تعارف کتب فقہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 

تعارف کتب فقہ

کتاب الاصل المعروف بالمبسوط
مولانا محمد یوسف حفظہ اللہ
فقہ حنفی کا اولین مرجع الامام الفقیہ محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ م189ھ کی تصانیف سمجھی جاتی ہیں، خواہ وہ کتابیں آپ نے امام ابویوسف یعقوب بن ابراہیم رحمہ اللہ م182ھ سے براہ راست روایت کی ہوں، حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ کے اساتذہ سے اخذ کی ہوں یا اہل عراق کی متداول فقہ سے مدون کی ہوں۔یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ امام محمد رحمہ اللہ کی جملہ کتب بہ اعتبار سند کے مساوی درجہ کی نہیں ہیں بلکہ علماء کرام نے قابل اعتماد ہونے کے اعتبار سے انہیں دو قسموں میں منقسم کیا ہے ۔پہلی قسم "کتب ظاہرالروایہ " اور دوسری قسم "کتب نادر الروایہ " کہلاتی ہیں۔ کتب ظاہر الروایہ سے مراد وہ چھ مشہور کتابیں ہیں جو فقہ حنفی کی اساس ہیں اور فقہ حنفی کی عمارت انہی پر استوار ہے۔وہ چھ کتابیں یہ ہیں:
(1)المبسوط (2)الزیادات (3)الجامع الصغیر
(4)الجامع الکبیر (5)السیر الصغیر (6)السیر الکبیر
ان کتب کو ''ظاہر الروایہ'' اس وجہ سے کہتے ہیں کہ ان کی نسبت وسند نہایت واضح ومضبوط ہے۔بایں طور کہ یہ امام محمد رحمہ اللہ سے بطریق تواتر مروی ہیں، یا کم ازکم انہیں مشہور کا درجہ تو ضرور حاصل ہے۔
ان کے علاوہ امام محمد کی بقیہ کتب جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے دیگر تلامذہ کی کتابیں "نادر الروایہ" کہلاتی ہیں۔کیونکہ ان کی نسبت وسند پوری طرح واضح نہیں ہے۔ان کا درجہ کتب ظاہر الروایہ کے بعد آتا ہے۔
فقہ حنفی میں جو اجتہادات یا اقوال بیان ہوئے ہیں ان میں سب سے زیادہ مستند و معتبر وہ اقوال واجتہادات ہیں جو کتب ظاہر الروایہ میں مذکور ہیں۔بوقت ضرورت ان کتب کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور ان میں جو مسئلہ مذکور ہو اسی کو مذہب حنفی سمجھا جاتا ہے دوسری کتب کی روایت جب ان کے خلاف ہو تو چند مسائل کے سواء وہ غیر معتبر سمجھی جاتی ہے۔
ملحوظہ: کتب ظاہر الروایہ کے علاوہ بھی امام محمد کی دو کتابیں ایسی ہیں جو بہ لحاظ استناد اور بہ اعتبار شہرت کتب ظاہر الروایہ سے کسی طرح کم نہیں۔ ان میں سے ایک "کتاب الآثار "ہے اور دوسری" کتاب الرد علی اہل المدینہ "ہے۔
کتاب الاصل:
کتب ظاہر الروایہ میں سب سے اہم اور بنیادی کتاب "المبسوط"ہے جو"کتاب الاصل"کے نام سے مشہور ہے۔اس کو ''اصل'' اس لیے کہا جاتا ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ نے سب سے پہلے اسی کو تالیف کیا۔ اس میں امام محمد رحمہ اللہ نے سینکڑوں مسائل سے متعلقہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے فتاوی جات جمع کیے ہیں اور وہ مسائل بھی ذکر کیے ہیں جو ان کے اور امام ابویوسف رحمہ اللہ کے درمیان اختلافی ہیں اور جس مسئلہ میں امام محمد رحمہ اللہ نے اختلاف ذکر نہیں کیا وہ مسئلہ سب کا متفقہ ہوتاہے۔
انداز تالیف:
