللہ از مرتب : مفتی شبیر احمد حنفی
حدیث ’’زُرْ غِبًّا تَزْدَدْ حُبًّا ‘‘کی شرح:
عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم نے ارشادفرمایا:
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کُنْتُ اَلْزَمُ بِصُحْبَۃِ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم .میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں ہر وقت چپکا رہتا تھا اور ایک حدیث میں ہے ’’زُرْ غِبًّا تَزْدَدْ حُبًّا. ناغہ دے کر ملنا محبت کو بڑھاتا ہے،فَمَا التَّطْبِیْقُ بَیْنَ عَمَلِ الصَّحَابِیْ وَالْحَدِیْثِ،یعنی صحابی کے قول اور حدیث پاک میں کیا تطبیق ہے؟تو اس کی تطبیق مولانا جلال الدین رومی ؒ نے بیان کی ہے کہ زُرْ غِبًّا کا حکم رشتہ داروں کے لئے ہے مثلاً داماد سسرال جائے اور وہیں پڑا رہے،سسرال والے بھی کہیں کہ پتہ نہیں کب جائے گا؟ غرض یہ عام رشتہ داریوں کا مسئلہ ہے، لیکن جو شخص اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عاشق ہو اس کے لئے زُرْ غِبًّا کا حکم نہیں ہے۔
؎ نیست زُرْ غِبًّا وظیفہ ماہیاں زاں کہ بے دریا ندارند انس

جاں

یعنی اگر مچھلی سے کہو کہ ناغہ دے کر پانی میں جائے تو مچھلی تو مرجائے گی، کیونکہ بغیر پانی کے وہ زندہ نہیں رہ سکتی۔ لہذا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روح مبارک ایسی تھی جیسے کہ مچھلی کو پانی سے تعلق ہوتا ہے اور جملہ حضرات صحابہ کو اللہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی تعلق تھا۔حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث پاک اور صحابی کے قول میں تطبیق یہ ہے کہ زُرْ غِبًّا یعنی ناغہ دے کر ملاقات کرنا اعزاء واقرباء اور عام رشتہ داروں کے لئے ہے، لیکن کسی پر کسی اللہ والے کے عشق کی کیفیت غالب ہوجائے مثلاً اپنے شیخ سے ایسی محبت ہوجائے کہ بغیر شیخ کے اس کو چین نہیں آتا تو اس اللہ والی محبت لئے زُرْ غِبًّا کا حکم نہیں ہے،وہ روزانہ آئے، ایک دن بھی ناغہ نہ کرے، چالیس دن مکمل لگائے یا اگر اس کے ذمہ کوئی حقوقِ واجبہ نہیں ہیں تو شیخ کے در پر رہ پڑے،ہر شخص کے اپنے اپنے حالات ہیں۔لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ والے کی ذات پر عاشق ہو اس کی کسی صفت پر عاشق نہ ہو۔ جیسے بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ آج بیان ہوگا یا نہیں۔جب معلوم ہوجائے کہ بیان نہیں ہوگا تو گھر بیٹھ گئے۔معلوم ہوا کہ یہ تقریر کا عاشق ہے مقرر کا عاشق نہیں حالانکہ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ جس سے محبت ہو اس کو ایک نظر دیکھنا دنیا ومافیہا سے قیمتی ہے۔
محبت ہوتو ایک نظر کی کیا قیمت ہے یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھو۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے ابوبکر صدیق!مجھ کو دنیا میں تین چیزیں عزیز ہیں(۱)خوشبو(۲)نیک بیوی(۳)نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے،تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! مجھ کو بھی تین چیزیں دنیا میں عزیز ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ بتاؤ! وہ چیزیں کیا ہیں؟عرض کیا(۱)النظر الیک (۲)والجلوس بین یدیک(۳)وانفاق مالی علیک،یعنی ایک نظر آپ کو دیکھ لینا اور تھوڑی دیر آپ کے پاس بیٹھ لینا اور اپنا مال آپ پر فدا کرنا،اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز مجھ کو محبوب نہیں ہے۔حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سکھا دیا کہ شیخ سے ایسی محبت ہونی چاہئے۔
(معارف ربانی ص۱۵۵ تا ۱۵۷)
حدیث اَللّٰھُمَّ وَاقِیَۃً الخ کی شرح کی عجیب تمثیل:
عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم نے ارشادفرمایا:
’’حدیث شریف کی دعاہے:
’’اَللّٰھُمَّ وَاقِیَۃًکَوَاقِیَۃ ِالْوَلِیْدِ‘‘.
(مجمع الزوائد)
اگر بچہ نادانی سے کوئی مضر اور نامناسب کام کرنا چاہتا ہے تو ماں پہلا کام یہ کرتی ہے کہ اس کو اس کام سے بچالیتی ہے۔اسی طرح اے اللہ! اگر ہم کوئی نامناسب فعل کرنے کی جرأت کریں تو ہمیں اپنی رحمت سے کھینچ کر بچالے اور اگر بچہ کوئی غلط چیز زہر وغیرہ کھا لے تو ماں اپنی انگلی اسکے منہ میں ڈال کر قے کرادیتی ہے۔اسی طرح اگر بندہ سے گناہ ہوگیا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ہاتھ ہمارے گناہوں کو قے کراتا ہے، بذریعہ اشک ندامت وآہ زاری اور اشکباری، پھر اس کے بعد اپنی یاری کو بحال کردیتا ہے۔اور اگر زہریلا مادہ بچہ کے جسم میں آگے بڑھ گیا ہے جہاں تک ماں کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا تو ڈاکٹر سے کہتی ہے کہ اس کو دوا دے دیجئے اور قے کرادیجئے۔ ماں کی انگلی تو صرف حلق تک جاسکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا ہاتھ تو ہر جگہ پہنچا ہوا ہے، وہ مالک تو ایسے ہیں کہ جسم کے ذرہ ذرہ پر قادر ہیں۔پس جو بندہ گناہوں کے زہر کا عادی ہوگیا تو اللہ تعالیٰ اس کو روحانی ڈاکٹر یعنی مشائخ کے پاس جانے کی توفیق عطا فرماتے ہیں، تاکہ اس بندہ کے گناہوں کی ظلمات کے پہاڑ اس اللہ والےکے صدقہ میں اور اس کی برکت سے اجالے سے انوار سے بدل جائیں۔
(مواعظ درد محبت ج ۸ص۳۲۸)