تجارت اور سود میں فرق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر4:
تجارت اور سود میں فرق
مفتی رئیس احمد
شریعہ ایڈوائزر حلال ریسرچ کونسل
قرآن پاک کی متعدد آیات کی رو سے کسی بھی قرض کے معاہدے میں اصل سرمایہ کے اوپر لی جانے والی رقم ربوٰ میں داخل ہے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے درج ذیل صورتوں کو بھی ربوٰ قراردیاہے۔
نمبر1: ایک کرنسی کا دوسری کرنسی کے ساتھ تبادلہ جب دونوں طرف کی کرنسیاں برابر نہ ہوں خواہ معاملہ نقد ہویا ادھار۔
نمبر2: ایک ہی قسم کی کوئی بھی وزنی یا پیمائش کے قابل اشیاء کاتبادلہ جبکہ دونوں طرف کی مقدار برابر نہ ہویا ان سے کسی ایک طرف کی ڈیلیوری ادھا رہو۔
نمبر3: دومختلف الجنس وزنی یا پیمائش کے قابل اشیاء کا بارٹر جبکہ ان میں سے ایک طرف کی ڈیلیوری موجل ادھارہو۔اسلامی فقہ میں یہ تین صورتیں ربوٰا السنۃ کہلاتی ہیں کیونکہ ان کی حرمت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے۔جہاں تک سود کی حرمت کاتعلق ہے مذکورہ بالابحث کی روشنی میں قرض کی مختلف اقسام میں کوئی فرق نہیں ہے اور اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ قرض کے معاملے میں اصل سرمایہ کے اوپر مشروط اضافی رقم خواہ چھوٹی ہو بابڑی۔اس لیے یہ قراردیا جاتاہے کہ انٹرسٹ کی مروجہ تمام صورتیں بینکاری نظام کی ہوں یا پرائیوٹ معاملات کی یقیناً ربوٰ کی تعریف میں شامل ہیں اسی طرح حکومتی قرضے خواہ ملکی ہوں یا غیرملکی ربوٰ میں شامل ہیں اور قرآن پاک کی رو سے حرام ہیں۔
قرآن مجید میں اہل جاہلیت کے اس قول کی تردید کی گئی ہے کہ بیع اور ربوٰ دونوں یکساں چیزیں ہیں ان کا مطلب یہ تھاکہ ربوٰ بھی ایک قسم کی تجارت ہے جیسا کہ آج کل کی جاہلیت اُخریٰ والے بھی عموماً یہی کہتے ہیں کہ جیسے مکان ،دوکان اور سامان کو کرائے پر دے کراس کا نفع لیا جاسکتا ہے تو سونے چاندی کو کرائے پردے کر اس کا نفع لینا کیوں جائز نہ ہو؟ یہ بھی ایک قسم کا کرایہ یا تجارت ہے۔ قرآن کریم نے اس کا جواب حاکمانہ انداز میں بیان فرمایاکہ ان دونوں چیزوں کو ایک سمجھنا غلط ہے اللہ نے بیع کا حلال اور سود کو حرام قراردیا ہے فرق کی وجوہ قرآن نے بیان نہیں فرمائیں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ بیع وتجارت کے اصل مقصد میں غور کروا تو روزِ روشن کی طرح بیع اور ربوٰ کا فرق واضح ہوجائے گا۔ دیکھیے انسان کی ضرورت کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ دنیا کا کوئی انسان خواہ کتنا ہی بڑا ہو اپنی تمام ضروریات خود پیدا یا جمع نہیں کر سکتا اس لیے قدرت نے تبادلے کا قانون جاری فرمایا اور اسی کو انسانی فطرت کا جزو بنادیا۔ مال اور محنت کے باہمی تبادلے پر ساری دنیا کا نظام قائم فرمادیا۔ مگر اس تبادلے میں ظلم اور بے انصافی بھی ہوسکتی تھی اور ایسے تبادلے بھی ہو سکتے جو انسانی اخلاقی وشرافت اور پورے انسانی معاشرے کے لیے تباہی کا باعث ہوسکتے ہیں جیسے عورت کا اپنے جسم کی مزدوری کے نام پر زنا کا مرتکب ہونا۔ اس لیے حق تعالیٰ نے اس کے لیے شرعی احکام نازل فرماکرہر ایسے معاملے کو ممنوع قراردے دیا ، جوکسی ایک فریق کے لیے مضر ہو یا جس کا ضرر پورے انسانی معاشرے کو پہنچتا ہو۔بیع وتجارت دولت کی آزادانہ گردش کا ذریعہ ہے جس سے پوری ملت کو فائدہ پہنچتا ہے بخلاف ربوٰکے کہ وہ اس گردش کو صرف چند سرمایہ داروں کے حلقے ہیں محدود کر دیتاہے جس سے پوری ملت فقر وافلاس کا شکار ہوتی ہے تفسیر قرطبی میں انما البیع مثل الربوٰکی تشریح میں فرمایا وذٰلک ان العرب کانت لاتعرف رِباً الا ذٰلک۔۔الیٰ قولہ۔۔فحرمت سبحانہ ذٰ لک ورد علیہم لقولہ واحل اللہ البیع وحرم الربوٰ۔
یعنی عرب کے لوگ صرف اس کو ربوٰسمجھتے تھے کہ قرض کی مہلت کے معاوضے میں کوئی رقم لی جائے اور اس کو مثل بیع کہتے تھے اللہ تعالیٰ اس کو حرام قرار دیاہے اور ان کے خیال کی تردید اس طرح فرمائی کہ اللہ تعالیٰ بیع کو حلال اور ربوٰ کوحرام قراردیاہے۔ )جاری ہے(