تذکرہ اکابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

تذکرہ اکابر

شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی رحمہ اللہ
مولانا محمد عبد اللہ معتصم حفظہ اللہ
ولادت وسیادت:
انیسویں صدی میں ملک وملت جن ممتاز ترین عظیم شخصیتوں پر فخر کرسکتی ہے ان میں سے ایک مایہ ناز اور عہد آفریں شخصیت شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی رحمہ اللہ کی ہے۔آپ 1288ھ بمطابق 1851ء بریلی میں(جبکہ آپ کے والد ماجد بوجہ ملازمت بمع اہل وعیال وہاں مقیم تھے)عالم ظہور میں تشریف لائے۔آپ کے والد ماجد مولانا ذوالفقار علی صاحب نہایت صاحب اقبال اور دینی ودنیاوی اعتبار سے ذی وجاہت اور صاحب حیثیت آدمی تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملتاہے۔
تعلیم وتربیت:
آپ کی تعلیم کا آغاز چھ سال کی عمر میں ہوا۔ قرآن مجید کا اکثر حصہ ایک مقامی استاد میاں جی منگلوری صاحب سے پڑھا۔بقیہ قرآن پاک اور فارسی کی ابتدائی کتابیں مولانا عبداللطیف صاحب سے پڑھیں۔اس کے بعد ابتدائی عربی کتب اپنے معزز چچا مولانا مہتاب علی صاحب سے پڑھیں۔مولانا بچپن میں کوچہ گردی اور رذیل کھیلوں سے مجتنب و متنفر تھے، البتہ سیراور شکار سے ایک مناسبت اور دلی شوق تھا۔
آپ کی عمر تقریبا15سال تھی کہ خدا تعالی کے چند مقبول اور سراپا اخلاص بندوں کی تجویز سے قصبہ دیوبند میں ایک عربی مدرسہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سب سے پہلے اس مدرسہ کے احاطہ میں کتاب کھولنے کی سعادت آپ کو نصیب ہوئی اور جس استاد کے سامنے کتاب کھولی ان کا نام بھی مولانا محمود صاحب تھا۔گویا پہلا استاد بھی محمود اور پہلا شاگرد بھی محمود۔فقہ اور دیگر فنون کی اکثر کتابیں آپ نے ان سے پڑھیں۔ان کےعلاوہ قاسم العلوم والخیرات مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ آپ کے سب سے بڑھ کر شفیق اور مہربان استاذ تھے۔ تعلیم کا زیادہ حصہ بشمول دورہ حدیث حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کی خدمت میں رہ کر پڑھا۔
تدریس:
حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تحصیل علوم سے فراغت پانے سے پہلے ہی معین مدرس کی حیثیت سے مختلف کتابیں پڑھارہے تھے۔فراغت کے بعد تو باقاعدہ مدرسین کی فہرست میں شمار ہونے لگے تھے۔آپ کا طرز تدریس نہایت مہذب اور شائستہ ہوتا تھا۔دوسروں کی تحقیر اپنی تعریف کا نام ونشان تک نہ تھا۔دوران درس نہایت سہل اور عام فہم الفاظ استعمال کرتے تھے۔لہجہ میں تصنع اور بناوٹ نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ چہرہ بنا لینا یا آنسو بھر لانا حضرت کا کام نہ تھا لیکن خدا تعالی نے زبان میں اثر دیا تھا۔
بات دل نشین ہوتی تھی اور سننے والا متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا تھا۔آپ کا حلقہ درس دیگر سلف صالحین اور اکابر محدثین کے حلقہ حدیث کا نقشہ نظروں میں پھر جاتا تھا۔اختلافی مسائل میں ائمہ اربعہ کے علاوہ دیگر مجتہدین کے مذاہب بھی بیان فرماتے اور باوجود حنفی ہونے کے صراحت کے ساتھ یہ بات ذہن نشین فرماتےکہ" مذاہب مجتہدین سارے کے سارے حق اور کتاب وسنت کے موافق ہیں،ان کی تنقیص موجب بدبختی ہے۔"
