قطب الارشادحضرت مولانا رشید احمدگنگوہی رحمہ اللہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تذکرہ اکابر:
قطب الارشادحضرت مولانا رشید احمدگنگوہی رحمہ اللہ
مولانا محمد عبداللہ معتصم حفظہ اللہ
ولادت وسیادت:
امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ 6ذیقعدہ 1244ھ بمطابق ٫1869 بروز پیر چاشت کے وقت اس دنیا ئے آب و گل میں تشریف لائے۔ آپ رحمہ اللہ کی پیدا ئش مشہور تاریخی مقام گنگوہ میں حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمہ اللہ کے مزار مبا ر ک سے متصل اپنے آبائی مکان میں ہو ئی آپ رحمہ اللہ کے وا لد ماجد کا نا م مولانا ہدایت احمد صا حب رحمہ اللہ ہے۔آپ رحمہ اللہ اپنے والد ماجد اور والدہ دونوں کی جا نب سے شریف النسب، شیخ زادہ انصا ری اور ایوبی النسل تھے، سلسلہ نسب حضرت ابو ایوب انصا ری رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔
حضرت گنگوہی رحمہ اللہ میں بچپن ہی سے غیر ت وحمیت، اہتمام نماز اور گناہو ں سے نفرت جیسی صفات موجود تھیں چنانچہ خود ذکرفرماتے ہیں کہ اللہ تعا لی نے مجھے بچپن میں ایسا یقین نصیب فرما یا تھا کہ اگر دورا ن کھیل نماز کا وقت آجاتاتو بلا کسی تا خیر کے کھیل چھو ڑ کر نماز کے لئَے چلاجاتا تھا اور لوگو ں سے کہہ دیتا کہہ ہم نے اپنے ماموں صا حب سے سنا ہے کہ تین جمعہ کا چھوڑنے والا منافق لکھا جاتا ہے۔ اندازہ کیجئے کہ جس فر مان رسول سے عموماً لوگ غفلت کا شکا ر ہو تے ہیں حضرت مولانا رحمہ اللہ صغر سنی میں اس کا کتنا خیال رکھتے تھے۔
تعلیم وتربیت:
آپ رحمہ اللہ نے ابتدا ئی دینی تعلیم ایک مقامی استاد میاں جی قطب بخش صاحب رحمہ اللہ سےحاصل کی اس کے بعد فارسی کی کتا بیں اپنے بڑے بھا ئی مولانا محمد عنا یت احمد صاحب رحمہ اللہ اور مولانامحمدتقی صا حب رحمہ اللہ سے پڑ ھیں فارسی کے بعدعربی پڑھنے کا شوق ہواتوآپ رام پور تشریف لےگئے اوروہاں مولانا محمدبخش صا حب رحمہ اللہ سے عر بی کی ابتدا ئی کتا بیں پڑھیں۔ مولانا محمد بخش رحمہ اللہ نے اعلی تعلیم حاصل کر نے کے لئے آپ رحمہ اللہ کو دہلی جا نے کا مشورہ دے دیا استاد کے مشورہ کو حکم سمجھتے ہوئے آپ رحمہ اللہ نے1261٫میں دہلی کا سفر کیا چو نکہ اس دور میں دہلی علوم وفنون کا مرکز تھا اور مختلف عظیم ہستیاں حلقہ درس لگا ئے تھیں، لیکن مولانارحمہ اللہ کی ذہین طبیعت کو کہیں تشفی نہ ہو ئی آخر ایک دن آپ رحمہ اللہ مولانامملوک علی نانوتوی رحمہ اللہ کے حلقہ درس میں گئے تو وہا ں دل لگ گیااور فیصلہ کر لیا کہ یہیں پڑھو ں گا۔
مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ بھی ان دنوں مولانا مملوک علی صاحب رحمہ اللہ کے پاس زیر تعلیم تھے چنانچہ اپنے زمانہ کے شمس وقمر نے ایک جگہ تعلیم حاصل کر کے کتا ب وسنت کی ایسی تحریک چلا ئی کہ پورا برصغیر پا ک وہند علم دین سے جگمگا اٹھا یہ دو نوں حضرات پوری جماعت کے ذہین وفطین طلبا ء میں سے تھے بسا اوقات علمی مسائل میں منا ظرہ تک نوبت آ جا تی تھی تمام طلبا ء ان حضرات کی نکتہ سنجیوں سے خوب محظوظ ہو تے تھے اساتذہ ان مناظرو ں کا فیصلہ کرتے ہو ئے فر ما تے تھے"رشید احمد حق پر ہے مگر قاسم اپنی تیزی سے ہاتھ نہیں آتا"۔
)تذکرۃالرشید :ص:30 (
مولانا مملوک علی رحمہ اللہ کے علاوہ آپ رحمہ اللہ نے بعض علوم عقلیہ مولانا مفتی صدر الدین صاحب رحمہ اللہ سے بھی پڑھے اور حدیث شریف کے اسباق قدوۃ العلماء حضرت مولانا شاہ عبد الغنی مجددی رحمہ اللہ سے پڑھے۔ نانوتوی اور گنگوہی رحمہا اللہ دونوں شاگردیہاں بھی اپنی ذہانت وذکاوت کی وجہ سے استاد کی خصوصی عنایات کے مستحق ٹھہرے حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی دہلی میں تعلیمی مدت تقریبا ً چار سال بنتی ہے اس مدت کو ملاحظہ کیا جائے اور پھر آپ رحمہ اللہ کے علم واستعدا دکو دیکھا جائے (جس کا مخا لفین بھی اعتراف کرتے تھے )تو بے ساختہ دل سےآواز اٹھتی ہے :
لیس علی اللہ بمستنکر
ان یجمع العالم فی واحد
تدریس:
یوں تواللہ تعا لی نے آپ رحمہ اللہ کو تمام علوم میں مہا رت تا مہ عطا ء فرما ئی تھی لیکن حدیث وفقہ سے آپ رحمہ اللہ کو بہت زیادہ شغف تھا اپنے زمانہ میں آپ رحمہ اللہ حدیث اور فقہ کے امام تسلیم کیے جا تے تھے فقہ حنفی کی مشہور کتا ب ہدا یہ کو آپ نے چودہ مرتبہ سے زیادہ پڑھا یا تھا تقریباً 49 سال تک درس حدیث دیتے رہے۔ اس دوران تین سو سے زائد طلبا ء کرام نے آپ رحمہ اللہ سے دورہ حدیث کی تکمیل کی آپ رحمہ اللہ کے درس حد یث میں ایک بڑی اور اہم خوبی یہ تھی کہ مضمون حدیث سن کر اس پر عمل کر نے کا جذ بہ پیدا ہوتا تھا یہ خا ص اثر اس لئے تھا کہ آپ رحمہ اللہ سب سے زیادہ متبع سنت تھے آپ رحمہ اللہ کی تدریس میں محویت کا ایسا عالم ہوتا تھا کہ ہر شریک درس کی یہ خواہش ہو تی کہ سلسلہ درس مزید دراز ہو، اور جب سبق ختم ہوتا تو ہر ایک یہ سمجھتا کہ ابھی تشنگی با قی ہے۔
سلوک وتحصیل معرفت:
خدا طلبی اور معرفت خداوندی کا شوق ازل سے آپ رحمہ اللہ کے قلب مبارک میں اللہ تعالیٰ نے ودیعت فرمایا تھا چنانچہ تحصیل علم کاسلسلہ ختم ہونے کے بعد اب مرشد کامل کی تلاش ہوئی اور یہی جستجو آپ رحمہ اللہ کو تھانہ بھون لے آئی اور وہاں پر حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالی سے بیعت ہوئے بیعت کے چند ہی دنوں بعد حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ نے آپ رحمہ اللہ کو خلافت دیتے ہوئے فرمایا"میاں مولوی رشید احمدجو نعمت اللہ تعالی نے مجھے دی ہے وہ میں نے تجھے دے دی آئندہ اس کو بڑھانا تیراکام ہے "اس خدائی نعمت کو(جس کے لیے دردر کی خاک چھاننا پڑتی ہے)پاکر جب آپ رحمہ اللہ واپس گنگوہ تشریف لائے تو حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی رحمہ اللہ کی خانقاہ جو تین سو سال سے ویران اور خراب وخستہ پڑی تھی کو مرمت کرکے آباد کیا اور وہیں پر ذکر وفکر الہی میں مشغول ہوگئے ہر وقت استغراق، محویت اور تفکر کے عالم میں رہتے
اکثر تمام شب روتے روتے گزر جاتی، والدہ ماجدہ نے آپ رحمہ اللہ کے لیے نیلے رنگ کی ایک چادر بنائی تھی کہ رات کو مسجد آتے جاتے خنکی سے محفوظ رکھے۔مولانا کے گریہ وزاری اور آنسو ؤں کی کثرت کی وجہ سے اسکا رنگ کئی جگہ سے متغیر ہوگیا تھا۔
آپ رحمہ اللہ رات کے آخری پہر میں اس انداز اور جذب وکیفیت سے ذکر جہر فرماتےکہ ایسا معلوم ہوتا کہ ساری مسجد کانپ رہی ہے۔ خود پر جو حالت گزرتی ہوگی اس کی کسی کو کیا خبر۔
جس قلب کی آہوں نے دل پھونک دئیے لاکھوں
اس قلب میں یا اللہ ! کیا آگ بھری ہوگی
تواضع وانکساری:
باوجود فضل وکمال کے آپ رحمہ اللہ نہایت متواضع اور منکسر المزاج تھے آپ رحمہ اللہ اپنے کوکبھی بھی کسی دوسرے پر ترجیح نہیں دیتے تھے۔ ایک دفعہ آپ رحمہ اللہ نے دوران درس ایسی بلیغ تقریر فرمائی کہ طلبہ جھوم اٹھے اور آپ رحمہ اللہ کے سامنے ہی آپ رحمہ اللہ کی تعریف کرنے لگے تو آپ رحمہ اللہ رو پڑے اور بےساختہ قسم کھاکر فرمایا "میں اپنے کو تم میں سے کسی کے برابربھی نہیں سمجھتا چہ جائیکہ زیادہ سمجھوں"
آپ رحمہ اللہ کو قسم کھانے کی مطلق عادت نہ تھی لیکن اس موقع پر بلا اختیار آپ رحمہ اللہ سے قسمیہ الفاظ صادر ہوگئے۔
ایک دفعہ درس حدیث کے دوران بارش شروع ہوگئی، طلبہ نےبارش سے بچانے کی غرض سے جلدی جلدی کتابیں اور تپائیاں اٹھائیں اور چل دئیےاچانک طلبہ نے دیکھا کہ حضرت مولانا رحمہ اللہ اپنے کندھے کی چادر میں طلبہ کی جوتیاں ڈالی ہوئی ہیں اور اٹھائے چلے آرہے ہیں طلبہ بہت زیادہ نادم وحیرت زدہ ہوئے تو فرمایا"اس میں کون سی بری بات ہے تمہاری خدمت کرنا تو میری نجات کا باعث ہےطلباء دین کے لیے تو مچھلیاں سمندر میں،چیونٹیاں بلوں میں دعا کرتی ہیں اور فرشتے تمہارے قدموں کے نیچے اپنے پر بچھاتے ہیں اور تم تو مہمانان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو"
جب 1857ء کا ہولناک حادثہ ختم ہوا تو حکومت برطانیہ نے ہر اس آدمی کو تختہ دار پر لٹکادیا جس کے متعلق ذرا سا بھی شبہ ہواکہ یہ تحریک آزادی سے متعلق ہے چنانچہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہم اللہ کے نام گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے۔ حضرت صاحب رحمہ اللہ تو مکہ مکرمہ ہجرت فرماگئے۔
مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا گنگوہی رحمہا اللہ روپوش ہوگئے لیکن مخبر کی خبر رسانی سے آپ رحمہ اللہ کو گرفتارکیا گیا اور سہارنپور کی کال کوٹھڑی میں رکھا گیا۔ تین چار دن کال کوٹھڑی میں بند رہے تحقیقات اور پیشی پر پیشی ہوتی رہی آخر عدالتی فیصلے کے تحت آپ رحمہ اللہ کو مظفرنگر جیل بھیج دیا گیا۔
وہاں پر آپ رحمہ اللہ تقریباً چھ ماہ رہے اس عرصہ میں آپ رحمہ اللہ کے عزم واستقلال،بلندہمتی اور حق گوئی میں کچھ فرق نہ آیا۔بالآخر جب حکومت کو کوئی ثبوت آپ کے متعلق نہیں ملا تو آپ رحمہ اللہ کو باعزت رہا کردیا گیا۔
تصانیف:
مولانا گنگوہی رحمہ اللہ کو تصنیف وتالیف سے کچھ زیادہ شغف نہ تھا البتہ مسائل شرعیہ اور خالصتاًمختلف فیہ مسائل میں رفع تضاد کے لیے کچھ نہ کچھ لکھ دیتے تھے۔ آپ رحمہ اللہ کی مشہور تصانیف یہ ہیں۔

