جانے اس بستی کی بربادی کہاں تک جائے گی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
جانے اس بستی کی بربادی کہاں تک جائے گی؟
مولانا محمد رضوان عزیز حفظہ اللہ
تعبیروں سے زنجیروں میں پھنسنے کی بجائے اگر ہم دو جمع دو چار جیسی اس ابدی سچائی کو تسلیم کرلیں تو شاید ہمیں سنبھلنے کا موقع بھی مل جائےکہ جو نبی صادق مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:
لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا ذِرَاعًا حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ:الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى؟ قَالَ: فَمَنْ؟
(صحیح البخاری :رقم الحدیث7320)
کہ اے میری امت !تم یہود ونصاریٰ کی قدم بقدم تابعداری کروگے۔
آج ہم اپنے گرد ونواح میں جھانک کر دیکھیں تو کلمہ گو مسلمان بظاہر عمل بالحدیث کا مدعی نظر آئے گا ،لیکن صد افسوس کہ یہود ونصاریٰ کے نقشِ قدم پر چل رہا ہوگا اور اپنی۔ اس حماقت کو "غایتِ تحقیق" بھی سمجھ رہا ہوگا۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں یہود بے بہبود کی بہت سی قبیح عادات کو واشگاف الفاظ میں بیان فرمایا ہے اور یہود ونصاریٰ کی کج رویوں پر بہت سے اہلِ علم حضرات نے خامہ فرسائی فرمائی ہے بالخصوص معروف عالم دین، مجاہد فی سبیل اللہ حضرت مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ کی تصنیف "یہود کی چالیس بیماریاں "تو اپنی مثال آپ ہے۔اللہ تعالیٰ نے یہود کی یہ عادت ارشاد فرمائی ہے کہ انہیں اپنے بڑوں پر قطعی اعتماد نہیں ہوتا اور ان سے ایسی دلیل کا مطالبہ کریں گے جو ان کی طبع ِفاسد کی خواہش کے مطابق ہو۔ مثال کے طور پر یہود۔ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایسی دلیل کا مطالبہ کرنا جو کہ ان کو زیب نہ دیتا تھا۔
وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسٰى لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً الایۃ
(البقرۃ:55)
اور جب تم نے حضرت موسی علیہ السلام سے کہا: ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک عیاناً "اللہ"کو نہ دیکھ لیں۔
یعنی ہم اپنی آنکھوں سے خدا کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب ہماری اپنی آنکھ خدا کی تصدیق کرے گی تو ہم آپ کی تصدیق کریں گے،ورنہ ہم کوئی اندھے مقلد تو نہیں کہ بن دیکھے کوئی بات مان جائیں۔یعنی بلا دلیل ان ظالموں نے پیغمبر علیہ السلام کی بات کو ماننے سے بھی انکار کردیا۔اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امت محمدیہ علی صاحبہا الف الف تحیۃ کے سبھی خوش قسمت افراد پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اور اللہ عزوجل کے حکم " فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ "کو مانتے ہوئے علماء سے مسائل پوچھ کر عمل کرلیتے مگر بسا آرزو کہ خاک شدہ۔۔۔۔ لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ کی پیشن گوئی پوری ہوئی اور آج امت کے۔ ایک مخصوص طبقہ کے حق میں ایسے پوری ہوئی کہ ان کے اسلاف واخلاف یہود کی تابعداری میں" حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ "کا مصداق بن گئےاور انہوں نے ایسے مکروہ عقائد قوم میں متعارف کروائے جن کے ذکر سے ہی گھن آتی ہے۔ ان کا ہر جاہل علماء سے بحث ومباحثہ کرتا ہوا نظر آئےگا۔ہر مسئلے پر دلیل کا مطالبہ کرے گا چاہے خود اسے فہمِ دلیل کا سلیقہ بھی نہ ہو۔ یہ بات عموماً تجربہ شدہ ہے ،آپ بھی اگر تجربہ کرنا چاہیں تو بلا جھجک تجربہ فرمالیں کہ یہ لوگ محض "غبارے "ہوتے ہیں ،جن میں بغض وعناد اور اسلاف بیزاری کی ہوا بھر کر چھوڑدیا جاتا ہے اور یہ ہوا میں بے قیمت خزاں رسیدہ پتوں کی طرح اڑتے پھرتے ہیں اور جب کوئی ان کے پھولے ہوئے پیٹ میں سوئی چبھو کر ان کی علمی لیاقت وقابلیت کی ہوا نکال دے تو یہ غبارے دھڑام سے زمین پر آگرتے ہیں۔بطور مثال ایک واقعہ نقل کیے دیتا ہوں تاکہ یہود کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دلیل دلیل کرنے والے ان بے علم لوگوں کی حقیقت واضح ہوجائے۔
