تجارت اور سود میں فرق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تجارت اور سود میں فرق
مفتی رئیس احمد
شریعہ ایڈ وائزر حلال ریسرچ کونسل
حرمت ربا سے متعلق چارقسم کی آیات مختلف مواقع پر نازل ہوئیں۔
نمبر1: :پہلی آیت سورہ روم کی ہے جو مکی سورۃ ہے ۔
ومآاٰ تیتم من ربالیر بوافی اموال الناس فلایر بواعند اللہ
)پ 21آیت 39(
ترجمہ : اور جو چیز تم اس غرض سے دو گے کہ وہ لوگوں کے مال میں پہنچ کر زیادہ ہوجائے تو یہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا۔
نمبر2: دوسری آیت سورہ نسا ء کی ہے
واخذھم الربٰوا وقد نہو عنہ۔
)پ 5 آیت 161(
ترجمہ :نیز ان )یہودیوں(کی یہ بات کہ سود لینے لگے حالانکہ اس سے روک دیے گئے۔
نمبر3: تیسری آیت سورۃ آل عمران میں ہے۔
یا ایھا الذین اٰمنو الاتاکلواالربٰوااضعا فامضٰعفۃ۔
)پ 4آیت 130(
ترجمہ: اے ایمان والوربا مت کھائو دگنا چگنا کرکے۔
نمبر4: سورۃ بقرہ میں چند آیات سود کی حرمت سے متعلق موجود ہیں
الذین یاکلون الربٰوا لایقومون ۔۔۔الخ
آیت 275تا279
ترجمہ : جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ )قیامت میں( اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر پاگل بنا دیا ہو یہ اس لیے ہوگا کہ انہوں نے کہا تھا کہ : "بیع بھی تو سود ہی طرح ہوتی ہے ۔" حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام قرار دیا ہے لہذا جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ ) سودی معاملات سے ( باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے اور اس ) کی باطنی کیفیت (کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے ۔
اللہ تعالی سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ ہر اس شخص کو ناپسند کرتا ہے جو ناشکرا گنہگار ہو ۔ )ہاں( وہ لوگ جو ایمان لائیں ،نیک عمل کریں ،نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں وہ اپنے رب کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہوں گے؛ نہ انہیں کوئی خوف لاحق ہوگا نہ کوئی غم پہنچے گا ۔اے ایمان والو !اللہ سے ڈرو اور اگرتم واقعی مومن ہوتو سود کا جو حصہ بھی ) کسی کے ذمے ( باقی رہ گیا ہو اسے چھوڑ دو۔ پھر بھی اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو اور اگر تم ) سود سے (توبہ کرو تو تمہارا اصل سرمایہ تمہارا حق ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پر کیا جائے ۔
آیات ربا کا تاریخی تجزیہ:
سورۃ روم:
ان آیات میں سب سے پہلی آیت سورۃ روم کی ہے جوکہ بالاتفاق مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی یہ آپ تحریمی نوعیت کی نہیں ہے یہ صرف سادگی سے اتنا کہتی ہے کہ ربا اللہ کے یہاں نہیں بڑھتا یعنی اس کا آخرت میں کوئی ثواب نہیں ہے۔ بہت سے مفسرین قرآن کی رائے یہ ہے کہ کہ لفظ "ربوٰ" اس آیت میں سود یوژری یا انٹرسٹ کے معنی میں استعمال نہیں ہواہے۔ ابن جریر طبری رحمہ اللہ )المتوفی310(مشہور ترین مفسر قرآن ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور متعدد تابعین مثلاً : سعید بن جبیر ، مجاہد، طائوس، قتادہ ، ضحاک اور ابراہیم نخعی رحمہم اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ اس آیت میں لفظ "ربوٰ" کا مطلب نیوتا ہے یعنی کسی کو ہدیہ اس غرض سے دینا تاکہ بعد میں وہ اس کو اس سےزیادہ ہدیہ دے۔
