فرقہ واریت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

فر

قہ واریت کا خاتمہ کیسےممکن ہے
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کے لیے دین اسلام پسند فرمایا اور اسے کامل و اکمل فرما کر امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کو عطاء فرمایا ۔ دین اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو قیامت تک باقی رہے گا ۔ اور حدیث کی رو سے ایک جماعت اسے قیامت تک لے کر چلے گی: میری امت کا ایک گروہ اللہ تعالی کے حکم پر ہمیشہ قائم رہے گا جو کوئی ان کو ذلیل کرے گا یا ان کی مخالفت کرے گا تو وہ ان کو کچھ ضرر نہ پہنچا سکے گا اور قیامت تک وہ اسی حالت[احکام الہی] پر ثابت قدم رہیں گے۔
(صحیح البخاری حدیث نمبر 3641)
دین میں بگاڑ دو وجوہ سے آتا ہے ۔ایک الحاد اور دوسرا بدعت سے۔ اگر ثابت شدہ مسائل کا انکار کیا جائے تو یہ ''الحاد'' ہے اور اگر دین میں غیر ثابت شدہ مسائل کو داخل کیا جائے تو یہ'' بدعت'' ہے ۔ یہی الحاد وبدعت فرقہ بندی کا سبب بنتے ہیں جو امت کے شیرازہ کو بکھیر کر اسے کئی ٹکڑوں میں تقسیم کردیتے ہیں ۔
موجودہ دور میں ہم جن مسائل سے دو چار ہیں ان میں ایک مسئلہ یہی "فرقہ بندی " بھی ہے ۔ایک فرقہ دوسرے کے مخالف، ایک مسجد والوں کا پروپیگنڈا دوسری مسجد والوں کے خلاف اور ایک تنظیم کا دوسری تنظیم سے اختلاف ۔۔۔غرض مسلمان باہم دست وگریباں نظر آتے ہیں ۔ اس کشمکش میں جہاں باطل حق کے خلاف زبان درازی کرتا ہے وہاں عوام الناس بھی عجیب الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں کہ آخر حق بات کس کی ہے،باطل کس کی ؟؟ ؟
یہ اختلاف اگر علمی دائرے میں ہو ، دوسرے فریق کے جذبات اور عزّت نفس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی رائے و موقف کا اظہار کیا جائے تو ایک حد تک درست لیکن اگر انا پرستی اور ذاتی رنجش کی بنا پر ہو تو یقیناً مذموم اور قابل مذمت ہے ۔اس اختلاف کا حل اگر ڈھونڈنا ہے تو ہمیں یقیناً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا:
فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ
(سنن الترمذی رقم الحدیث 2676 )
ترجمہ : میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو جو ہدایت یافتہ ہیں ۔
قرآن وسنت کی وہ تشریحات جو صحابہ کرام خصوصاً حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں اختلاف کے ختم کرنے کا سبب بن سکتی ہیں ۔
ہماری موجود حکومت نے فرقہ واریت کے خاتمہ کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔ اسی سلسلہ میں 2 فروری 2012 ء بروز جمعرات شام آٹھ بجے جناب میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب نے دیوبند کے مقتدر علماء کا اجلاس بلایا ۔ جن میں حافظ فضل الرحیم جامعہ اشرفیہ لاہور ، مولانا مجیب الرحمن انقلابی ،حافظ اسد عبید ، مولانا عبد الشکور حقانی اور دیگر علماء بشمول راقم الحروف شامل تھے۔ اجلاس کا ایجنڈا تھا "فرقہ واریت کی روک تھام کیسے ممکن ہے ؟"شرکا علماء کرام نے وزیر اعلی ٰ سے بات چیت کے لیے راقم کو نمائندہ تجویز کیا ۔