کتاب الاصل کی تالیف کا پس منظر نہایت دلچسپ ہے۔ امام محمد رحمہ اللہ نے اس کو منفرد انداز سے جمع فرمایا کہ سب سے پہلے آپ نے نماز کے مسائل کو جمع کیا اور اس مجموعے کانام ''کتاب الصلوۃ'' رکھا،پھر بیع (خرید وفروخت)کے مسائل یکجا کرکے اس کا نام ''کتاب البیوع'' رکھا۔اسی طرز پر آپ نے باقی مسائل جمع کیےیعنی ہر ہر موضوع کے مسائل یکجا کرتے گئے اور موضوع کی مناسبت سے نام رکھتے گئے۔ یوں سمجھیے کہ جس طرح شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ کی مشہور ومقبول کتاب ''فضائل اعمال ''حضرت کی مستقل تصنیف نہیں بلکہ ان کی مختلف اوقات میں زیب قرطاس کی گئی فضائل پر مشتمل تحریرات کا مجموعہ ہے۔اسی طرح امام محمد رحمہ اللہ کے مختلف موضوعات پر جمع شدہ تمام مسائل کو یکجا کیا گیاتو ایک عظیم وضخیم مجموعہ تیار ہوا، اسی مجموعے کو ''کتاب المبسوط '' کا نام دیا گیا۔
چنانچہ مشہور حنفی فقیہ المولی مصطفی بن عبداللہ المعروف بحاجی خلیفہ م1067ھ اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
"الفہ مفردا، فاولا :الف مسائل الصلوۃ وسماہ ''کتاب الصلوۃ'' ومسائل البیوع وسماہ :''کتاب البیوع'' وھکذا الایمان والاکراہ، ثم جمعت فصارت مبسوطا وہو المراد حیث ما وقع فی الکتب :قال محمد فی کتاب فلان ''المبسوط'' کذا
(کشف الظنون ج2ص483)
ترجمہ: امام محمد نے اس کی تالیف علیحدہ علیحدہ کی ہے بایں طور کہ سب سے پہلے نماز کے مسائل جمع کرکے اس کا نام کتاب الصلوۃ رکھا۔پھر بیع (خرید وفروخت)کے مسائل یکجا کرکے اس کا نام کتاب البیوع رکھا۔اسی طرح کتاب الایمان اور کتاب الاکراہ وغیرہ کو جمع کیا۔ آخر میں جب اس تمام ذخیرہ کو جمع کیا گیا تو یہ مبسوط معرض وجود میں آگئی۔ کتب فقہ میں جہاں یہ ذکر ہوتا ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ نے مبسوط میں فرمایا ہے تو وہاں یہی کتاب مراد ہوتی ہے۔
فائدہ: شروح ہدایہ میں جہاں کہیں مبسوط کا ذکر کیا جاتاہے اس سے مراد "مبسوط السرخسی "ہوتی ہے۔
ترتیب دلائل:
امام محمد رحمہ اللہ اس کتاب کے ہر باب کا آغاز ان آثار سے کرتے ہیں جو ان کے نزدیک صحیح ثابت ہوتے ہیں اور پھر ان آثار سے ماخوذ مسائل ذکر کرتے ہیں۔ اس کے بعد وارد ہونے والے سوالات واعتراضات کے جوابات پیش کرتے ہیں اور کہیں کہیں علامہ محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلی م 148ھ کا اختلاف بھی ذکر کرتے ہیں۔
امام محمد رحمہ اللہ نے فروعی مسائل کو ذکر کرنے میں یہ ترتیب ملحوظ رکھی ہے کہ اپنے مشائخ اساتذہ کرام امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام ابویوسف رحمہ اللہ کے مذہب پر فروعات کو پہلے ذکر کرتے ہیں اور پھربوقت ضرورت اپنی رائے کو بیان کرتے ہیں۔
آپ نے احادیث وآثار کو بطوردلیل بہت کم ذکر کیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طبقہ ودور کے فقہاء کرام نے ان احادیث وآثار کو قبول کرلیا تھا جو ان مسائل کے لیے دلیل اور ماخذ کی حیثیت رکھتے تھے۔ چونکہ المبسوط میں مذکور تمام مسائل یا تو صراحتاً قرآن وسنت سے ثابت ہیں یا بذریعہ اجتہاد ان کو قرآن وسنت سے مستنبط کیا گیا ہے۔اس لیے امام محمد رحمہ اللہ نے احادیث آثار کو ذکر نہیں فرمایا ورنہ اگر ان کو ذکر کیا جاتامستقل طور پر احادیث وآثار پر مشتمل ایک جلد تیار ہوجاتی۔
بے پناہ مقبولیت:
