کتاب الخراج

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
تعارف کتب فقہ
کتاب الخراج
حضرت مولانا محمد یوسف حفظہ اللہ
کتاب الخراج دراصل اس رسالہ (خط )کا نام ہے جو امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم رحمہ اللہ (م162ھ)نے حکو متی مالیات کے متعلق عباسی خلیفہ ہارون الرشید (م 193 ھ)کو لکھا تھا اس میں امام ابو یو سف رحمہ اللہ نے حکومت کے ذرائع آمد اور ا س کے مصارف پر کتاب و سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فتاوی جات کی روشنی میں مفصل بحث کی ہے۔
سب سے پہلے آپ رحمہ اللہ نے اپنے دعوی کی تائید میں چند احادیث ذکر کی ہیں پھر ان سے علتوں کا استنباط کیا ہے اس کے بعد اقوال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ذکر کر کے مناط حکم (افعال کا مبنی ومدار) معلو م کرتے ہیں اور ان علتوں پر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رائے کے خلاف مسائل کی بنیاد رکھتے ہیں مثلاً بعض اوقات ایک مسئلہ کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فتویٰ کے خلاف فرض کے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر اعتراض کی شکل دیتے ہیں اور پھر ان کی جانب سے تسلی بخش دفاعی جواب دیتے ہیں۔ چنانچہ ایک فرضی اعتراض اور اس کے جواب کا نمونہ ملاحظہ ہو۔
امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ آپ رحمہ اللہ اہل خراج سے زمین کی مختلف قسم کی پیداوار، کجھور اور انگور پر مقاسمت (بٹائی)کا فتوی کیوں دیتے ہیں ؟ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زراعتی زمین اور باغات پر جو ٹیکس مقرر کیے تھے ان کے مطابق آپ رحمہ اللہ عمل کیوں نہیں کرتے ؟
قاضی القضاۃ امام یوسف رحمہ اللہ اس سوال کا مسکت، مدلل اور وزن دار جواب دیتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فتوی اس وقت کے حالات کے مطابق تھا آپ رضی اللہ عنہ نے خراج عائد کرتے وقت یہ نہیں فرمایا تھا کہ اہل خراج کے لیے یہ خراج حتمی اور دائمی ہے اور مجھے اور میرے بعد کے خلفا ء کے لیے اس میں کمی بیشی کا کوئی اختیار نہیں یہی وجہ ہے کہ جب سر زمین عراق سے حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہماان کے عائد کردہ ٹیکس سے زیادہ آمدنی لے کر حاضر ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے باز پرس کرتے ہوئے فرمایا:
"شاید تم نے اس زمین پر اتنا خراج مقرر کیا ہے جو اس کی پیداوار زائد ہے"؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اگر آپ رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ عامل اعتراف کر لیتے کہ واقعی وہ زمین خراج کی اتنی بھاری رقم برداشت نہیں کر سکتی تو آ پ رضی اللہ عنہ ضرور اسے کم کر دیتے۔ کیوں کہ اگر آپ رضی اللہ عنہ کا عائد کردہ ٹیکس قطعی اور حتمی ہوتا اور اس میں کمی بیشی کا امکان نہ ہوتا تو آپ رضی اللہ عنہ ہر گز ان سے یہ دریافت نہ فرما تے کہ تم نے (کہیں) زمین پر اس کی پیداوار سے زیادہ بوجھ تو نہیں ڈالا ؟
علاوہ ازیں خراج کی کمی بیشی کے جواز کی بڑی واضح دلیل حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کا وہ جواب ہے جو انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا کہ "میں نے زمین پر اتنا ہی بوجھ ڈالا ہے جس کی وہ متحمل ہو سکتی ہے بلکہ اس کے بعد بھی کافی بچت ہو جاتی ہے "
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دست راست اور شاگرد جلیل قاضی امام ابویو سف رحمہ اللہ نےاس کتاب میں بہت سے مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اپنا اختلاف بھی ذکر کرتے ہیں جس سے فقہا ء کرام نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جن مسائل میں آپ رحمہ اللہ نے اپنے استاد اور شیخ امام اعظم رحمہ اللہ سے اختلاف کا ذکر نہیں کیا ان میں ضرور دونوں حضرات متفق ہیں اور جن مسائل کو بلا اختلاف ذکر کیا وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے افکار وآراء ہیں۔
تاہم امام ابو یوسف رحمہ اللہ جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے بیان کرتے ہیں تو اسے دلیل و برہان سے آراستہ کرتے ہوئے قیاس و استحسان کی وجہ بھی ذکر کرتے ہیں اور علمی امانت کا حق ادا کرنے کی غرض سے اپنی دلیل کے بجائے اپنے استاد کے استدلال کا زیادہ اہتمام کرتے ہیں اس کی نظیر حسب ذیل مسئلہ میں ہی ملاحظہ کر لیجیے۔
وہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بے آباد زمین کو آباد کر نا چاہے تو اس کے لیے حاکم وقت کی اجازت ضروری ہے یا نہیں ؟ امام ابو یوسف رحمہ اللہ حاکم وقت کی اجازت ضروری نہیں سمجھتے کیوں کہ آباد کرنے کی وجہ سے آباد کار اس زمین کا مالک بن جائے گا مگر امام اعظم رحمہ اللہ حاکم وقت کی اجازت لازم قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ دونوں نظریات اور ان کے دلائل سے متعلق امام ابو یو سف رحمہ اللہ نے جو کچھ سپرد قلم کیا ہے وہ لائق توجہ اور غور طلب ہے۔
موصوف لکھتے ہیں :حدیث مبارکہ:
" من احیا ارضاً میتۃً فہی لہ"
( المعجم الاوسط للطبرانی رقم الحدیث601)
(جس نے بنجر زمین کو آباد کیا وہ اس کی ملکیت ہوگی)کے بارے میں امام اعظم رحمہ اللہ یہ فرماتے ہیں کہ بنجر زمین آباد کا ر کی ملکیت تب ہو گی جب حاکم وقت کی اجازت کے ساتھ آبا د کی جائے اگر کوئی آدمی بلا اجازت آبا د کرے گا تو وہ اس کا مالک متصور نہ ہو گا حاکم وقت کو اختیار حاصل ہو گا چاہے تو وہ زمین بحق سرکار ضبط کر لے اور چاہے تو اسے بطور جاگیر بخش دے۔
امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے پو چھا گیا کہ امام اعظم رحمہ اللہ نے ضرور کسی دلیل کے پیش نظر یہ مسئلہ اختیار کیا ہو گا امید ہے کہ آپ رحمہ اللہ نے امام صاحب رحمہ اللہ سے ان کی حجت سنی ہو گی اس سے ہمیں آگاہ فر مائیں جواباً امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے فر مایا۔
امام اعظم رحمہ اللہ کی دلیل یہ ہے کہ آبادی حاکم وقت کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں اس لیے اجازت حاکم ضرور ی ہے مثلاً دو شخص ایک خاص جگہ کو آباد کرنا چاہتے ہیں اور ہر ایک ان میں سے دوسرے کے حق میں رکاوٹ ہے۔ ایک کہتا ہے میں آباد کروں گا دوسرا کہتا ہے میں آباد کروں گا تو آپ بتائیے کس کو حق دار قرار دیں گے ؟
اسی طرح ایسی بنجر زمین کو کوئی آدمی آباد کرنا چاہے جوکسی کے صحن میں واقع ہو اور صاحب مکان اس بات کو تسلیم کرتا ہو کہ اس زمین پر اسے کوئی حق حاصل نہیں مگر اس کے باوجو د وہ بضد ہو کہ " میں کسی کو یہ زمین آباد نہ کرنے دوں گا کیوں کہ اس سے مجھے ضرر اور تکلیف لاحق ہو گی اب بتائیے کہ فیصلہ کس کے حق میں ہو گا ؟
تو ایسے مواقع پر امام اعظم رحمہ اللہ نے اجازت حاکم کو شرط قرار دیا ہے کہ وہ جو فیصلہ صادر کرے گا وہ نا فذ العمل ہوگا آباد کار کے حق میں اس کا اجازت نامہ بھی معتبر ہو گا اور آباد کاری سے منع کرنا بھی درست ہوگا۔
امام اعظم رحمہ اللہ کا یہ قول معاشرے میں امن سلامتی کی فضا پیدا کرنے اور نزاع و فساد کے خاتمے پر مبنی ہے کسی بھی طرح حدیث کے خلاف نہیں۔ حدیث کے خلاف اس وقت ہوتا جب امام اعظم رحمہ اللہ یہ کہتے کہ حاکم وقت کی اجازت کے باوجود بھی وہ زمین آباد کار کی ملکیت شمار نہ ہوگی حالانکہ اذن حاکم سے آباد شدہ زمین کو امام صاحب رحمہ اللہ آباد کا ر کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں۔ لہذا یہ بات واضح ہوئی کہ امام اعظم رحمہ اللہ کا یہ قول حدیث کے موافق ہے مخالف نہیں۔
مگر میری (امام ابو یوسف رحمہ اللہ)کی رائے یہ ہے کہ جب باہمی ضرر ونزاع کا اندیشہ نہ ہو تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فر مان عالی شان
"من احیا ارضاً میتۃً فہی لہ "
عام اجازت پر محمول ہوگا یعنی حاکم وقت کی اجازت آباد کاری کے لیے شرط نہ ہو گی۔ مگر جب لڑائی اور نقصان کا خطرہ ہو تو اس حدیث مبارکہ
" ولیس لعرق ظالم حق "
(المعجم الاوسط للطبرانی حدیث601)
(ظالم شخص کا اس پر کوئی حق نہیں ہے)کے مطابق فتوی ہو گا۔لہذا اس صورت میں آباد کار کی ملکیت ثابت نہ ہوگی۔
غرضیکہ اسی طرح جہاں بھی امام ابو یوسف رحمہ اللہ اپنے استاذ محترم کا اختلاف ذکر کرتے ہیں وہاں اگر وہ مقام محتاج تفصیل ہو تو اس کے دلائل بھی تفصیلاً بیان کرتے ہیں جیساکہ مذکورہ بالا مسئلہ میں انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ میرے شیخ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حدیث کی مخالفت نہیں کی بلکہ اس کے عموم کی تخصیص کی ہے یا مطلق کو مقید کردیا ہے۔ اور جہاں تفصیل کی ضرورت نہ ہو تو وہاں اجمال پر ہی اکتفا ء کرتے ہیں۔
الغرض حقیقت یہ ہے کہ اختلاف کا ذکر کرنے میں امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا طر ز بیان ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آخر میں یہ بات واضح رہے کہ کتاب الخراج خالص امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی آراء پر مشتمل ہے اس میں دوسرے فقہاء کرام کے اقوال نہیں ہیں اور انصاف یہ ہے کہ کتاب الخراج اپنے موضوع پر ایک ایسا بے مثال فقہی سر مایہ ہے جس کی اس دور میں مثال نہیں ملتی۔