راقم نے چند امور سامنے رکھے جن کا خلاصہ پیش خدمت ہے :
1: راقم نے تمام علماء کی جانب سے میاں شہباز شریف صاحب کی خدمات کو سر اہا کہ انھوں نے مستحقین حضرات کے لیے پکی پکائی روٹی کا انتظام،رہائشی مکانات کی فراہمی اور تعمیرات کے حوالے سے بہت عمدہ کام کیا ہے ۔ ٹریفک کے مسائل کا حل، سڑکوں کی توسیع، پلوں کی تعمیر اور نئی سڑکوں کی فراہمی یقیناً قابل مدح کام ہیں۔ اس وزارت کی ایک واضح خصوصیت یہ بھی ہے کہ جس کام کا بھی عزم کرتے ہیں متانت وسنجیدگی کے ساتھ بروقت کرتے ہیں ۔
2 : فرقہ واریت کے خاتمہ کے لیے سب سے بنیادی کام یہ کیا جائے کہ مذہبی اجتماعات اور جلسوں کو اپنی اپنی مساجد ومدارس تک محدود رکھا جائے، یا اگر عوامی اجتماع منعقد ہو ں تو خاص میدان میں اجازت ہو ،کھلے عام سڑکوں پر آنے اور روڈ بلاک کرنے سے روکا جائے۔ظاہر ہے کہ جب ایک فریق کھلے عام سڑکوں اور گلی کوچوں میں اپنے خصوصی افکارو نظریات کا اظہار کرے گا خصوصاً دوسرے فریق کی مسجد و مدرسہ کے سامنے تو یقیناً یہ امر باہمی منافرت اور فرقہ واریت کی بنیاد بنے گا۔ لہذا یہ سلسلہ یکسر ختم کیا جائے ۔
3 : سڑ کوں پر کھڑے ہو کر چندہ مانگنے پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ اس سے جہاں دین کا ایک مذاق اڑایا جاتاہے وہاں ایک مسلک میں دوسرے مسلک کے خلاف کشاکش کے جذبات بھی ابھرتے ہیں۔
4 : ایک اونچی سطح کا اجلاس بلایا جائے جس میں تمام مسالک کے جید علماء شریک ہوں ۔ فرقہ واریت کو روکنے کے لیے تمام شرکاء کی باہمی مشاورت سے ایسا قانون بنایا جائے جس پر تمام مسالک عمل پیرا ہوں ۔ اس سے باہمی منافرت کے ختم ہونے کے امکانات کا فی حد تک میسر ہوں گے۔
5 : ایک مسلک والوں کا دوسرے مسلک والوں کی مساجد پر قبضہ کرنے کی صورت میں سختی سے نوٹس لیا جائے اور قبضہ شدہ مساجد واپس اسی مسلک والوں کے حوالے کی جائیں۔ اسے ایک حتمی و قانونی شکل دی جائے تاکہ ہماری مساجد لڑائی جھگڑے سےپاک ہوں۔
6: ہمیں باوثوق ذرائع سے یہ پتا چلا ہے کہ ایک قانون بنایا جا رہا ہے کہ جس علاقہ و محلہ میں جس مسلک والوں کی اکثریت ہو گی اس علاقہ میں مسجد بھی اسی مسلک والوں کی ہو گی۔ یہ قانون غیر مناسب ہے ۔ اس لیے کہ اگر اس تجویز پر عمل کیا جائے تو ہر علاقہ کی اقلیت وہاں کی اکثریت کے لیے درد سر بن جائے گی اور ایک نیا مسئلہ جنم لے گا جو مزید آفات اور پریشانیوں کاباعث ہوگا۔ لہذا عبادت گاہوں کی بجائے عابدین کو کنٹرول کیا جائے جو اپنی عبادت گاہوں سے نکل کر سڑکوں پر آجاتےہیں اور دوسرں کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں۔
راقم نے آخر میں وزیر اعلیٰ پنجاب جناب میاں شہباز شریف کو یہ یقین دہانی کرائی کہ باہمی مشاورت سے جو لائحہ عمل طے ہو گا علماء دیوبند اس کی پوری طرح سے پابندی کریں گے، بھلائی اور خیر کے کاموں میں بھر پور تعاون کریں گے اور حکومت کے لیے کسی قسم کی مشکل اور پریشانی کا باعث نہیں بنیں گے ۔ ان شاء اللہ