مقام فقہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر4:
مقام فقہ
علامہ خالد محمود مدظلہ العالی
۔ پی ۔ایچ ۔ڈی لندن
صحابہ کرام کے ہاں فقہ کا مقام
1: حضرت ابو بکر۔ صدیق رضی اللہ عنہ۔ کو کوئی مسئلہ پیش آتا تو اہل الرائے اور اہل الفقہ کو مشورہ کے لئے بلاتے ،مہاجرین و انصار میں سے اہل علم کو بلاتے ۔ حضرت عمر، حضرت عثمان ،حضرت علی، حضرت عبد الرحمن بن عوف ،حضرت معاذ بن جبل۔ ،حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کو بلاتے۔۔ یہی لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ۔ کے زمانہ خلافت میں فتوی دیا کرتے تھے ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو وہ بھی انہی سے مشورہ لیا کرتے تھے اور فتوی کا مدار زیادہ۔ انہی حضرات پر تھا۔۔ ۔ ۔ ۔۔
(کنز العمال۔ ج:3 ص:144)
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی مجلسِ فقہاء۔ ان سات ارکان پر مشتمل تھی۔
"کان ابو بکر۔ الصدیق اذا ورد علیہ حکم نظر فی کتاب اللہ۔ تعالی فان وجد فیہ ما یقضی بہ قضی بہ وان لم یجد فی کتاب اللہ نظر فی سنۃ رسول اللہ۔ فان وجد فیھا ما یقضی بہ قضی بہ۔ فان اعیا ہ ذالک سال الناس ھل علمتم ان رسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وسلم قضی فیہ بکذا او کذا۔ فا ن لم یجد۔۔ سنۃ۔۔ سنھا۔ النبی صلی اللہ علیہ وسلم جمع رؤوس الناس۔ فاستشارھم فاذااجتمع الیھم علی الشئی قضی بہ "
(۔ کتاب القضاء لابی عبید )
ترجمہ : حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی مقدمہ آتا تو آپ کتا ب اللہ پر نظر کرتے۔ اگر اس میں مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے اور اگر اسے کتاب اللہ میں نہ پاتے تو سنت رسول۔ پاک میں اسے تلاش کرتے۔ ۔ اگر آپ کو وہ اس میں مل جائے تو اس کے مطابق فیصلہ دیتے اوراگر وہ مسئلہ وہاں بھی نہ ملے تو آپ دوسرے صحا بہ سے پوچھتے :کیا تم نے جانا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ دیا ہو؟۔ اگر آپ کو اس طرح بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت نہ ملتی تو آپ صحابہ رضی اللہ عنہم کی میٹنگ بلاتے اور ان سے مشورہ کرتے۔ اگر وہ کسی بات پر متفق ہو جاتے تو آپ اس کے مطابق فیصلہ فرماتے۔۔ ۔
ادلہ شرعیہ میں کتاب وسنت کے بعد اجماع کا درجہ ہے پھر قیاسِ۔ مجتہد ہے۔۔
2: قرآن کریم کا ارشاد ہے:
"كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ "
( آل عمران :79)
ترجمہ : تم ہو جاؤ اللہ والے جیسے کہ تم سکھلاتے تھے اللہ کی کتاب اور جیسے کہ تم خود بھی پڑھتے تھے ۔
ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ۔ اس کی۔ تفسیر میں فرماتے ہیں:
"کُوْنُوْ ا حُکَمَاءَ عُلَمَاءَ وَ فُقَہَاءَ"
( صحیح البخاری ج:1،ص:16 )
ترجمہ : تم ہو جاو حکماء علماء اور فقہاء ۔
" قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : مَا سَأَلَنِي رَجُلٌ عَن مَسْأَلَةٍ إلاَّ عَرَفْت ، فَقِيهٌ هُوَ ، أَوْ غَيْرُ فَقِيهٍ"
(مصنف ابن ابی شیبہ ج:3ص:312)
ترجمہ : جب بھی۔ کسی نے کوئی مجھ سے مسئلہ پوچھا میں نے جان لیا۔ وہ۔ فقیہہ ہے یا غیر فقیہہ ۔