راقم ایک دفعہ لائبریری میں مطالعہ کررہا تھا کہ ایک دیرینہ دوست ایک نوجوان"محقق"سمیت جلوہ گر ہوئےاور یہ اسی ستم پیشہ قبیلے کا فرد تھا جن کا صبح وشام مشغلہ تحقیق کی آڑ میں تشکیک پھیلانا اور اہلِ حدیث کے نام پر انکارِ حدیث کی مذموم سعی کرنا ہے۔آتے ہی حسبِ عادت سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ راقم نے پہلے ان کی خاطر مدارت کا انتظام کیا، بعد ازاں انھیں کہا:" آپ کے اہل السنۃ والجماعۃ پر جو بھی اعتراضات ہیں، کھل کر ایک ہی فعہ بیان کردیجیے" اس نے دس منٹ میں جب بھڑاس نکال لی تو مجھ سے اپنے ہر سوال پر دلیل کا مطالبہ کیا۔ میں نے اس کے پہلے سوال "گردن پر مسح کرنا کس حدیث سے ثابت ہے؟صراحتا حدیث دکھاؤ"(یہود کی عادت۔ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً۔۔ کوبھی ذہن میں رکھیے)کے جواب میں راقم نے مختصر المعانی کی مندرجہ ذیل عبارت اس طرح پڑھی:
"عن ابی عکراش موقوفاً :فالایجاز اداء المقصود باقل من عبارۃ المتعارف والاطناب اداءہ باکثر منہا"
(بخاری ج4ص72)
کہ حضرت ابوعکراش رضی اللہ عنہ مجازاً لاحقیقۃ ًارشاد فرماتے ہیں کہ گردن کا مسح کرنا ثابت اور ضروری ہے۔بس اتنی بات پر وہ"محقق"صاحب مطمئن ہوکر کہنے لگے کہ یہ بخاری کی حدیث کاغذ پر لکھ دو۔ میں نے پوچھا کیا آپ خود مطمئن ہوگئے ہو؟
کہنے لگا: جی ہاں۔پھر میں نے پوری حقیقت واضح کی کہ جناب! آپ اس قدر جاہل ہیں کہ آپ کو دلیل کا پتہ بھی نہیں ہے، نہ بخاری شریف کی کوئی پہچان ہے۔ میں مختصر المعانی کی "ایجاز"والی عبارت کو پڑھ کر غلط ترجمہ کررہا ہوں اور آپ خوش ہوگئے۔ ہیں کہ دلیل بخاری سے مل گئی۔۔ اس پر وہ صاحب خوب شرمندہ ہوئے۔ پھر میں نے مسئلہ کی اصل دلیل ان کو پیش کی۔
اب ہمارا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مطلق دلیل مانگنا بھی علامتِ یہود ہے بلکہ ہم نااہل کا اہل لوگوں سے طلبِ دلیل میں الجھنا اچھا نہیں سمجھتے، کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نااہل کے اہل سے جھگڑنے کو سخت ناپسند فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باقاعدہ اس بات کی بیعت لیتے تھے :
" أَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ "
(صحیح البخاری: رقم6689باب کیف یباع الامام الناس)
یہود کا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً۔ کہنا اور اس امت کے بعض جہال کا ہرہر مسئلہ میں طلب۔ دلیل کی رٹ لگانا کیا ایک ہی تصویر کے دورخ نہیں ہیں؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں بہت سی علامات قیامت ذکر فرمائی ہیں ،وہاں معاملات کا نااہل لوگوں کے سپرد کیا جانا بھی ہے۔
" إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرْ السَّاعَةَ "
(صحیح البخاری: رقم58)
لہذا آخر میں ان مہربانوں سے التجاء ہے جو عوام کالانعام کو علماء کی مسند پر بٹھانے کو بضد ہیں اور ہر مسئلے پر طلبِ دلیل کا چقمہ دے کر اپنے سیاہ کارناموں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں ،کہ کچھ خدا کا خوف کریں ،یہود کی علامات اس امت میں پروان نہ چڑھائیں اور امت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث سنائیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکابرین کو باعث ِبرکت قرار دیا ہے اور برکات سے الجھنا عقلمندی نہیں ہے۔
(مستدرک علی الصحیحین: رقم الحدیث 196،صحیح ابن حبان: رقم الحدیث 564)