مقام فقہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر3:
مقام فقہ
علامہ خالد محمود مد ظلہ العالی
پی-ایچ-ڈی لندن
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک فقہ کا مقام:
7. حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابوموسی الاشعری رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجا۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے وہاں پہنچ کر جو خطبہ دیا اس میں انہیں اسلام کی رغبت دلائی اور تفقہ فی القرآن کی نصیحت کی:
" فَخَطَبَ النَّاسَ مُعَاذٌ ، فحضھم عَلَى الإِسْلامِ ، وَأَمَرَهُمْ بِالتَّفَقُّهِ فی الْقُرْآنِ "
(سنن الدارمی ج1ص84)
ترجمہ: پس حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور لوگوں کو اسلام کی رغبت دلائی اور انہیں قرآن حکیم سے فقہ مرتب کرنے کا حکم دیا۔
قرآن کریم سے جومسئلہ بیان کیا جائے دیکھنا ہوتا ہے کہ قرآن کریم اسے عبارۃً بیان کرتا ہے یادلالۃً یا اشارۃً یا اقتضاءً۔ پھر یہ کہ یہ حکم عام ہے یا خاص ،بصورت اول عام مخصوص منہ البعض ہے یا نہیں ،پھر مجمل ہے تو اس کی تفصیل کیا اسمیں کسی دوسرے مقام پر ہے یا اس کی تفصیل سنت سے معلوم کی جائے گی۔ ان سب کے جاننے میں خاصا علم فقہ درکار ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے انہیں تفقہ فی القرآن کا سبق دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مجتہد ہونے کی سندپائے ہوئے تھے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" خَصْلَتَانِ لاَ تَجْتَمِعَانِ فِى مُنَافِقٍ حُسْنُ سَمْتٍ وَلاَ فِقْهٌ فِى الدِّينِ "
(رواہ الترمذی ج293)
ترجمہ: دو عادتیں کسی منافق میں جمع نہیں ہوپاتیں۔
1: حسن سیرت 2 :دین فقہ کی گہرائی۔
منافق قرآن کی آیات منافقت کےساتھ پڑھ سکتا ہے ،کلمہ بھی پڑھ سکتا ہے ،
" نَشْهَدُ اأنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ "
بھی کہہ سکتا ہے ،حدیث بھی روایت کرسکتا ہے ، صحیح ہویا اپنے پاس سے بنائے لیکن" تفقہ فی الدین "سے وہ کلیۃ ًعاری ہوتا ہے۔ یہ ایسا نور ہے جو قلب منافق میں اتر نہیں سکتا اور اسکا کوئی ظاہر نہیں جسے وہ ظاہری طور پر اپنا رکھے۔ فقہ کے ظاہری پیرائے قرآن وحدیث ہیں اور ان میں وہ منافقت کی راہ نہیں چل سکتا۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ وہ فقہی جزئیات کی نقل کرے اور غلط کرے ظاہر ہے کہ وہ فقیہہ نہیں ہوگا۔اللہ تعالی نے جوعلم دے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اس میں جو شخص فقہ پالے اور پھر قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہ پڑھائے اس کی کیا مثال ہوسکتی ہے؟ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےاس ارشاد میں ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت ابوموسی اشعری حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ
" مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ مِنْ الْهُدَى وَالْعِلْمِ كَمَثَلِ الْغَيْثِ الْكَثِيرِ أَصَابَ أَرْضًا فَكَانَ مِنْهَا نَقِيَّةٌ قَبِلَت المَاءَ فَأَنْبَتَتْ الْكَلَأَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيرَ وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتْ الْمَاءَ فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا وَأَصَابَتْ مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لَا تُمْسِكُ مَاءً وَلَا تُنْبِتُ كَلَأً فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ وَنَفَعَهُ بمَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا "
(صحیح بخاری ج1ص18،صحیح مسلم)
ترجمہ: اللہ تعالی نے مجھے جو علم اور ہدایت دے کر بھیجا ہے اس کی مثال اس وافر بارش کی ہے جو ایسی زمین پر برسی جو بڑی صاف تھی۔ اس نے پانی کو اپنے میں جذب کیا اور بہت گھاس اور سبزیاں اگائیں اور ایسی زمین بھی تھی جو پتھریلی تھی اس نے پانی روک رکھا۔ اللہ نے اس سے بھی لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔ وہ اسے پیتے رہے پلاتے رہےاور کھیتوں کو دیتےرہے اور ایسی زمین بھی تھی جس کےچٹیل میدان تھے۔ یہ نہ پانی کو روک سکی نہ سبزہ اُگاسکی۔ یہ مثال ان کی ہے جو اللہ کے دین میں فقہ حاصل کریں اور اللہ نے جو دین مجھےدے کر بھیجا ہے اس سے نفع حاصل کریں۔ علم سیکھیں اور اسے سکھائیں اور اس کی جس نے اس کھلی بارش پر سر تک نہ اٹھایا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بجا فرمایا :
"مجلس فقہ خیر من عبادۃ ستین سنۃ"
(رواہ الطبرانی فی المعجم الکبیر )
ترجمہ: فقہ کی ایک مجلس ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔
صحیح بخاری ج1ص161 میں جریج راہب کا قصہ مذکور ہے۔ والدہ نے اسے تین دفعہ آواز دی اور وہ اپنے صومعہ میں عبادت میں لگا رہا۔ ماں کو جواب نہ دیا۔ ماں نے اسے بددعا دی وہ عبادت کے شوق میں لگا رہا۔ یہ نہ سمجھ پایا کہ ماں کی آواز پر پہنچنا کیسا ہے؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" لَوْ كَانَ جُرَيْجٌ الرَّاهِبُ فَقِيهًا عَالِمًا لَعَلِمَ أَنَّ إِجَابَتَهُ أُمَّهُ خَيْرٌ مِنْ عِبَادَةِ رَبِّهِ "
(عمدۃ القاری ج7ص283)
ترجمہ: اگر جریج راہب علم میں فقیہہ ہوتا تو اسے پتہ ہوتا کہ ماں کی آواز پر ہاں کہنا خدا کی عبادت سے بہتر ہے۔
اس میں لسان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سےعلم فقہ کی عظمت ظاہر ہے۔ ہرعالم فقیہہ نہیں ہوتا،فقہ صرف اونچےعلم والوں کا نصیب ہے۔دوسرے درجے میں محدثین ہیں جو اس بارش کےپانی کو اپنےہاں روک لیتےہیں۔
ویسے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سینکڑوں صحابہ رضی اللہ عنہم روز آتے جاتے تھے ،لیکن ان میں جو فقہ کی گہرائی پا چکے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں ہوتے تھے۔ درس وتدریس اورفقہ وافتاء کی خدمات انہی کے سپرد ہوتی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت زیاد بن لبید انصاری رضی اللہ عنہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا :
" إِنْ كُنْتُ لَأَعُدُّكَ مِنْ فُقَهَاءِ الْمَدِينَةِ "
(سنن الدارمی عن ابی الدرداء ج1ص99و ا لترمذی ج2ص90)
ترجمہ: بےشک میں تو تمہیں مدینہ کےفقہاء میں سے سمجھتا تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ایک اعرابی کے سامنے یہ آیت پڑھی :
فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ
تو وہ اعرابی کہنے لگا۔ " حَسْبِي حَسْبِي " مجھےیہ کافی ہے ،مجھے یہ کافی ہے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "فقہ الرجل "یہ شخص فقیہہ ہوگیا۔
(عوارف المعارف بہامش احیاء علوم الدین ج1ص226)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے لیے دعا کی تھی:
" اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ ، وَعَلِّمْهُ التَّأْوِيلَ "
(صحیح بخاری ،مسنداحمد ج1ص328بحوالہ ترجمان السنۃ ج4ص258)
ترجمہ: اے اللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہما)کو دین کی فقہ عطاء فرما اور اسے علم تفسیر عطاکر