اللہ تعالی اور اس کے رسول کی شفقت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اللہ تعالی اور اس کے رسول کی شفقت
ضبط و ترتیب: مولانا محمد عبد اللہ۔مری
مرکز اہل السنۃ والجماعۃ میں ہر انگریزی ماہ کی پہلی جمعرات بعد نماز مغرب مجلس ذکر ہوتی ہے۔پیر طریقت، متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب دامت فیوضہم وعظ فرماتے ہیں، جس میں حضرت الشیخ زید مجدہم کے مریدین ومتعلقین کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔6جنوری 2012ء کو حضرت کا کیا وعظ افادہ عام کی غرض سے شائع کیا جارہا ہے۔
خطبہ مسنونہ کےبعد فرمایا:
''دنیا میں انسان اللہ کی عبادت کے لیے آیا ہے۔ عبادت کا معنی احکام خدا وندی کو مان لینا ہے۔ اللہ تعالی کے احکام دو قسم کے ہیں۔
1: اوامر، 2: نواہی
اوامر: وہ کام جن کا اللہ تعالی نے کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور نواہی: وہ کام جن سے اللہ نے منع کیا ہے جس کو قرآن کریم نے مختصراً یوں بیان کیا۔
" وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"
جو حکم پیغمبر کے وہ کرلو، جس منع کرے اس سے رک جاؤ،اور یہ بات پکی ہے کہ جتنا ہم اپنی ذات کے ساتھ مخلص نہیں ہیں جتنا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے ساتھ مخلص تھے۔ جتنی امت کے جنت میں جانے کی فکر اور کڑہن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تھی اتنی ہم کو خود بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالی اس کی قدر کی توفیق عطاء فرمائے۔
اس مضمون کو قرآن یوں سمجھاتا ہے:
" لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ "
" رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ
"سے یہ بات سمجھ آئی کہ وہ بشر تھے اور اگر وہ بشر نہ ہوتے تو ہمارے دکھ درد کا احساس کیسے کرتے۔ اللہ تعالی نے نبی علیہ السلام کو بشر بنا کر بھیجا تاکہ وہ ہمارے دکھ درد سمجھ سکیں۔
" عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ "کہ جس کام میں تمہیں تکلیف ہو وہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑاں گراں گزرتا ہے۔میں نے ایک دفعہ علامہ دمیری کی حیوۃ الحیوان میں ایک واقعہ پڑھا۔ کہ ایک بزرگ تھے، جب ان کوئی تکلیف ہوتی تو وہ جن الفاظ میں دعا مانگتے وہ بڑے قابل غورہیں "اے اللہ ہماری تکلیف سے سے نبی علیہ السلام کو تکلیف ہوتی ہے اور مومن کی تکلیف سے شیطان خوش ہوتا ہےاور مومن کو خوشی ہو تو نبی علیہ السلام خوش ہوتے ہیں اور شیطان پریشان ہوتا ہے۔ وہ دعا کرتے "اے اللہ میرے دکھ کو دور کرکے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو روضہ اطہر میں خوش کردے اور شیطان کو پریشان کردے "یہ کتنا بڑا واسطہ ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔
ہمارے شیخ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ اگرمحلے کا بچہ تفریح کے وقت آپ کے گھر آکر لڈو مانگے تو شاید آپ نہ دیں اور اگر وہ تفریح کے وقت آپ کے بیٹے کے ساتھ آجائےاور آپ اپنے بیٹے کو لڈو دیں اور اس کو نہ دیں تو آپ کا بیٹا کہے گا ابوجان میرا کلاس فیلو ہے اس کو بھی لڈو دو تو آپ کا دل نہ بھی مانے تب بھی اپنے بیٹے کی خوشی میں اس کو لڈو دیں گے۔ وہ لوگ بھی اس طرح دعا کرتے ہیں کہ میرے دکھ کو دور کرکے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کردےاور اللہ تعالی نے بات سمجھا دی ہے "
حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ "
کہ میرا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر ایمان والوں کے ساتھ بہت رحیم ہے۔خاص طور پر مومنین کا لفظ اس لیے ذکر فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے ساتھ بھی رحم وشفقت کا معاملہ فرماتے تھے۔ مجھے لفظ رحمت پر ایک واقعہ یاد آیا۔
حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ شیطان نے علامہ شبلی رحمہ اللہ کو جو کہ تصوف میں مشہور ہیں کو ایک وسوسہ دیا کہ قرآن کریم میں ہے "وسعت رحمتی کل شئی"کہ اللہ کی رحمت ہر چیز سے وسیع ہے تو شیطان بھی تو ایک چیز ہے تو معلوم ہوا کہ وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔ کیونکہ اس پر بھی اللہ کی رحمت ہوتی ہے، جہنم میں تو وہ جائے گا جس پر اللہ کی رحمت نہ ہو۔
حضرت شبلی رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ میں بغیر دلیل کے اس بات کو مانتا ہوں کہ اس کا جواب نہیں دیتا۔حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر مجھ سے پوچھا جات تو میں دلیل بھی دیتا۔
