خزائن السنن

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

خزائن السنن

استقامت علی الدین اور حسن خاتمہ کی دعا کے عجیب تفسیری لطائف
خزائن السنن کے عنوان سے عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کے ملفوظات کو پیش کیا جارہاہے۔ استقامت علی الدین اور حسن خاتمہ کی دعا کے متعلق حضرت دامت پرکاتہم نے نہایت عجیب تفسیری لطائف ارشاد فرمائے جنھیں ہدیہ قائین کیا جاتا ہے۔ از مرتب: مفتی شبیر احمد حنفی
عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا :
ہر نہی اپنے منہی عنہ کے وجود پر دلالت کرتی ہے "ربنالاتزغ قلوبنا"بتا رہا ہے کہ قلب میں ازاغت وکجی کی استعداد موجود ہے اور استعداد بھی ایسی کہ ازاغت صرف گناہ زنااور شراب تک محدود نہیں رہتی بلکہ عقیدہ تک خراب ہوجاتا ہے یہاں تک کہ نعوذباللہ نبوت اور مہدویت تک کا دعوی کرنے لگتا ہے اسی لیے اللہ تعالی یہ دعا سکھا رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دیجیے "بعد اذ ھدیتنا"آپ کے جس کرم نے ہمیں ہدایت بخشی ہے اسی کرم سے آپ ہم کو عدم ازاغت بھی بخش دیجیے ۔عدم ازاغت کی درخواست میں طلب ہدایت کی درخواست موجود ہے اور عطائے ہدایت اور بقائے ہدایت اور ارتقائے ہدایت کی بھی درخواست ہے تاکہ ہمارا قلب ٹیڑھا نہ ہونے پائے اور دل میں کجی گناہوں سے آتی ہے۔ خصوصا اس زمانہ میں بدنظری کے گناہ سے دل بالکل تباہ ہوجاتا ہے ،کیونکہ بدنظری پر سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا ہے کہ" لعن اللہ الناظر المنظور الیہ" تو نگاہ کی حفاظت نہ کرنے سے یہ شخص لعنت میں آگیا اور لعنت کے معنی ہیں "البعد عن الرحمۃ" جب رحمت سے دوری ہوئی تو اللہ تعالی کی حفاظت ہٹ گئی" الا مارحم ربی" کا سایہ اس سے ہٹ گیا او رنفس امارہ کے شر سے بچنے کے لیے سوائے سایہ رحمت حق کے اور کوئی راستہ نہیں ۔لہذا سایہ رحمت ہٹنے سے یہ شخص نفس امارہ بالسوء کے بالکل حوالے ہوگیا۔اب نفس اس سے جو گناہ کرا دے وہ کم ہے کیونکہ "السوء" میں لام استغراق کا ہے۔ابتداء عالم سے قیامت تک گناہ کے جو اقسام وانواع ایجاد ہوں گے سب اس لام میں شامل ہیں ۔پس اس کے گناہوں کی تاریخ ایسی بھیانک ہوجائے گی کہ جس کا وہ خود بھی تصور نہیں کرسکتا تھا۔لہذا اے اللہ آپ کے جس کرم نے ہمیں ہدایت بخشی ہے اپنے کرم سے اس ہدایت کو باقی بھی رکھیے اور اس میں ترقی بھی عطا فرمائیے۔عطاء ِکرم بھی فرمائیے ،بقاء کرم بھی فرمائیے اور ارتقاء کرم بھی فرمائیے۔
"وھب لنا" اور ہمیں ہبہ کردیجیے ۔کون سا ہبہ؟جس میں ہمارا نفع ہو"لنا" میں لام نفع کا ہے "من لدنک رحمۃ "اپنے پاس والی رحمت ،اپنی خاص رحمت ہم کو ہبہ کردیجیے یہاں عام رحمت کا سوال نہیں کیا جارہا ہے کیونکہ شروع میں عدم ازاغت کا سوال کیا گیا اس لیے یہاں وہ خاص رحمت مانگی جارہی ہے جو ازاغت اور کجی سے قلب کو محفوظ فرمادے۔علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
المراد بھذہ الرحمۃ الاستقامۃ علی الدین وحسن الخاتمۃ
اور لفظ ہبہ سے کیوں مانگنا سکھایا گیا؟کیونکہ استقامت علی الدین اورحسن خاتمہ وہ عظیم الشان نعمت ہے جس کی برکت سے جہنم سے نجات اور دائمی جنت نصیب ہوگی۔یہ ہماری محدود زندگی کے محدود اور ناقص مجاہدات وریاضات کا صلہ ہرگز نہیں ہوسکتی تھی اس لیے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو متنبہ فرمادیا کہ خبردار :میری اس رحمت خاصہ کو اپنی کسی عمل اور کسی مجاہدہ اور کسی ریاضت کا بدلہ نہ سمجھنا کیونکہ حسن خاتمہ میرا وہ عظیم الشان انعام اور وہ غیر محدود رحمت ہے جودائما ًدخولِ جنت کا سبب ہے جس کا تم کوئی معاوضہ ادا نہیں کرسکتے کیونکہ مثلاًاگر تم نے سو سال عبادت کی تو قانون اور ضابطہ سے سوسال تک تمہیں جنت میں رہنے کا جواز ہوسکتا تھا۔لیکن محدود عمل پر یہ غیر محدود انعام اور غیرفانی حیات کے ساتھ غیر فانی جنت عطا ہونا یہ رحمت خاصہ اور انعام عظیم ہے اور اس کرم کا سبب محض کرم ہے ۔لہذامیری یہ رحمت خاصہ اور انعام عظیم لینے کے لیے لفظ ہبہ سے درخواست کرو کیونکہ ہبہ بدون معاوضہ ہوتا ہے اور ہبہ میں واہب اپنے غیر متناہی کرم سے جوچاہے عطافرمادے۔علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں" وفی اختیار صیغۃ الھبۃ ایماء ان ھذہ الرحمۃ ای ذالک التوفیق للاستقامۃ علی الحق تفضل محض بدون شائبۃ"اور صیغہ ہبہ اختیار فرماکر حق تعالی نے یہ اشارہ فرمادیا کہ یہ رحمت جس سےمراد وہ توفیق خاص ہے جس سے بندوں کو دین پر استقامت نصیب ہوتی ہے اور جو سبب ہے حسن خاتمہ کا یہ محض حق تعالی کا فضل عظیم ہے جس کو چاہتے ہیں عطافرماتے ہیں اور آگے" انک انت الوھاب" معرض تعلیل میں ہے کہ تم کو ہم سے اس نعمت عظمی کو ہبہ سے مانگنے کا کیا حق ہے" انک انت الوھاب "معنی میں "لانک انت الوھاب" کے ہے۔ہم آپ سے اس لیے مانگ رہے ہیں کیونکہ آپ بہت بڑے داتا اور بڑے بخشش کرنے والے ہیں۔
{مواہب ربانیہ ص290ملفوظ افضال ربانی}