فروعی مسائل میں وقوع اختلاف کاتاریخی پس منظر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
فروعی مسائل میں وقوع اختلاف کاتاریخی پس منظر
مولانا محمد کلیم اللہ حنفی
ہم جس زمانے میں سانس لے رہے ہیں اس میں عداوت اسلام اور دین بیزاری کی اس قدر سرانڈ ہے کہ دم گھٹنے لگتا ہے۔ اسلام کے نام پر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں پھیلی زہر ہلاہل ہے جسے چندناعاقبت اندیش قند کہنے پر بضد ہیں۔ مذہبی اسکالرز کے بہروپ میں کچھ نام نہاد دانشور ہیں جو اسلام کے شجر سایہ دار کو بالکل جڑ سے اکھاڑ پھنکنے کی قسم کھائے بیٹھے ہیں۔ ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل سے مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے کہ کس کس کا جواب دیا جائے۔ شہید اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :
'' فتنوں کا ایک سیلاب ہے کہ امنڈا چلا آرہا ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں جاکر رکے گا؟ رسائل ہیں، اخبارات ہیں، ریسرچ کے انسٹی ٹیوٹ ہیں، ثقافت کے ادارے ہیں۔ کہیں تعمیر نو کے نام پر تخریب دین ہے، کہیں عقائد اسلامیہ پر حملے ہیں، کہیں احکام شرعیہ سے انکار ہے، کہیں انکار سنت کا زور ہے، کہیں تحریف قرآن کا فتنہ ہے، کہیں جواز سود وتحلیل خمر کے فتوے ہیں، کہیں رقص وسرود کو جائز کرنے کے لیے تحقیقات ہورہی ہیں، کہیں تعزیرات وحدود پر ہاتھ صاف کیا جارہا ہے، کہیں سلف صالحین سے بدظن کرنے کی مذموم کوشش ہورہی ہے، کہیں اسلامی نظام کی ناکامی کے دلائل پیش کیے جارہے ہیں۔ الغرض کہیں مستشرقین مصروف عمل ہیں تو کہیں ملاحدہ وزنادقہ اسلام سے بر سر پیکار ہیں۔ "
)دورِ حاضر کے تجدد پسندوں کے افکار۔۔۔ از مولانا یوسف لدھیانوی شہید ص373(
بعض مغربیت زدہ" محقق" ہیں جو اصل معاملے کہ تہہ تک جائے بغیر ہی فقہی اور فروعی "اختلاف "کو "افتراق "کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں اور مذکورہ اختلاف کو امت میں تفرقہ بازی اور فرقہ واریت کے نام سے اچھالتے ہیں۔ راقم کے خیال میں امت مرحومہ میں فرقہ واریت اور زوال وانحطاط کی عظیم داستانِ اَلَمْ انہی کے افکار فاسدہ ونظریات باطلہ سے مربوط ہے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے کہ"بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹ گئی اور میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی سوائے ایک کے سب کے سب جہنم میں جائیں گے، عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہوں گے جو نجات پائیں گے ؟ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ اس راستے پر قائم رہیں گے جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں .
(ترمذی ج2ص93 باب افتراق ھذہ الامۃ (
یہ تو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذی وقار ہے کہ مسائل کا حل میرے راستے اور میرے صحابہ کے راستے پر چلنے میں ہے لیکن ایک نظر ادھر بھی فرمائیے،سرسید احمد خان رقم طراز ہیں :"یہ مسئلہ اسلام کا نہیں ہے کہ مذہب اسلام میں تہتر فرقے ہیں اور ناجی ان میں سے ایک ہی ہے یہ تو ایک موضوع روایت ہے جس کو اس زمانے کے لوگوں نے، جبکہ مسلمانوں میں باہم مسائل فروعی میں اختلاف پڑا، اپنی تائید کے لیے بنا لی۔ اس روایت کا موضوع ہونا روایتا اور درایتا محققین کے نزدیک ثابت ہے۔ "
)تہذیب الاخلاق از سرسید احمد خان ص 392 بحوالہ خود نوشت افکار سرسید احمد(
راقم پہلے عرض کر چکا ہے کہ بعض لوگ اپنی کم فہمی اور کم علمی کی بنیاد پر آیت کریمہ
" واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا "
) پ 4 سورۃآل عمران آیت نمبر 103(
وغیرہ کو مذکورہ فقہی اختلاف پر چسپاں کرتے ہیں جو سراسر عقل ودیانت کے خلاف ہونے کے ساتھ دین اسلام اور روح اسلام کے بھی بالکل منافی اور متصادم ہے۔ ذیل میں ہم چند نظائر بیان کرتے ہیں کہ باہم جزوی اور فروعی مسائل میں عہد نبوی میں بھی اختلاف رہا اور عہد صحابہ میں بھی اسی سلسلے کی کڑیاں حضرات تابعین اور ائمہ متبوعین تک چلتی رہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المغازی میں میں ایک روایت ذکر کی ہے " لایصلین احد العصر الا فی بنی قریظۃ