ردالطغیان فی اوقاف القرآن-----قرآن مجید کے اوقاف کو بدعت ثابت کرنے والوں کا جواب

ہدایۃ الشیعہ----- ایک شیعہ عالم ہادی علی لکھنوی کے اعتراضات کے جوابات

زبدۃ المناسک-----حج کے مناسک سے متعلق ایک عام فہم رسالہ

قطوف دانیہ------ محلہ کی مسجد میں جماعت ثانیہ کی کراہت کا فقہ سے ثبوت

ہدایۃ المعتدی-----قراءۃ فاتحہ خلف الامام کے جوابات

سبیل الرشاد------ ردعدم تقلید

رسالہ تراویح------ بیس رکعات تراویح کا احادیث سے ثبوت

لطائف رشیدیہ------آیات قرآنی کے نکات وغیرہ

تصفیۃ القلوب------حضرت حاجی صاحب کی تصنیف "ضیاء القلوب"کااردو ترجمہ
وفات حسرت آیات :
جمادی الاولی 1322ھ کو آپ رحمہ اللہ تہجد کی نماز میں مشغول تھے کہ آپ رحمہ اللہ کے پاؤں کی دو انگلیوں کے درمیان کسی جانور نے کاٹا۔آپ رحمہ اللہ نے معمولی زخم سمجھ کر توجہ نہ دی آخر یہی زخم وفات کا سبب بنا۔
9جمادی الثانی بمطابق11اگست 1905ء کو جمعہ کے دن اذان جمعہ کے بعد ساڑھے بارہ بجے دنیا سے مفارقت فرمائی۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