صحابہ میں آپ جس کو عالم ربانی سمجھتے کہ وہ بات کتاب وسنت کی مرادات میں گھر۔ کر کہتا ہے تو اسے کہتے یہ۔ فقیہہ ہو چکا آپ نے حضرت امیر معاویہ کو بھی یہ سند دی اور فرمایا "انہ لفقیہ"اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے ہاں فقہ کی کتنی عظمت تھی ۔
ایک اور موقعہ پر فرمایا۔
" أَفْضَلُ الْعِبَادَةِ۔ الْفِقْهُ فِي الدِّينِ "
( عوارف المعارف بھا مش احیاء۔ ج:1 ص:226)
یہ بہترین عبادت ہے کہ فقہ میں لگے رہو ۔
3: فقیہہ الامت حضرت عبد اللہ ابن مسعود کی منزلت علمی سے کون آگاہ نہیں آپ اس زمانے کو فتنے کا زمانہ کہتے ہیں جب قرآن کے الفاظ کو اٹھانے والے زیادہ ہو جائیں گے اور اس کی گہرئی میں اتر نے والے اس کے معانی کے علمبردار کم ہو جائیں گے ۔ قرآن پاک کے ظاہر و باطن کو اٹھانے والوں کو آپ قرآء اور فقہاء کا نام دیتے تھے ۔
آپ فرماتے ہیں:
" کَیْفَ اِذَا لَبِسَتْکُمْ فِتْنَۃٌ یَھْرُمُ۔ فِیْھَا۔ الْکَبِیْرُ وَیَرْبُوْ فِیْھَا الصَّغِیْرُ ۔۔۔۔۔۔۔ اِذَاکَثُرَتْ قُرَّاءُکُمْ وَقَلَّتْ فُقَہَاءُکُمْ"
(سنن دارمی ج:1ص:75)
ترجمہ :۔۔ تمہارا کیا حال ہو گا جب تمہیں فتنے آلیں گے بڑے بوڑھے ہو جائیں گے اور چھوٹے بڑے ہو جائیں گے۔۔۔ قاری زیادہ ہوں گے اور فقہ جاننے والے کم ہوں گے ۔
اور یہ بھی فرمایا
"لَا یَاْتِیْ۔ عَلَیْکُمْ عَامٌ۔ اِلَّا وَھُوَ شَرٌّ مِنَ الَّذِیْ کَا نَ قَبْلَہُ ۔۔۔۔ وَلٰکِنْ عُلَمَاءُ کُمْ وَخِیَارُکُمْ وَفُقَہَاءُ کُمْ یَذْ ھَبُوْنَ ثُمَّ لَا تَجِدُوْنَ مِنْھُمْ خَلَفاً وَتَجِئُی قَوْمٌ یَقِیْسُوْنَ الْاَمْرَ بِرَاْیِھِمْ "
(سنن دارمی ج:1 ص:76)
ترجمہ : تم پر کوئی سال نہ آئے گا مگر یہ کہ وہ اپنے سے پہلے سال سے بدتر ہو گا ۔لیکن۔ تمہارے علماء اورا چھے لوگ اور فقہاء چلتے بنیں گے پھر تم ان کے جانشین نہ پا و گے ۔ پھر ایسے لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے جو معاملے کو اپنے خیال سے طے۔ کریں گے ۔
فقہاء مسائل غیر منصوصہ کو علت پر نظر رکھتے ہوئے مسائل منصوصہ پر قیاس کرتے ہیں۔ رائے پر قیاس نہیں کرتے ۔ حضرت نے پیشگوئی کی جب اصل فقہاء اٹھ۔ جائیں۔۔ گے تو وہ لوگ آجائیں گے جو مسائل کو اپنے خیال سے طے کریں گے ۔
4: فقیہہ شام حضرت ابو دردآء رضی اللہ عنہ(32ھ)۔ فرماتے ہیں ۔
"لاَ تَفْقَهُ كُلَّ الْفِقْهِ حَتَّى تَرَى لِلْقُرْآنِ وُجُوهًا كَثِيرَةً وَلَنْ تَفْقَهَ كُلَّ الْفِقْهِ حَتَّى تَمْقُتَ النَّاسَ فِي ذَاتِ اللہِ ثُمَّ تُقْبِلَ عَلٰی نَفْسِکَ فَتَكُونَ لَهَا أَشَدَّ مَقْتًامِنْکَ لِلنَّاسِ "
( الأسماء والصفات للبيهقي ج2 ص163)
ترجمہ : تم اس وقت تک پورے فقیہہ نہیں ہو سکتے۔ ۔ جب تک کہ قرآن کریم میں وجوہ کثیرہ پر تمہاری نظر نہ ہو اور تم اس وقت تک کامل فقیہہ نہ ہو سکو گے جب تک تم اللہ کے لئے لوگوں سے بیزار نہ رہو۔ پھر تم اپنے جی پر نظر کرو اور تم اس کے لئے لوگوں سے بھی۔ زیادہ دوری اختیار کرنے والے ہو جاو ۔
5: حضرت تمیم داری کہتے ہیں حضرت عمر نے فرمایا
" فَمَنْ سَوَّدَہُ قَوْمُہُ عَلَی الْفِقْہِ کَانَ حَیَاۃً لَہُ۔ وَلَھُمْ وَمَنْ سَوَّدَہُ قَوْمُہُ عَلٰی غَیْرِ فِقْہٍ کَانَ ھَلَاکاً وَلَھُمْ "
(سنن دارمی ج:1 ص:91)
ترجمہ : جس شخص کو اس کی قوم نے فقہ پر سرداری دی اس میں اس کے لئے اور اس قوم کے لئے زندگی ہے اور جسے اس کی قوم۔ نے فقہ کے بغیر سردار بنایا۔ اس میں اس کے لئے اور پوری قوم کے لئے ہلاکت ہے ۔