) بخاری، محمد بن اسماعیل البخاری ؛ کتاب المغازی ج2 ص519(
اے میرے صحابہ کی جماعت تم نے نماز عصر کو بنی قریظہ میں جا کر ادا کرنا ہے۔ مگر ہوا کچھ یوں کہ بعض اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بنی قریظہ پہنچنے سے قبل ہی نماز عصر اس وجہ سے پڑھ لی کہ وقت بالکل ختم ہونے والا تھا اور ان کو یہ خوف دامنگیر ہوا کہیں نماز کا وقت ہی ختم نہ ہوجائے اورقضا ء نہ ہوجائے ان حضرات نے فرمان نبوی لایصلین احد العصر الا فی بنی قریظۃ میں یہ اجتہاد کیا کہ جلدی پہنچنا ہے یعنی نماز عصر تک وہاں ضرور پہنچنا ہے اس حکم کا تعلق ادائے صلوۃ سے نہیں بلکہ جلد پہنچنے سے ہے اب چونکہ وقت ختم ہورہا ہے اور نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنا بھی ضروری ہے اس لیے نماز کو ادا کر لیا جبکہ دوسرے فریق نے الفاظ حدیث سے یہی سمجھا کہ اس کے ظاہر پر عمل ضروری ہے چنانچہ انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی نماز عصر ادا فرمائی۔ اس امر کی اطلاع جب پیغمبر دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تو آپ نے کس کو غلط قرار نہیں دیا۔ بدر کا معرکہ بپا ہوا 14 شیر دل جوان اسلام کے گلشن کو اپنے خون سے سینچ کر قاضی اجل کے فیصلے پر لبیک کہہ گئے، ادھر کفار کو بھی سخت ہزیمت کا سامنا ہوا 70دشمنان اسلام کے خون سے زمین نے اپنی غصے کی آگ بجھائی۔ کفار کے تقریبا 70 افراد کو جنگی قیدی بنالیا گیا۔ اب معاملہ پیش آیا کہ ان قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ اس وقت صحابہ کرام کی مختلف آرا سامنے آئیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اس جانب کو ترجیح دیتے تھے کہ ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے جبکہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے۔
) التفسیر الکبیر للرازی ج15ص197(
چونکہ اس وقت ہمارے پیش نظر فقط باہم فروعی اور جزوی مسائل میں وقوع اختلاف کا پس منظربیان کرنا ہے اس لیے ہم صرف اپنے استشہادات ہی نقل کریں گے۔
زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کتب حدیث اور کتب سیر وتاریخ میں بکثرت ملتے ہیں، حتی کہ صحابہ کرام کا بعض امور میں نبی کریم کی رائے کے موافق رائے نہ دینا بھی آیات وآثار سے مفہوم ہوتا ہےمثلاً :منافق کے جنازہ نہ پڑھانے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عرض کرنا کہ یارسول اللہ اس منافق کا جنازہ مت پڑھائیے۔
) التفسیر الکبیر ج16ص152 تحت آیۃ لاتقم علی قبرہ (
قارئین۔۔۔ یقین جانئیے جب دل میں خوف خدا ہو معاملہ نیک نیتی پر مبنی ہو اختلاف کا سبب امر اجتہادی ہواور اختلاف کرنے والے ماہرین شریعت ہوں تو ان سے صادر شدہ اختلاف کو رحمت کہا جائے گا ہاں اگر شرائط مذکورہ کا فقدان ہوتو پھر یہی اختلاف؛ افتراق کا زینہ بن جاتا ہے۔
آمدم برسر مطلب :
سرور کائنات کے اس دنیا سے پردہ فرما ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام دفن پر بھی صحابہ کرام کی آراء میں اختلاف ہوا الطبقات الکبری میں امام ابن سعدنے اس مقام کو بڑی بسط وتفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔
) ج 2 ص292(
اس کے بعد خلیفۃ المسلمین اور جانشین پیغمبر کے انتخاب کا وقت آیا تو اب کی بار بھی صحابہ میں اختلاف رائے ہوا کافی بحث وتمحیص کے بعد یہ طے پایا کہ خلیفہ بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوں گے۔
)تاریخ الخلفاء للسیوطی ص52(
اسی اثنا میں فتنہ مانعین زکوۃ رونما ہوا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے رائے یہ تھی کہ مانعین زکوۃ سے قتال کیا جائے جبکہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے کا اظہار کیاجو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی رائے سے مختلف تھی۔ فتنہ مانعین زکوۃ اور صحابہ کرام کی علمی اختلاف کی وجوہات کو امام ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ میں بالتفصیل لکھ دیا ہے۔
)البدایہ والنھایہ لابن کثیر ج 6 ص315(