)ابن جریر، تفسیر جامع البیان دارالفکر بیروت 1984ج21ص46تا48(
تاہم بعض مفسرین قرآن نے اس لفظ کو سود کے معنی میں استعمال کیاہے بقول ابن جوزی یہ نکتہ نظر حضرت حسن بصری کی طرف منسوب ہے۔
)زاد المعاد المکتبۃ الاسلامیہ بیروت 1964ج 6 ص 304(
اگراس نقطہ نظر کے مطابق لفظ ربوٰ کو اس آیت میں سود کے معنی میں لیا جائے تو بظاہر زیادہ مناسب بھی معلوم ہوتا ہے کیونکہ دوسری جگہوں میں لفط ربوٰ اس معنی میں استعمال ہواہے۔ تب بھی اس آیت میں ربوٰ کی ممانعت کے متعین الفاظ موجود نہیں ہیں، زیادہ سے زیادہ اس میں اس بات پر زور دیا ہے کہ آخرت میں ربوٰ کا اللہ کی طرف سے کوئی ثواب نہیں ملے گا اس لیے یہ آیت ربوکی حرمت پر مشتمل نہیں تاہم یہ بات واضح ہے کہ اس آیت یہ پتہ چلتا ہے کہ ربوٰ کا عمل اللہ تعالی کو پسندنہیں ہے۔
سورہ نساء:
دوسری آیت سورۃ نساء کی ہے جس میں یہودیوں کی بد اعمالیوں کی فہرست کے ذیل میں یہ بات بھی مذکور ہے کہ وہ ربوٰ لیا کرتے تھے باوجود یکہ وہ ان پر پہلے سے حرام تھا۔ اس آیت کے نزول کے حقیقی وقت کا تعین فی الواقع مشکل ہے مفسرین کرام رحمہم اللہ اس نکتے پر زیادہ تر خاموش دکھائی دیتے ہیں تاہم جس سیاق میں یہ آیت نازل ہوتی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت 4 ؁ھ سے قبل نازل ہوئی ہوگی۔
سورہ نساء کی آیت نمبر 153میں ہے۔
یسئلک اھل الکتاب ان تنزل علیہم کتاباًمن السماء ۔
ترجمہ : آپ سے اہل کتاب یہود؛ یہ درخواست کرتے ہیں کہ آپ ان کے پاس ایک خاص نوشۃ آسمان سے منگوادیں۔
یہ آیت یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اگلی چار آیات یہودیوں کے جوابات دینے کے لیے نازل کی گئی جو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے اور آپ سے آسمان سے اس طرح کتاب نازل کروانے کی درخواست کی تھی جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کی گئی اس کا مطلب ہے کہ آیات کا یہ سلسلہ اس وقت نازل ہوا۔جب یہودی کافی بڑی تعداد میں مدینہ میں موجود تھے اور اس وقت وہ اس پوزیشن میں بھی تھے کہ وہ حضور سے بحث کرسکیں۔ کیونکہ اکثر یہود 4 ؁ھ کے بعد مدینہ چھوڑ چکے تھے اس لیے یہ آیت اس سےقبل نازل شدہ معلوم ہوتی ہے یہاں پر لفظ ربو بلاشبہ سود کے معنی میں ہے کیونکہ وہ یہودیوں کے لیے وا قعتا ممنوع تھا۔یہ ممانعت بائبل کے پرانے صحیفوں میں ابھی تک موجود ہے لیکن اسے مسلمانوں کے لیے دو ٹوک اور واضح ممانعت ربوٰ کاحکم قرارنہیں دیا جاسکتا یہ آیت صرف اتنی بات واضح کرتی ہے۔ کہ ربوٰ یہودیوں کے لیے ممنوع تھا انہوں نے اپنی عملی زندگیوں میں اس کی تعمیل نہ کی۔ البتہ ا سے یہ بات ضرور مستنبط ہوتی ہے کہ ربوٰمسلمانوں کے لیے بھی یقیناً ایک گناہ کا کام ہے ورنہ یہودیوں کو مورد الزام ٹھہرانے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ )جاری ہے (