حضرت عمر نے۔۔ حضرت ابو موسی اشعری۔ کو لکھا :
"اَمَّا بَعْدُ! فَاِنِّی آمُرُکُمْ۔ بِمَا اَمَرَکُمْ بِہِ الْقُرْآنُ وَاَنْھَاکُمْ عَمَّا نَھَاکُمْ۔ عَنْہُ مُحَمَّدٌ صلی اللہ علیہ وسلم۔ وَاٰمُرُکُمْ بِاتِّفَاقِ۔ الْفِقْہِ وَالسُّنَّۃِ وَالتَّفَھُّمِ فِی الْعَرْبِیَّۃِ "
(مصنف۔ عبد الرزاق ج:11 ص؛213)
ترجمہ : میں تمہیں اسی بات کا حکم دیتا ہوں جس کا قرآن کریم نے تمہیں حکم دیا ہے اور اسی چیز سے روکتا ہوں جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے اور میں تمہیں فقہ اور سنت کے جوڑنے اور عربیت میں فہم پیدا کرنے کی تاکید کرتا ہوں ۔
" عَنْ عُمَرَ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ : كَتَبَ عُمَرُ إلَى أَبِي مُوسَى : أَمَّا بَعْدُ فَتَفَقَّهُوا فِي السُّنَّةِ وَتَفَقَّهُوا فِي الْعَرَبِيَّةِ."
( مصنف ابن ابی شیبہ ج:5ص:240)
ترجمہ : حضرت عمر نے حضرت ابو موسی الاشعری کو لکھا کہ سنت میں فقہ حاصل کرنے کی کوشش۔ کرو اور عربیت میں فقہ کی تلاش کرو۔
حضرت ابو موسی الاشعری خود بھی اونچے علمی پائے کے عالم تھے گویا ان کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ فقہ سنت اور علم و ادب ساتھ ساتھ چلیں گے تب۔ کتاب وسنت کی اصل پر اطلاع ہوسکے گی ۔حضرت عمر نے ایک اور موقعہ پر بھی فرمایا
" تَفَقَّهُوا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوا "
( صحیح البخاری ،ج :1،ص:17)
سیادت پر آنے سے پہلے فقہ حاصل کرو۔۔ ۔
حضرت عمر نے جابیہ میں جو خطبہ دیا اس میں کھلے لفظوں فقہ کی طرف توجہ دلائی۔ آپ نے فرمایا " مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنِ الْقُرْآنِ فَلْيَأْتِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ , وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ ، عَنِ الْفَرَائِضِ فَلْيَأْتِ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ , وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ ، عَنِ الْفِقْهِ فَلْيَأْتِ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ "
[مصنف ابن ابی شیبہ: رقم الحدیث: 33567]
ترجمہ : جو شخص چاہے۔ کہ قرآن کے بارے میں کچھ پوچھے وہ ابی۔ بن کعب کے پاس جائے اور جو شخص وراثت کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہے وہ۔ زید بن ثابت کے پاس آئے اور جو شخص فقہ کا خواہاں ہو وہ معاذ بن جبل کے پاس آئے ۔
6:۔ ۔ حضرت علی۔ المرتضی کی شھادت:
" لَا خَیْرَ فِی عِبَادَۃٍ۔ لَا فِقْہَ فِیْھَا وَلَا فِی قِرَآۃٍ لَا تَدَبُّر فِیْھَا اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ "
( وراجع لہ فتح الباری ج:1 ص:126)
ترجمہ : اس عبادت میں خیر نہیں جس میں فقہ کا دخل نہ ہو اور نہ قرآت۔ میں جس کے ساتھ تدبر نہیں۔ قرآن میں ہے ۔ (قرآن کریم میں ہے) کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں ۔
آپ نے یہ بھی فرمایا :
" الْفَهْمَ الْفَهْمَ فِيمَا يَخْتَلِجُ فِى صَدْرِكَ مِمَّا لَمْ يَبْلُغْكَ فِى الْکِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَاَعْرِفِ الأَمْثَالَ وَالأَشْبَاهَ ثُمَّ قِسِ الأُمُورَ عِنْدَ ذَلِكَ وَاعْمِدْ إِلَى أَحَبِّهَا إِلَى اللَّهِ وَأَشْبَهِهَا فِيمَا تَرَى."
