محدث اعظم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
محدث اعظم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
مولانا محمد اکمل راجن پوری حفظہ اللہ
نام ونسب:
آپ کے اصلی نام کے بارے میں یقینی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے، کیونکہ آپ کی کنیت ایسی مشہور ہے کہ نام چھپ کر رہ گیا۔اصحاب سیر نے آپ کے نام کے بارے میں مختلف اقوال ذکر کیے ہیں۔
خود حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے نام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں میرا نام عبدشمس بن صخر تھا۔ اسلام لانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام عبدالرحمن اور کنیت ابوہریرہ رکھی۔
ایک اور روایت میں ہے کہ زمانہ جاہلیت میں آپ کانام عبدشمس اور کنیت ابوالاسود تھی۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام عبداللہ اور کنیت ابوہریرہ رکھی۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ ج4ص2385،سیر اعلام النبلاء ج3ص514)
علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ''عبدالرحمن'' نام کو راجح قرار دیا ہے۔
(سیر اعلام النبلاء ج3ص513)
لیکن ہشام کلبی اور خلیفہ بن خیاط کے قول کے مطابق سلسلہ نسب یوں ہے:
عبدالرحمن عمیر بن عامر بن عبدذی الشری بن طریف بن عتاب بن ابی صعب بن منبہ بن سعد بن ثعلبہ بن سلیم بن فہم بن غنم بن دوس
(اسد الغابۃ ج5ص247،سیراعلام النبلاء ج3ص514)
ابوہریرہ کنیت کی وجہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ میں نے ایک بلی پال رکھی تھی۔ رات کو اس کو درخت پہ رکھتا تھا اور صبح کو جب بکریاں چرانے جاتا تو ساتھ لے جاتا اور اس کے ساتھ کھیلتا تھا۔تولوگوں نے یہ بات دیکھ کر مجھے ابوہریرہ کہنا شروع کردیا۔
(الاصابۃج4ص2385، اسدالغابۃ ج5ص248،سیراعلام النبلاء ج3ص518)
ہجرت اور قبول اسلام:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خیبر تشریف لے گئے اور میں ہجرت کرکے مدینہ پہنچا
(سیراعلام النبلاء ج3ص518)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قبیلہ کے ایک آدمی طفیل بن عمرو دوسی نے ہجرت عظمی سے پہلے مکہ میں اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے وطن یمن واپس آکر اپنے قبیلہ دوس کو اسلام کی دعوت دی اور غزوہ خیبر کے زمانہ میں یمن سے 80افراد کو لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے، لیکن آپ تشریف لے گئے تھے۔ پھر یہ حضرات بھی خیبر پہنچے۔ اسی وفد میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے،انہوں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔
(سیرالصحابہ ج2ص50)
علمی ذوق:
ایک بار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خودفرمایا۔ انھوں نے ایک سوال کیا:''من اسعدالناس بشفاعتک ''کہ قیامت کے دن کون خوش نصیب آپ کی شفاعت کا زیادہ مستحق ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:کہ تمہاری حرص حدیث دیکھ کر میرا پہلے سے خیال تھا کہ یہ سوال آپ سے پہلے کوئی نہیں کرے گا۔
(الاصابۃ ج 4ص2388)
حدیث میں آپ کا مقام:
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوہریرہ علم کا ظرف اور برتن ہیں۔
(سیر اعلام النبلاء ج3ص521)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (علم کے)دوبرتن یاد کیے۔
(صحیح بخاری کتاب العلم،الاصابۃ ج4ص2391،سیراعلام النبلاء ج3ص521)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس نعمت کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں: اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی کو مجھ سے زیادہ حدیثیں یاد نہیں سوائے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے، کیونکہ وہ لکھتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔
(سیر اعلام النبلاء ج3ص522)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مجھ سے بہتر ہیں اور جو بیان کرتے ہیں اس کو زیادہ جانتے ہیں۔
(الاصابۃ ج4ص2391)
ابو صالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے بڑے حافظ الحدیث تھے۔
(سیر اعلام النبلاء ج3ص521،الاصابۃ ج4ص2388)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی کو میں نہیں جانتا جن کو مجھ سے زیادہ حدیثیں یاد ہوں۔
(سیراعلام النبلاء ج3ص522)
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے ہمعصروں میں سب سے زیادہ حدیث جاننے والے تھے اور حفاظ حدیث میں سب سے بڑے حافظ الحدیث تھے۔
(الاصابۃ ج4ص2388)