فتنہ مانعین زکوۃ کا سر سیدنا صدیق اکبر کی دلیری اور جوانمردی نے دیگر صحابہ کرام کے تعاون سے جب کچل ڈالا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفۃ المسلمین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بصد احترام التماس کیا کہ اسلام روز افزوں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے اس لیے بلاد عرب سے نکل کر سارے عالم میں جانے لگا ہے میری تجویز یہ ہے کہ قرآن کریم کو یکجا جمع کردیا جائے۔ اولا جناب صدیق اکبر نے یہ کہا کہ جوکام نبی نے نہیں کیا ابو بکر اسے کبھی نہیں کرے گا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بار بار اصرار پر جناب صدیق اکبر کا اس معاملے میں انشراح ہو گیا۔
) صحیح البخاری ج2ص745 باب جمع القرآن(
فقہی اختلاف کی قرآنی شہادت :
قرآن کریم میں دو جلیل القدر انبیاء حضرت داود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کا تذکرہ موجود ہے جن کے مابین فروعی اختلاف ہوا جسےاوراق قرآنیہ نے آج تلک اپنے سینے میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔
) پ 17سورۃ الانبیاءآیت 78(
لسان نبوت سے ماجور ہونے کی شہادت :
اس میں کوئی سچا اور کوئی جھوٹا والا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ بموجب حدیث اگر مجتہد صحیح اور درست بات تک رسائی حاصل کر لے تو فلہ اجران اور اگر اس میں اس کو خطا بھی ہوجائے تب بھی اس مخطی کو گناہ وعقاب وعتاب نہیں بلکہ فلہ اجر کا وعدہ اوراعزاز بخشا گیا ہے۔
) صحیح البخاری ج2ص1092 باب اجر الحکم اذا اجتھد، صحیح مسلم ج2ص76(
مذکورہ بالا حقائق جاننے کے بعد قارئین پر یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہوگی کہ ہراختلاف مذموم نہیں بلکہ اختلاف محمود بھی ہوتا ہے۔ امام عبدالقادر بن طاہر البغدادی نے فرمایا اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقہاء کے اختلاف کو مذموم نہیں کہا کیونکہ یہ اصول دین میں متفق ہیں۔
) والفرق بین الفرق ص 6(
بلکہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے الاعتصام میں لکھا ہے کہ فاختلافہم فی الفروع کاتفاقہم فیھا ان کا اختلاف ان کے اتفاق کی مثل ہے
) الاعتصام ج 2 ص169(
قارئین کرام چونکہ مقصد ان واقعات کا مکمل احصا ءنہیں بلکہ ایسے چند نظائر کو سامنے لانا تھا جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ یہ اختلاف عہد نبوی سے موجود ہے بلکہ اس اختلاف پر عہد نبوی ہی سے ماجور ہونے کا سہرا سجا ہوا ہے اس لیے فقہاء کرام امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا باہم دلائل کی بنیاد پر کسی بھی جزوی اور فروعی مسئلے میں مختلف رائے رکھنا ہر گز فرقہ واریت نہیں بلکہ انہی ائمہ اربعہ میں منحصر رہنے سےہی فتنوں سے بچا جا سکتا ہے۔
(عقدالجید از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(
اگر ہر شخص کو اختیار ہو کہ مسائل غیر منصوصہ میں جو چاہےاپنی رائے قائم کر لے تو یہ دین متین کھلونا ہی بنے گا۔ ہر فرد بشر اپنی عقل نارسا کو حرفِ آخر گرداننے لگے گا اور اسی کے مطابق عمل کرے گا اس مضحکہ خیز صورتحال پر سوائے ہنگامہ آرائی کے اور کیا ہوگا ؟
ا س حقیقت کو تسلیم کر لینے سے مسلمانوں کا باہمی جدل وانتشار اور غلط فہمیاں بجائے خود دم توڑ دیتی ہیں بلکہ شکوک وشبہات اور وساوس وتحفظات کا بھی ازالہ ہوجاتا ہے لیکن جب حقائق سے منہ موڑ لیا جائے اور اپنی تمام تر توانیاں اس بات پر صرف کرنے کی کوشش کی جائے کہ اختلاف۔۔۔حتی کہ ماہرین شریعت فقہاء کا باہم فروعی اورجزوی اختلاف۔۔۔ امت میں افتراق کا سبب ہے تو ایسی سرگرمیوں کے نتائج اس سے مختلف نہیں ہوسکتے جن کا آج ہم کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔
اھل ھوٰی کا ہر دور میں یہ وسوسہ رہا ہے اجتہاد کی کوئی ضرورت اور اہمیت نہیں بلکہ فقہ من گھڑت اورفرضی دین ہے۔ آخر یہ نادان لوگ کیوں نہیں سمجھ پا رہے کہ معاشرے میں انتشار، انارکی، فساد، فرقہ واریت، دین بیزاری کے مہلک جرثومے اسی مسموم چشمے کی پیداوار ہیں۔ آج بھی اگر اس کی جگہ محبت اجتہاد ومجتہدین کا چشمہ صافی چل پڑے تو ان کے قلوب میں رچی بسی فریب خوردگی کے خس وخاشاک کو بہا کر لے جائے۔