تذکرۃ الفقہاء

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تذکرۃ الفقہاء
سیدنا حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ
مولانا محمدعاطف معاویہ حفظہ اللہ
نام ونسب: آپ کا نام" عمر" کنیت" ابوحفص "اور لقب "فاروق "ہے۔
نسب نامہ یہ ہے "ابوحفص عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن ریاح ابن عبداللہ بن قرط بن زراح ابن عبدی بن کعب بن لوئ بن غالب القرشی العدوی
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر ج2ص1307رقم الترجمہ5738)
ولادت: مشہور قول کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت ہجرت نبوی سے چالیس برس قبل ہوئی۔
(الفاروق ص31)
قبل از اسلام: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ زمانہ اسلام لانے سے قبل قریش کے معزز لوگوں میں سے تھے اگر کسی قوم کے ساتھ معاہدہ یا معاملات طے کرنے کی ضرورت پیش آتی تو آپ رضی اللہ عنہ قریش کی طرف سے سفیر اور نمائندہ کی حیثیت سے معاملات کو طے فرماتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ جو معاہدہ فرماتے قریش اس کو قبول کرتے تھے۔
(اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ لابن اثیر ج3ص434رقم الترجمہ3831)
قبول اسلام: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شجاعت عرب مین بہت مشہور تھی لوگوں کے دلوں آپ کا رعب تھا اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے دعا کی "اللھم اعزالاسلام باحب الرجلین ھٰذین الیک بابی جھل او بعمر بن الخطاب " (ترمذی ج2ص209)
ترجمہ: اے اللہ عمر بن خطاب اور عمرو بن ہشام میں سے جو تجھے زیادہ محبوب ہو اس کو اسلام کی سربلندی کا ذریعہ بنا دے۔
اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اسلام کی دولت نصیب فرمائی۔ آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے مسلمانوں کی تعداد چالیس ہوگئی جب آپ رضی اللہ عنہ نے کلمہ پڑھا تو جبرائیل علیہ السلام یہ آیت لے کر تشریف لے آئے"یاایھا النبی حسبک اللہ ومن اتبعک من المومنین"
(اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ ج3ص435)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت ملی آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے قبل مسلمان کھل کر عبادت نہیں کرسکتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد مسلمان بغیر کسی خوف کے عبادت کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ "کان اسلام عمر فتیً وکانت ھجرتہ نصرا وکانت امارتہ رحمۃ ولقد رایتنا وما نستطیع ان نصلی فی البیت حتی اسلم عمر فلما اسلم عمر قاتلھم حتی ترکونا فصلینا" (اسدالغابہ ج3ص439)
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنا اہل اسلام کی فتح تھی آپ رضی اللہ عنہ کی ہجرت اسلام کی مدد تھی آپ رضی اللہ عنہ کا دور خلافت اللہ کی رحمت تھی ان کے کلمہ پڑھنے سے پہلے ہم بیت اللہ میں عبادت نہیں کرسکتے تھے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو ہم بیت اللہ میں عبادت کرتے تھے۔
فضائل ومناقب:
کتب احادیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فضائل پر مستقل ابواب موجود ہیں یہاں ہم صرف چند احادیث ذکر کرتے ہیں۔
"عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقد کان فیما کان قبلکم من الامم ناس محدثون فان یک فی امتی احد فانہ عمر
(صحیح بخاری ج1ص521باب مناقب عمر بن الخطاب)
ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی امتوں میں کچھ لوگ ایسے گزرے ہیں جو الہامی باتیں کرتے تھے اگرمیری امت میں کوئی ایسا ہو تو وہ حضرت عمر( رضی اللہ عنہ) ہونگے۔
چنانچہ قرآن کریم کی کئی آیات ایسی ہیں جو آپ رضی اللہ عنہ کی موافقت میں نازل ہوئیں۔
''عن ابن عمر رضی اللہ عنہما ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان اللہ جعل الحق علی لسان عمر وقلبہ"
(ترمذی ج2ص209مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب)
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل اور زبان پر حق کے سواء کوئی بات نہیں آتی عمر رضی اللہ عنہ بولتے بھی ٹھیک ہیں اور سوچتے بھی ٹھیک ہیں۔
"عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال کنا نقول ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہم حی افضل امۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعدہ ابوبکر ثم عمر ثم عثمان رضی اللہ عنہم،"
(سنن ابی داود ج2ص288باب فی التفضیل)
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کہا کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد اس امت میں سب سے افضل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ان کے بعد مقام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہے پھر حضرت عثمان رضی اللہ کا ہے۔یعنی فضیلت کے اعتبار سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دوسرا نمبر ہے۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی دینی خدمات:

قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کرنے کا مشورہ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیا۔تمام مفتوحہ علاقوں وممالک میں معلم مقرر کیے۔ بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم کو تعلیم دینے کے لیے مقرر فرمایا۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو کوفہ بھیجا، جنہوں نے وہاں کے لوگوں کو دین سکھایا اور پھر کوفہ سے بڑے بڑے اہل علم پیدا ہوئے جن کے سرخیل حضرت امام اعظم فی الفقہاء ابوحنیفہ تابعی رحمہ اللہ ہیں۔حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پورا مہینہ باجماعت تراویح کا اہتمام نہیں ہوتا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں اس کا اہتمام فرمایا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو باجماعت تراویح پر جمع کیا اور اس کے لیے ایک امام مقرر کیا چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے "
ان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ جمع الناس علی ابی بن کعب فی قیام رمضان فکان یصلی بھم عشرین رکعۃ "
(سنن ابی داود ص202باب القنوت فی الوتر)
ترجمہ: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان المبارک میں باجماعت تراویح کے لیے حضرت ابی بن کعب رضِی اللہ عنہ کوامام مقرر کیا وہ لوگوں کوبیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے قبول کیا کسی ایک نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔چنانچہ مشہور امام محدث فقیہ حافظ ابوبکر کاسانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
"ان عمر جمع اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی شھر رمضان علی ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فصلی بھم فی کل لیلۃ عشرین رکعۃ ولم ینکرعلیہ احد فیکون اجماعا منھم علی ذالک"
(بدائع الصنائع ج1ص644)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ باجماعت تراویح کے لیے حضرت ابی رضی اللہ عنہ کو صحابہ رضی اللہ عنہم کا امام بنایا وہ روزانہ بیس رکعات تراویح پڑھاتے تھے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس پر اتفاق کیا کسی ایک نے بھی انکار نہیں کیا، اس کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں اتنے دین کے کارنامے سرانجام دئیے جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں۔
شہادت:
ذوالحجہ کے آخر میں ابولؤلؤ مجوسی نے صبح کی نماز کے دوران آپ رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا جس سے آپ رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہو گئے۔اور بالآخر یکم محرم الحرام 24ھ کو دس سال سے اوپر خلافت کرنے کے بعد خالق حقیقی سے جاملے۔ام المومنین سیدہ حضرت امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اجازت سے آپ رضی اللہ عنہ کو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دفن کیا گیا۔ رضی اللہ تعالی عنہ
(البدایہ والنہایہ ج4ص138)