کتاب الاصل کو امام محمد رحمہ اللہ نے جس جانفشانی، عرق ریزی اور مخصوص پیرائے میں تصنیف کیا ہے وہ اہل علم پر مخفی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے مشائخ اور صاحب علم وفضل حضرات نے اس کتاب سے استفادہ کیا اوردقیق وپیچیدہ مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں اس سے راہنمائی لی۔اس کتاب کی عظمت ومرتبہ کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتاہے کہ مشہور محدث مجتہد مطلق الامام الفقیہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ م204ھ نے اس کتاب کو مکمل حفظ کیا اور اپنی مایہ ناز تصنیف "کتاب الام"اسی طرز پر لکھی۔
اسی طرح مشہور فقیہ ابوالحسن بن داود رحمہ اللہ اسی کتاب کی وجہ سے اہل بصرہ کے مقابلہ میں اہل عراق پر فخر فرمایا کرتے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ کتاب اس لائق ہے کہ اس پر فخر کیا جائے، کیوں کہ اس میں موجود صرف حلال وحرام کے فروعی مسائل کی تعداددس ہزار( 10000)ہے۔
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ "کتاب المبسوط"کا مطالعہ جب کوئی عالم پوری توجہ، دھیان اور ذمہ داری کے ساتھ کرتا ہے تو وہ مصنف مرحوم کے وسعت مطالعہ، بے پناہ قوت حافظہ اور تبحر علمی کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تاریخی کتب میں یہ واقعہ موجود ہے کہ اس زمانے کا یہودی جو عربی جانتا تھا اور مسلمانوں میں رہنے کی وجہ سے فقہ وشریعت کے معاملات سے بھی کچھ نہ کچھ واقفیت رکھتا تھا، اس نے جب اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا تومتاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور بے ساختہ اس نے یہ جملہ کہا:
" ھذا کتاب محمد کم الاصغر فکیف کتاب محمدکم الاکبر"
کہ یہ تو تمہارے چھوٹے محمد کی کتاب ہے پس بڑے محمد[صلی اللہ علیہ وسلم]کی کتاب کا کیا عالم ہوگا؟ اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔
خصوصیات:
کتاب الاصل کو درج ذیل نمایاں خصوصیات کی بناء پر امام محمد رحمہ اللہ کی بقیہ تمام کتب پر امتیازی درجہ حاصل ہے۔
1.دلائل پر مغزاور طرز استدلال انتہائی مضبوط ہے۔
2.انداز تحریر انتہائی شگفتہ اور ماخذ نہایت سہل ہونے کی وجہ سے اہل علم کے لیے زیادہ نفع بخش ہے۔
3. سلاست عبارت اور مسائل کی عام فہم بے غبار تشریح کا التزام کیا گیا ہے۔
4.تمام فقہی مباحث پر مشتمل ہے۔
5.مصنف نے بسااوقات ایک ایک مسئلہ پر کئی کئی فروعات ذکر کی ہیں۔
مجلس الشیخ:
اتباع سنت کی اہمیت
الحمد للہ و کفی و سلام علی عبادہ الذین اصطفی اما بعد! فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم : قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ الآیۃ
(آل عمران:31)
بعد ازخطبہ مسنونہ :
وہ گل گل نہیں جس میں بو نہیں
وہ دل دل نہیں جس میں تو نہیں
دکانوں میں رکھے بناوٹی پھولوں کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا اس لیے کہ ان میں بو نہیں،جبکہ کیاری میں لگے پھولوں کو ہر کوئی سونگھتا اور لذت محسوس کرتا ہے۔یہ تمام پھول کہاں سے آئے؟ہمارے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام کو جب جنت سے دنیا میں بھیجا گیا تو وہ بہت روئے۔ تفسیر علی بہائمی میں لکھا ہے کہ ان کے رونے کی وجہ سے جگہ جگہ آنسووں کے چشمے بنے اور یہ تمام خوشبودار پھول حضرت آدم علیہ السلام کے آنسووں ہی سے بنے ہیں۔ہم نے اپنے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام کی عادت یعنی رونا چھوڑ دیا ہے۔ حدیث قدسی میں ہے : لانین المجرمین احب الی من زجر المسبحین کہ گناہ گاروں کا رونا دھونا مجھے سبحان اللہ پڑھنے والوں سے زیادہ محبوب ہے۔