آپ نے تقریباً35سال تدریس کی۔ آپ کا دور تدریس خیر وبرکت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ایسے عظیم لوگوں نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا جن میں سے ہر ایک مستقل ادارہ اور انجمن ہے۔چند شاگروں کے نام پیش خدمت ہے۔
• شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ
• حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
• امام انقلاب حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ
• امام العصر حضرت مولانا علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ
• ابوحنیفہ ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ
• شیخ الادب والفقہ حضرت مولانا اعزاز علی رحمہ اللہ
• شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ
• ادیب لبیب حضرت مولانا حبیب الرحمن رحمہ اللہ
• شیخ الاسلام حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ
• مبلغ اعظم حضرت مولانا محمدالیاس کاندھلوی رحمہ اللہ
سلوک:
1294ھ میں آپ اپنے استاد محترم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ، حضرت مولانا رفیع الدین رحمہ اللہ،اور دوسرے اکابر کی معیت میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ اپنے استاد حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے حکم پر وہاں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے بیعت ہوگئے۔چونکہ آپ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کی صحبت میں رہ چکے تھے اس لیے مزید تزکیہ کی ضرورت نہ سمجھی گئی اور حاجی صاحب نے سلاسل اربعہ میں آپ کو شرف خلافت سے نوازا۔
حاجی صاحب کے بعد حضرت نانوتوی رحمہ اللہ نے بھی آپ کو اپنا خلیفہ بنادیا۔حضرت حاجی صاحب اور مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے وصال کے بعد حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کو اپنا مرشد بنانے کا فیصلہ کیا اور استرشاد کی غرض سے ان کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے بلاتامل آپ کو بیعت کرلیا۔ساتھ ساتھ اپنا مجاز بھی قرار دیا۔آسمان رشد وہدایت کے ان تین تابندہ ستاروں نے جن کو نوازا ہو ان کی مقبولیت کا کیا ٹھکانہ؟
شیخ الہند رحمہ اللہ اکابر کی موجودگی میں بیعت کرانے سے گریز کرتے لیکن بعد میں جب عوام کا اصرار بڑھا تو بیعت شروع کرادی اور پھر تو عرب ہو یا عجم یا مالٹا کی قید،دنیا نے اس رجل رشید سے اصلاح وتربیت حاصل کی۔
تصانیف:
حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے درس وتدریس اور سیاسی مشاغل کے باوجود کئی ایک کتب تحریر فرمائی ہیں۔
ترجمہ قرآن مجید:
آپ کی تصانیف میں سر فہرست قرآن مجید کا ترجمہ وتفسیر ہے۔ پورا رترجمہ اور سورۃا النساء تک تفسیر فرمائی۔ اس کی تکمیل آپ کی لائق شاگرد علامہ شبیر احمد عثمانی قدس اللہ سرہ نے فرمائی۔ اس ترجمہ وتفسیر کو اللہ تعالی نے وہ قبولیت عطاء فرمائی ہے کہ شاید کسی اور تفسیر کو حاصل ہوئی ہو۔

