محدث کبیر سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
محدث کبیر سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ
حضرت مولانا محمد اکمل صاحب حفظہ اللہ
(دوسری اور آخری قسط)
سیدنا عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں
سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، آپ رضی اللہ عنہ کے متعلق فرماتے ہیں:
”ملی فقھا وفی روایۃ کیف ملی علما”
(مجمع الزوائد ج۹ ص ۴۷۶ حدیث ۱۵۷۷۱،مستدرک حاکم ج۴ ص ۳۷۹،سیر اعلام النبلاء ج۳ ص۲۱۶)
کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ علم کا بھر پور خزانہ ہیں۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کو خط لکھا جس میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا” وقد اٰثرتکم بعبداللہ علی نفسی وفی روایۃ منہ وتعلموا"
(مجمع الزوائد ج۹ ص ۴۷۷ حدیث:۱۵۵۷۲،اسد الغابہ ج۳ ص ۱۶۹،سیر اعلام النبلاء ج۳ ص۲۱۴،۲۱۶)
ترجمہ: اے اہل کوفہ! مجھے عبداللہ رضی اللہ عنہ کی انتہائی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں تم کو اپنے اوپر ترجیح دے کر ان کو تمہاری طرف بھیج رہا ہوں ان سے علم حاصل کرو۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"اللھم انی اشھدک.....اللھم انی اقول فیہ مثل ما قالوا او افضل لقد قرء القراٰن فاحل حلالہ وحرمہ حرامہ فقیہ فی الدین عالم بالسنۃ"
(مستدرک حاکم ج۴ص۵۴۳۱ حدیث ۵۴۳۱)
ترجمہ : اے اللہ ! میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں ان کے بارے میں وہی کہتا ہوں جو یہ (دیگر لوگ)کہہ رہے ہیں یا ان سے بڑھ کر کہتا ہوں کہ انہوں نے قرآن کریم پڑھا تو اس کے حلال کو حلال سمجھا اور اس کے حرام کو حرام سمجھا، یہ آپ کے دین کی سمجھ رکھنے والے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جاننے والے ہیں۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نےسیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں لوگوں کو فرمایا:’’لاتسئلونی ما دام ھذا الحبر فیکم‘‘
(صحیح بخاری ج۲ ص ۹۹۷،سیر اعلام النبلاء ج۲ ص۲۱۷ باب میراث ابنۃ ابن مع ابنۃ)
کہ جب تک یہ بڑے عالم تمہارے اندر موجود ہیں مجھ سے مت پوچھو۔
آنحضرت ﷺ کے ساتھ مشابہت:
حضرت عبدالرحمٰن بن یزید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا کہ اخلاق وعادات اور عمومی طور طریقہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب کون ہیں ؟ہم ان سے علم سیکھنا چاہتے ہیں۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فوراً بولے’’طور طریقوں اور عادات و اطوار میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہت حضرت ا بن مسعود رضی اللہ عنہ رکھتے تھے۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں کہ ان سب کے مقابلے میں ابن ام عبد(عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ )ان سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ قریب ہیں‘‘
(جامع الترمذی ج۲ ص ۲۲۱مناقب ابن مسعودرضی اللہ عنہ،الاصابہ لابن حجر ج۲ ص ۱۱۲۴)
دوسرے مقام پر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق فرماتے ہیں:
ان اشبہ الناس ھدیا وسمتا ودلا بمحمد صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن مسعود(رضی اللہ عنہ)
(مستدرک حاکم ج۴ ص ۳۷۴)
کہ سیرت، رہنمائی اورقرابت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہت حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ رکھتے تھے۔
روایت حدیث میں احتیاط: محدث کبیر سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ حدیث بیان کرنے میں بہت محتاط تھے۔ دوواقعات ذکر کئے جاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرنے میں کتنے محتاط تھے۔

1.

ابو عمرو شیبانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں سال بھر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مجلس میں حاضر ہوتا رہا۔ اکثر وہ " قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" کہہ کر حدیث بیان نہیں کرتے تھے۔ اگر کبھی" قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "کہہ کر حدیث بیان کرنے لگتے تو ان پر لرزہ طاری ہوجاتا۔ پھر کہتے اس طرح فرمایا، یا اس کی مثل فرمایا، یا اس کے قریب فرمایا۔
(تذکرۃ الحفاظ للذہبی ج۳ ص ۳۷)

2.

حضرت مسروق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
"حدثنا عبداللہ یوما فقال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرعد حتیٰ رعد ت ثیابہ ثم قال نحوذا اوشبھا بذا"
(سیر اعلام النبلاءج۳ ص۲۱۷)
کہ ایک دن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہمیں حدیث بیان کی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک کانپ رہا تھا اور آپ رضی اللہ عنہ کے کپڑے بھی آپ رضی اللہ عنہ کی کپکپاہٹ کی وجہ سے زور زور سے ہِل رہے تھے۔ حدیث بیان کرنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کےمشابہ یا اس کے قریب قریب فرمایا۔
علمی مقام: سیدنا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے علمی مقام کا اندازہ حضرت مسروق رحمہ اللہ کے اس فرمان سے لگایا جاسکتا ہے
"عن مسروق قال شاممت اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوجدت علمھم انتھی الی ستۃ؛ علی، وعمر،و عبداللہ، وزید، وابی الدرداء، وابی، ثم شاممت الستۃ فوجدت علمھم انتھیٰ الیٰ علی وعبداللہ"
(سیر اعلام النبلاء للذہبی ج۳ ص ۲۱۷)
ترجمہ: حضرت مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سونگھا (یعنی علمی اعتبار سے بغور دیکھا )تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے علم کو ان چھ میں پایا یعنی حضرت علی، حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زید، حضرت ابودرداء اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم۔ پھر ان چھ کو سونگھا تو ان کے علم کو حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما میں پایا۔
تعداد مرویات :
سیدنا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تقریباً آٹھ سو اڑتالیس (۸۴۸) احادیث مروی ہیں۔ ان میں سے چونسٹھ (۶۴)احادیث متفق علیہ ہیں۔ اکتالیس (۴۱) میں بخاری اور پینتیس (۳۵) میں مسلم منفرد ہیں۔
(کاتبین وحی از مولانا ابو الحسن اعظمی ص۱۱۳)
اتنی بڑی شخصیت کی مسند علمی کے وارث سیدنا اما م اعظم فی الفقہاء ابوحنیفہ نعمان بن ثابت التابعی الکوفی رحمہ اللہ بنے اور ان کے علم کو امت تک صرف پہنچایا نہیں بلکہ پہنچانے کا حق ادا کردیا۔
وفات: علم و عمل کا یہ روشن آفتاب۳۲ھ میں سیدنا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کل عمر تقریبا ً۶۰ سال پائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔
(سیر اعلام النبلاء ج۳ ص۲۱۹،مستدر ک حاکم ج۴ ص ۳۷۱،الاصابہ ج۲ ص۱۱۲۴،شذرات الذہب ج۱ ص۶۵)
اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ہمیں ان کے نقشہ قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