کوئی نہیں جو یار کی لا دے خبر مجھے
اے سیل اشک تو ہی بہادے ادھر مجھے
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا " قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ " اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ کے محبوب بننا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو۔ یہاں یہ نہیں کہا کہ''اطیعونی''کہ میری اطاعت کرو بلکہ اتبعونی فرمایا۔" تبیعۃ" عربی میں اس بچے کو کہتے ہیں جو اپنی ماں اور باپ کی بلا سوچے سمجھے نقل کرتا ہے۔تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنی ہے چاہےہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔آج اگر کوئی اتباع نہ کرے اور کہے کہ میں اپنے والدین کی اتباع نہیں کرتا تو ماں کی تقلید کیے بغیر تو آدمی اپنا حلالی ہونا ثابت نہیں کرسکتا،کیونکہ کسی کے پاس ماں کے قول کے علاوہ کوئی دلیل نہیں۔ اس لیے اگر کوئی آدمی کہے کہ میں تقلید نہیں کرتا تو اپنا حلالی ہونا ثابت نہیں کرسکتا۔اس کی ماں نے ہی بتایا ہے کہ یہ آپ کےابو ہیں اور یہ ایسا یاد کرایا کہ اس کے خلاف سننے کو تیار ہی نہیں۔مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتے ہوئے لوگوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ہمارے ہاں کنویں کا پانی بہت میٹھا ہے۔ لوگ دوردور سے بھر کے لے جاتے ہیں۔قریب میں مدرسہ ان کا[اشارہ غیر مقلدین کی طرف۔از مرتب] بھی تھا۔تو اسی کنواں کھودنے والے کو لے گئے کہ پانی میٹھا نکلے گا۔ وہ اتنا کڑوا نکلا کہ زبان پہ رکھنا بھی مشکل ہو گیا۔ وہ لوگ والد محترم حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کے پاس آئے کہ ہمیں کوئی وظیفہ بتائیں تاکہ پانی میٹھا ہوجائے۔انہوں نے فرمایا کہ 40دن میں میٹھا ہوجائے گا۔بس فجر کے بعد بیٹھ کر20 منٹ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مناقب بیان کیا کرو پانی میٹھا ہوجائے گا۔ تو انہوں نے کہا کہ زہر کا گھونٹ پی لیں گے یہ کام نہیں کر سکتے۔
فرمایا اگر تم اللہ کے محبوب بننا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو چاہے سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ سمجھ میں آنا ضروری ہے جبکہ شریعت میں عقل کا دخل نہیں۔ اس لیے کہ انسان کی عقل کی جہاں انتہاء ہے وہاں سے وحی کی ابتداء ہے۔ایک شخص کہنے لگا کہ بات عقل میں آنا ضروری ہے۔ میں نے کہا کہ نماز پڑھتے ہو ؟کہا: ہاں۔ پوچھا وضو بھی کرتے ہو؟کہاہاں۔میں نے کہا کہ نواقض وضو میں اخراج ریح بھی ہے؟