تراجم ابوب بخاری :صحیح بخاری کے تراجم کی تشریحات

تقریرترمذی: یہ تقریر آج کل سنن الترمذی کے حاشیہ پر چھپ چکی ہے اور مقبول عام وخاص ہے۔

حاشیہ ابوداود : نہایت قیمتی حواشی جو فہم کتاب میں انتہائی مفید ہیں۔

حاشیہ مختصر المعانی:علم معانی کی مشہور کتاب پر حاشیہ

ایضاح الادلہ :غیرمقلدین کی کتاب'' مصباح الادلہ'' کا کافی وشافی جواب

جہد المقل : حضرت شاہ اسمعیل شہید رحمہ اللہ پر اعتراضات کے جوابات

شرح اوثق العروی:حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی کتاب کی شرح مضمون نام سے ظاہر ہے۔

ادلہ کاملہ: غیرمقلد عالم مولوی محمد حسین بٹالوی کے مذہب حنفی پرکیے گئے اعتراضات کے جوابات
تحریک آزادی ہند اور اسارت مالٹا :
حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے تدریس کے ابتدائی دنوں میں مسلمانوں میں شعور اور احساس ذمہ داری پیدا کرنے کی تحریک شروع کی تھی۔ 1920ء تک آپ کی کوشش یہ رہی کہ دینی وسیاسی تربیت سے ایک ایسی جماعت تیارکی جائے جوکہ احیاء ملت، ملکی سیاست اور آزادی کی جدوجہد میں اپنی ذمہ داریوں کا شدید احساس اور ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ں ہونے کے اہلیت رکھتی ہو۔
لیکن 1914ء میں جب جنگ عظیم اول چھڑ گئی تو برٹش حکومت پر ضرب لگانے اور آزادی کی منزل قریب لانے کے لیے ایک سنہری موقع ملا۔ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے یہ سوچ کر کہ تحریک چلانے کے لیے کسی آزاد حکومت کی پشت پناہی حاصل کی جائے مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ کو افغانستان بھیجا تاکہ وہ افغانستان کی طرف سے حملہ کرانے کی سعی کرے اور خود خلافت عثمانیہ کے زعماء سے ملاقتیں کرکے فرنگی حکومت کے خلاف جہاد کے منصوبے سے ان کو آگاہ کیا۔ مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ نے افغانستان پہنچنے کے بعد وہاں ہندوستان کی عارضی آزاد حکومت قائم کی۔جسے افغان حکومت نے تسلیم کرکے خود بھی تعاون کی یقین دہانی کرائی اور دوسرے ملکوں میں بھی اس کی سفارتیں بھیجنے کا انتظام کیا۔
مولانا سندھی رحمہ اللہ نے ان تمام حالات کو ایک رومال پر ریشم سے کاڑھ کر ایک معتمد شخص کے ہاتھوں حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی خدمت میں بھیجا۔ لیکن چند ایمان فروشوں کی وجہ سے وہ انگریزگورنر کے ہاتھ لگا۔ یہ رومال انگریز کو ملنا تھا کہ ہندوستان بھر میں گرفتاریوں اور قیدو بند کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔
1916ء میں آپ کو اور آپ کے رفقاء مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ، مولانا عزیرگل رحمہ اللہ،مولانا حکیم نصرت حسین رحمہ اللہ،اور مولانا وحید احمد رحمہ اللہ کو گرفتار کیا گیا۔فروری1917ء میں آپ کو جزیرہ مالٹا پہنچا دیاگیا۔
مالٹا کی اسارت کے دوران آپ نے بڑے مصائب برداشت کیے،تکلیفیں اٹھائیں، مستقل عوارض میں مبتلاء رہے جو بالآخر مرض الموت کا سبب بنے، لیکن آپ کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہ ہوئی۔مارچ 1920 ء میں تقریباًسات مہینے کی اسارت کے بعد آپ کو رہا کیا گیا۔
ہندوستان واپسی اور مرض الوفات:
جون 1920ء میں حضرت رحمہ اللہ ہندوستان تشریف لائے۔ قیدو بندکی صعوبتیں آپ کی صحت پر کافی حد تک اثر انداز ہوگئی تھیں۔مختلف امراض کی شکایت تو پہلے سے تھی، اس پر مالٹا کا سرد موسم، حضرت کی شب بیداری وریاضت، پھر ترکوں کی شکست اور اپنی جد وجہد کی ناکامی کا صدمہ ان حوادث نے ان بیماریوں کو مرض الموت کی شکل دے دی۔
چنانچہ 26صفر1339ھ بمطابق29اکتوبر1920ء صبح 8بجے آپ نے قبلہ رخ ہوکر ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرلیں اور روح مقدس " فَرَوْحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّتُ نَعِيمٍ "کی بہاریں دیکھنے کے لیے تمام اہل اسلام کو یتیم وبے کس چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئی اور رفیق اعلی سے جاملی۔
اناللہ وانا الیہ راجعون۔