( سنن الداری قطنی۔ ج4 ص206 )
ترجمہ :۔ ۔ ۔ ۔ جو چیز تیرے دل میں کٹکھے۔ جس کے بارے میں تمہیں کتاب وسنت سے کوئی بات نہ پہنچی ہو اس میں غور کرو اور اسے جاننے کی کوشش کرو اس کی امثال اور ملتی جلتی۔ صورتوں کو پہچانوپھر اس موقعہ پر قیاس۔ سے کام لو اور وہ پہلو اختیار کروجو۔ اللہ کو زیادہ پسند ہو اور تمہاری نظر میں حق کے زیادہ قریب ہو ۔
حضرت معاویہ جنہیں حضرت ابن عباس نے " اِنَّہُ لَفَقِیْہٌ " کے اعزاز سے ذکر کیا ہے آپ نے طاعون عموس میں خطبہ۔ دیا اس میں حضرت عبادہ بن صامت کے بارے میں۔ فرمایا وہ مجھ سے زیادہ فقیہہ ہیں ۔
اس سے پتہ چلتا۔ ہے کہ صحابہ میں فقہ کا ذکر کس عزت اور عظمت سے کیا جاتا تھا اور فقہ کی اسلام میں کتنی ضرورت سمجھی جاتی تھی ۔
" لَا يَبِعْ فِي سُوقِنَا إِلَّا مَنْ قَدْ تَفَقَّهَ فِي الدِّينِ"
( جامع الترمذی ج:1 ص:449 )
حضرت عمر کا اعلان تھا کہ جو شخص فقہ نہ جانتا ہو وہ ہمارے بازار (ہماری مجلس شوری ) میں نہ بیٹھے۔
7: ۔ حضرت جابر بن عبد اللہ کی عظیم علمی شخصیت سے کون انکار کر سکتا ہے ۔آپ کی زبان سے فقہ کی عظمت سنیئے:
عَن جَابِرٍ ، قَالَ : مَا رَأَيْت أَحَدًا كَانَ أَقْرَأَ لِكِتَابِ اللهِ ، وَلا أَفْقَهَ فِي دِينِ اللهِ ، وَلا أَعْلَمَ بِاللهِ مِنْ عُمَرَ."
( مصنف ابن ابی شیبہ ج:6 ص:139)
ترجمہ :۔ ۔ ۔ میں نے حضرت عمر سے زیادہ کسی کو قرآن پڑھنے والا دین کی زیادہ سمجھ رکھنے والا (افقہ ) اور اللہ تعالیٰ۔ کی معرفت رکھنے والا کسی کو نہیں پایا ۔
8:۔ ۔ ۔ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ : إذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدٍ خَيْرًا فَقَّهَهُ فِي الدِّينِ وَأَلْهَمَهُ رُشْدَهُ.۔
(مصنف ابن ابی شیبہ۔ ج:۶ ص:241)
ترجمہ : جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے خیر کا ارادہ فرمالیں تو اسے دین میں فقہ عطافرما دیتے ہیں اور اس کا رشدوہدایت ہونا اس کے دل میں القافرما دیتے ہیں ۔
محمد بن کعب سے بھی فقہ کی عظمت واہمیت اسی طرح مروی ہے ۔