تجارت اور سودمیں فرق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تجارت اور سودمیں فرق
مفتی رئیس احمد
شریعہ ایڈوائزر حلال ریسرچ کونسل
سورۃ آل عمران :
تیسری آیت سورۃ آل عمران کی ہے جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتاہے کہ ہجرت کے دوسرے سال نازل کی گئی ہوگی کیو نکہ ماقبل اور مابعد والی آیات غزوہ احد سے متعلق ہیں جو 2 ؁ ہجری میں پیش آیا۔ یہ آیت مسلمانوں کے لیے حرمت ربوٰ کے سلسلے میں بالکل واضح حکم رکھتی ہے لہذا یہ بات کی جاسکتی ہے کہ یہی وہ پہلی قرآنی آیت ہے جس کے ذریعے سے مسلمانوں کو حرمت ربوٰ کا واضح حکم ملا ۔
اسی وجہ سے صحیح البخاری کے معروف شارح علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ ممانعت ربوٰ کا اعلان غزوہ احد کے آس پاس زمانے میں کیا گیا بلکہ بعض شراح حدیث اور مفسرین کرام نے اس بات کی وجہ بھی بیان کی ہے کہ ممانعت ربوٰ کا حکم غزوہ احد کے قریبی زمانے میں کیوں آیا؟ وہ کہتے ہیں کہ مکہ کے حملہ آوروں نے اپنی فوج کو سودی قرضوں کے ذریعے سر مایہ مہیا کیا تھا اس طرح انہوں نے اچھا خاصہ اسلحہ جمع کرلیا تھا یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ بات مسلمانوں کو بھی اسی طریقے پر لوگوں سے سودی قرضے لے کر اسلحہ جمع کرنے پر ابھار سکتی تھی مسلمانوں کو اس عمل سے روکنے کے لیے یہ واضح طور پر ممانعت کرنے والی آیت ربوٰ نازل ہوئی۔
یہ بات کہ ممانعت ربوٰ کا حکم غزوہ احد کے قریبی زمانے میں آیا اس کی تائید سنن ابی دائود میں مذکورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے روایت کردہ ایک واقعے سے بھی ہوتی ہے واقعہ یہ ہے کہ عمر و بن اقیش ایک ایسا شخص تھا جس نے سود پر قرضہ دے رکھا تھا وہ اسلام قبول کرنے کی طرف راغب تھا۔ تاہم وہ ایسا کرنے سے اس لیے متردد تھا کہ اسے یہ معلوم تھا کہ اگر وہ اسلام لے آیا توہ اپنی سودی رقم وصول نہ کر پائے گا۔اس لیے اس نے اسلام قبول کرنے میں تاخیر کی۔
اسی دوران جنگ چھڑ گئی تب اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اسلام لانے کو موخر نہیں کرے گا وہ میدان معرکہ میں آیا اور مسلمانوں کی طرف سے لڑنے لگا یہاں تک کہ وہ اس معرکہ میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوا۔
یہ روایت صاف طریقے سے واضح کرتی ہے کہ ربوٰ غزوہ احد سے پہلے سے ممنوع تھا اور یہی عمرو بن اقیش کے اسلام لانے میں تردد کی وجہ بنی ہوئی تھی۔
آیات کا چوتھا مجموعہ سورۃ بقرہ میں مذکورہ ہے
جس میں حرمت ربوٰکی شدت تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے ان آیات کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام واجب الاداء سودی رقوم کو منسوخ کر دیا تھا اس اعلان کامطلب یہ تھاکہ کوئی شخص بھی اپنے فراہم کردہ قرضے پر سود کا مطالبہ نہیں کر سکتا اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا رخ فرمایا جو بوجوہ فتح نہ کیا جا سکا۔
لیکن بعد میں طائف کے باشندے جو زیادہ تر طائف کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اسلام لائے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ۔اس مجوزہ معاہدے کی ایک شق یہ بھی تھی یہ بنو ثقیف اپنے مقروضوں کے قرضوں پر سودی رقوم معاف نہیں کریں گے لیکن ان کے فرض خواہ ان پر عائد سود کو معاف کر دیں گے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بجائے اس مسودے پر صرف ایک جملہ لکھ کر بھیج دیا کہ بنو ثقیف بھی ویسا ہی حق رکھیں گے، جیساکہ مسلمان رکھتے ہیں بنوثقیف اس تاثر میں تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کا معاہدہ قبول کر چکے ہیں اس لیے انہوں نے بنو عمروبن المغیرہ سے اپنی سودی رقوم کا مطالبہ کردیا لیکن بنو عمرو نےا ن کے مطالبے کو سود کے ممنوع ہوجانے کی وجہ سے مسترد کردیا ۔
مقدمہ مکہ مکرمہ کے گورنر عتاب بن اسید کے پاس پیش ہوا بنو ثقیف کی دلیل یہ تھی کہ معاہدہ کی رو سے وہ سودی رقم معاف کرنے پر مجبور نہیں ہیں۔عتاب بن اسید نے معاملہ حضوراکرم کی خدمت رکھا۔ تو اس موقع پر مندرجہ ذیل قرآنی آیات نازل ہوئی۔
یا ایھا الذین امنو ااتقو اللہ وذروامابقی من الربوٰ ان کنتم مومنین فان لم تفعلو فاذنو بحرب من اللہ ورسولہ وان تبتم فلکم روس اموالکم لا تَظلمون ولاتُظلمون۔
ترجمہ:
اے ایمان والو اللہ تعالی سے ڈرو اور جس قدر سود مقروضوں کے ذمہ رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پھر اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہوجائو اور اگرتم اس سے توبہ کرتے ہوتو تمہارے لیے یہ حکم ہے کہ اپنی اصل رقم لے لو اور سود چھوڑ دو۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تمہارے ساتھ ظلم کیاجائے۔
اس موقعہ پر بنو ثقیف نے سر تسلیم خم کر دیا اور کہنے لگے ہمارے اندر اتنی سکت اور طاقت نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ چھیڑیں ۔
)جاری ہے (