کہا ہاں۔تو میں نے کہا کہ ہوا شرمگاہ سے نکلی ہے اور دھوتے ہاتھ،منہ بازو اور پاؤں ہو،تو عقل کے مطابق فقط مقعد کو دھو لیتے۔ تو کہنے لگا اب سمجھ گیا ہوں۔تومیں نے کہا ایسے احکامات کو امر تعبدی کہتے ہیں جن میں انسان کی عقل کو دخل نہیں ہے۔بس مسائل علماء سے پوچھ کر ان پر عمل کیا کرو چاہے سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں۔ توجب اللہ تعالی سے محبت کرتے ہوئے اطاعت رسول کرو گے تو اللہ تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا۔آج بہت سے لوگ معاشرے سے ڈر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل نہیں کرتے کہ اگر داڑھی رکھ لی تو معاشرہ کیا کہے گا!شلوار ٹخنوں سے اوپر کی تو معاشرہ کیا کہے گا!جبکہ معاشرہ کسی کو کچھ نہیں دیتا۔یہی معاشرہ انسان کی موت کے وقت اس کے جنازے کے پاس کھڑے ہوکر گپیں لگاتا ہے، کوئی سگریٹ پی رہاہوتا ہے اور یہ انسان اپنے کو خوبصورت بنانے کے لیے داڑھی منڈاتا ہے، اس جسم کوسجاتاہے،جبکہ اس کی حقیقت کچھ نہیں ابھی بول رہا ہے اور اگر ابھی روح نکل جائے تو یہ مردہ لاش ہے۔
تو ہم اس جسم کو اتنا سجاتے ہیں جبکہ اس کی حالت کیا ہونے والی ہے اس کے بارے میں نذیر اکبر الہ آبادی کہتا ہے:
کئی بارہم نے یہ دیکھا کہ جن کا مشین بدن تھا معطر کفن تھا
جو قبر کہن ان کی اکھڑی تو دیکھا نہ عضو بدن تھا نہ تار کفن تھا
تو حضرت والد صاحب دامت برکاتہم نے ''معطر کفن'' کی جگہ ترمیم کرکے ''مبیض کفن'' کردیا۔اس لیے کہ کفن کو عطرلگانا جائز نہیں ہے۔ مگر آج کانو جوان روح کی فکر چھوڑ کر بدن کی فکر کرتا ہے، جبکہ امت محمدیہ کی اوسط عمر 60برس ہے۔نیند اور بچپن کو نکال کر 25سال رہ گئے،اللہ تعالی ہر دن ہمیں 24گھنٹے ہمیں دیتا ہے اور 24کو 60سے ضرب دیں تو1440ہوتا ہے اگر 140منٹ بھی اللہ کو دے دیں تو ہمارے تمام اعمال اس میں ہوسکتے ہیں۔
دوستو!دنیا کا قیام بہت کم ہے۔ اللہ نے ہمیں دنیا میں آخرت کی تیاری کے لیے بھیجا ہے اور دنیا بہت تیزی سے گزر رہی ہے۔ "ان الدنیا مدبرۃ والآخرۃ مقبلۃ"دنیا گزر رہی ہے اور آخرت آرہی ہے۔ عارف باللہ ڈاکٹر عبدالحی عارفی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ انسان جس طرف بھی قدم بڑھائے وہ قدم اس کا قبرستان کی طرف بڑھتا ہے چاہے کسی بھی جگہ جائے۔ اس لیے جتنے قدم وہ لے کر آیا جب ان کا شمار ختم ہوگا تو اس کا چلنا بند ہوجائے گا۔
قدم سوئے مرقد نظر سوئے دنیا
کہاں جارہا ہے کدھر دیکھتا ہے
تو ہم سب جنت سے آئے ہیں اور ہم سب کی زبان عربی ہے اور ہم سب کا خونی رشتہ بھی ہے۔ اس لیے کہ ہم سارے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔تو کہیں نہ کہیں جاکر ہمارا خون مل جاتا ہے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتویں دادا ایک تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نویں دادا ایک تھے۔اللہ تعالی نے 600زبانیں پیدا کردیں۔ کیوں؟ "لتعارفوا"تاکہ پہچان ہوجائے کہ یہ کس قبیلے کا ہے اور یہ کس قبیلے کا۔ آج ہم نے لڑائی جھگڑے کا ذریعہ اسی زبان کو بنایا ہے۔دین میں تعصب نام کی کوئی چیز نہیں،حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"غفار غفرھا اللہ"اللہ تعالی نے بنو غفار کی مغفرت کی اور فرمایا:امرت بحب اربع واخبرنی اللہ یحبھم کہ اللہ نے مجھے چار سے محبت کا حکم دیا ہے اور اللہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ اللہ بھی ان سے محبت کرتا ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا"من ھم یارسول اللہ"ارشاد فرمایا یہ علی، ابوذرغفاری،مقداد بن اسود اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہم ہیں۔ایک قریشی اور تین غیر عرب تھے۔اگر دین میں تعصب ہوتا تو تمام نام قریش کے ہوتے کسی اور کا نام نہ ہوتا۔دین میں تعصب نہیں ہے۔ اس میں شدت اور تعصب تب پیدا ہوتا ہے جب کسی اللہ والے سے تعلق نہ ہو۔ اسی لیے فرمایا:
" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ "
(توبہ:119)
ایمان تو ہم سب کو اللہ نے دیا، رہا تقوی تو اس کے لیے صحبت کی ضرورت ہے۔ دیکھیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نام کو تمام حروف جارہ مل کر بھی زیر نہیں دے سکتے۔اس لیے کہ یہ غیرمنصرف ہے اور غیرمنصرف ہونے کے لیے دواسباب کا ہوناضروری ہے۔ تو مسلمان میں ایمان تو ہے،اگر ساتھ تقوی بھی آجائےدنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھی اسے زیر نہیں کرسکتیں۔اور تقوی کے لیے آسان صورت ہے" كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ "کہ اللہ والوں کے ساتھ ہوجاؤ۔تو اللہ والوں کی صحبت کا بڑا اثر ہوتاہے۔صحابہ میں روایات تو سب سے زیادہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہیں مگر مقام سب سے زیادہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ملا ہے۔ اس لیے تو فرمایا گیا
''خیرالخلائق بعدالانبیاء بالتحقیق ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ ''۔
اس لیے کہ انہوں نے صحبت زیادہ پائی ہے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ شام جاتے ہوئے خواب دیکھا تو بحیرہ راہب کو بتایا۔ اس نے پوچھا "من این انت؟"کہاں سے آئے ہو؟ میں نے کہا"من مکۃ"پھر پوچھا "من ایھا؟"یعنی کس قبیلہ سے ہو؟ تو میں نے کہا قریشی، پھر پوچھا "فیش انت؟"یعنی تیرا کیا مشغلہ ہے ؟ کہا: تجارت۔ اس نے کہا قال صدق اللہ رویاک اللہ تیرے خواب کو سچا کر دکھائے،
سیبعث نبی من قومک وانت تکون وزیرہ فی حیاتہ وخلیفتہ بعد وفاتہ"
عنقریب سیدالانبیاء جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہونے والے ہیں، زندگی میں آپ ان کے ساتھی ہوگے اور ان کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ ہوگے۔ "فاسرھا من الکائنات کلھا" تو انہوں نے تعبیر سننے کے بعد تمام لوگوں سے چھپائے رکھا حتی کہ گھرانے میں بھی نہ بتایا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 40برس ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی شروع ہوئی جب آیت " وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ "اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو جمع کرکے کہا "قولوا لا الہ الا اللہ تفلحون"تو سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور پوچھا : یا محمد! ماالدلیل علی ماتدعی؟ آپ کی نبوت پر کیا دلیل ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الدلیل علی ما ادعی رویاک رایتھا بالشام فاسرھا من الکائنات کلھا فاخبرنی اللہ بالوحی۔کہ دلیل تومیرے دعوی پر آپ کا وہ خواب ہے جو آپ نے شام میں دیکھا پھر تمام دنیا سے چھپائے رکھا اور مجھے اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے بتلادیا ہے۔پس ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے فعانقہ وقبل بین عینہ آپ کو گلے لگایا اور پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا "اشھد انک رسول اللہ "وہاں پر ابولہب بھی تھا اس نے کہا" تباًلک یا محمد ا لھذا جمعتنا؟ "تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی جواب نہ دیا اس لیے کہ وہ عمر میں بڑے تھے۔ تو اللہ تعالی نے سورہ نازل کی" تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ " پوری سورت آئی۔
تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صحبت سے یہ مقام ملا۔ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے صحن میں کھڑی تھیں۔ رات کو آسمان پر ستارے دیکھ کر کہا اے اللہ کے رسول ! کیا آپ کی امت میں کوئی ایسا ہے جس کی اتنی نیکیاں ہوں جتنے آسمان میں ستارے ہیں۔ فرمایا ہاں، عمر کی اتنی نیکیاں ہیں جتنا آسمان پر ستارے ہیں۔ پھر پوچھا کہ میرے ابا جان کا بھی کوئی مقام ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرے ابا جان کی ایک دن نیکیاں آسمان کے اربوں کھربوں ستاروں سے زائد ہیں۔
تو صحبت زیادہ ہے اس لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اتنا بڑا مقام ملا۔آج بھی جو علماء اپنے مشائخ سے زیادہ جڑتے ہیں اللہ تعالی ان کے علم میں برکت عطاء فرماتے ہیں اور ان سے دین کا کام لیتے ہیں۔ آپ اگر ہمارے مشائخ کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ کتب کا مطالعہ کم اور قطب کا مطالعہ زیادہ کرتے تھے۔
اولئک آبائی فجئنی بمثلہم
دارالعلوم دیوبند کے بانی قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ، قطب العالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ،حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ان تمام حضرات نے جوتیاں سیدھی کیں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کی تب یہ مقام ملا۔اور حاجی صاحب کی کیفیت یہ ہوتی تھی کہ ایک مرتبہ بیت اللہ میں جب طواف سے فارغ ہوئے، دو رکعت نماز پڑھی، جب سجدے میں سر رکھا اور ساری رات روتےرہے اور فرماتے رہے:
اے خدا ایں بندہ را رسوا مکن
کہ اے اللہ کل میدان محشر میں امداد اللہ کو رسوا نہ فرمائیے۔ اتنے بڑے علماء ان کے مرید ہیں لیکن تواضع دیکھیے۔ اسی لیے فرمایا:من تواضع للہ رفعہ اللہ۔جو تواضع اختیار کرتا ہے اللہ اسے بلند فرماتا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو اپنے پیارے محبوب کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے مولانا الیاس گھمن صاحب نے جو باغ لگایا ہے اللہ تعالی اس کو تا قیامت قائم و دائم رکھے اور اس کے فیض کو پورے عالم میں پھیلا دےاور شرف قبولیت بھی عطا فرما آئندہ آنے والی ان کی نسلوں کو بھی اللہ اپنے دین کے لیے قبول فرمائے۔ آمین
بعد ازاں طلبہ سے خطاب کے دوران فرمایا: فتنوں کی سرکوبی کے لیے اللہ تعالی نے مولانا الیاس گھمن صاحب کو قبول کیا ہے۔۔۔ غیر مقلدین اسفار میں مجھے کہتے ہیں کہ مولانا الیاس گھمن نے ہمارا بہت پیچھا کیا ہوا ہے۔ انہوں نے طلبہ سے گفتگو فرماتےہوئے خوب حوصلہ افزائی کی اور آخر میں دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالی اس کام کو دور تک پھیلائے اور آپ تمام حضرات کو اس کے لیے قبول کرے۔