وہ یہ کہ ایک آدمی جو 100 جوتوں کا مستحق ہو تو اگر اس کو 80یا90 جوتے مارے جائیں اور باقی معاف کیے جائیں تو یہ بھی ایک قسم کی رحمت ہوئی۔تو جو عذاب اللہ تعالی شیطان کو دیں گے شاید وہ اس سے بھی زیادہ کا مستحق ہو مگر اللہ تعالی نے اس کو کم عذاب دیا۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے علوم بڑے عجیب ہیں، حضرت حکیم اختر صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ " فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ "کی تفسیر میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں"فاذکرونی بالاطاعۃ اذکرکم بالعنایۃ"کہ تم میری اطاعت کرتے رہو اور میں تمہارے اوپر عنایت کے دریا بہا دوں گا۔
بندہ کا یاد کرنا اس کی حیثیت کے مطابق ہے اور اللہ کا یاد کرنا اس کی اپنی شان کے مطابق ہے۔ تو بات چل رہی تھی اوامر ونواہی کی، آدمی اوامر پر عمل اور نواہی سے اس وقت بچ سکتا ہے جب اس میں دو چیزوں ہوں۔
1: اللہ کی محبت 2: اللہ کا خوف
جب اللہ کی محبت ہوگی تو بہت سے گناہ اس کی محبت کی وجہ سے چھوڑ دے گا۔اور جب اللہ خوف ہوگا تو بہت سے گناہ اللہ کے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے گا۔
اللہ کے خوف اور دنیا کے خوف میں فرق ہے۔حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک خوف ہوتا ہے کسی ڈاکو اور درندے سے اور ایک خوف ہوتا اپنے والد اور استاد سے، تو اللہ کا خوف اللہ کی عظمت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے اللہ کا خوف بھی مانگا ہے اور محبت بھی مانگی ہے۔
جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے
"اللھم انی اسئلک حبک وحب من یحبک وحب عمل یبلغنی حبک"
(جامع ترمذی ج2ص187قدیمی)
ترجمہ:
اے اللہ اپنی محبت دے اپنے محبوب بندوں کی محبت دے اور ان اعمال کی محبت دے جو تیری محبت تک پہنچا دیں۔حضرت حکیم اختر دامت برکاتہم نے سیدسلیمان ندوی رحمہ اللہ کے واسطے سے یہ بات ذکر کی ہے یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ سےاس کی اپنی محبت اور عمل صالحہ کی محبت مانگی جائے مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ
"وحب من یحبک "
کیوں فرمایا۔ تو اصل یہ ہے کہ
"اللھم انی اسئلک حبک"
مقصود یہی ہے اوریہ ملے گی کیسے۔تو ملے گی ان اعمال سے جو محبت الہی کی طرف لے جائیں اور وہ اعمال کہاں سے ملتے ہیں۔ تو یہ اللہ تعالی کے عاشقوں سے ملتے ہیں۔
ان کی مجالس میں ملتے ہیں۔اس لیے اکابرین یہ فرماتے ہیں کہ اپنے بزرگوں کی مجالس میں بیٹھ کر ان سے فیض حاصل کیا کریں۔حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نے ایک واقعہ لکھا ہے جو کہ تفاسیر میں بھی ہے
"اللہ یجتبی الیہ من یشاء ویھدی الیہ من ینیب"
(سورہ شوریٰ آیت13)
کے ذیل میں موجود ہے۔ کہ"حضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے قبول اسلام سے قبل ہندہ کے کہنے پر اپنی آزادی کی خاطر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا۔بعد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کی طرف اسلام کی دعوت کے لیے قاصد بھیجا توحضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے کہا
" کیف تدعونی الیٰ دینک "
آپ کا دین تو بہت سخت ہے۔اس میں لکھا ہے کہ جس بندے نے قتل کیا،زنا کیا اور شراب پی تو اس کو عذاب ہوگااور میں نے تو یہ سب کچھ کیا ہے۔
پھر میں کس طرح اسلام قبول کروں۔قاصد نے واپس آکر پیغام پہنچایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالی کی طرف سے وحی نازل ہوئی
" إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا الآیہ"
توحضرت وحشی رضی اللہ نے یہ سن کر کہا کہ یہ بھی مشکل ہے تو پھر قاصد نے واپس آکر نبی علیہ السلام کو بتایاپھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی
" إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ "
حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کو جب اس کا علم ہو تو کہا کہ "وراٰنی قلبی شبھۃ" کہ میرےمیں اب بھی ایک شبہ ہے مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ اللہ نے مجھے معاف کردیا وہ چاہے تو مغفرت کرے اور چاہے تو نہ کرے،پھر قاصد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی۔
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
،یہ آیت سن کر حضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے کہا، اشھدان لاالہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ رسولہ"
(روح المعانی ج13ص15)
تو جب اللہ کی رحمت متوجہ ہو تو بندہ کو یوں اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اوامر پر چلنے اور نواہی سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین