فقیہہ الامت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
تذکرۃ الفقہاء
فقیہہ الامت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
مولانا محمدعاطف معاویہ حفظہ اللہ
سیدنا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا شمار ان جلیل القدرصحابہ کرام میں ہوتاہے جو علم وفضل کے اعتبار سے اپنے دور کے امام تھے۔اس بات کی گواہی حضرت مسروق نے ان الفاظ میں دی ہے:
شاممت اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوجدٹ علمہم انتہیٰ الیٰ ستۃ ……ثم شاممت الستۃ فوجدت علمہم انتہیٰ الی علی وعبداللہ"
(سیر اعلام النبلاء ج3 ص217)
میں نے تمام صحابہ کا علم چھ۔ میں جمع پایا اور۔ پھر ان چھ کا علم دو میں سمٹ گیا۔ حضرت ابن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنہ۔
آپ ان صحابہ میں سے ہیں جو فقہ کے بانی تھے یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی کی بنیاد حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اجتہادات وفقہ پر ہے آپ کی فقہی بصیرت کو دیکھتے ہوئے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے آپ کو کوفہ کا معلم بنا کر بھیجا اور لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں علمی حلقہ درس قائم فرمایا اور مسلمانوں میں مسائل فقہیہ کی ترویج واشاعت فرمائی۔کوفہ میں آپ ہی کی فقہ نے شہرت حاصل کی۔ یہ فقہ کئی ایک حضرات سے گزر کر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تابعی تک پہنچی،جنہوں نے اپنے علم واجتہاد سے اس فقہ کو اس قدر وسعت دی کہ آج مسلمانوں کی اکثریت اسی فقہ کی روشنی میں دین پر چل رہی ہے۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیک وقت مفسر بھی تھے اور محدث ،فقیہہ اور مجتہد بھی،آپ تفسیر بالرائے کی سختی سے مخالفت کرتے تھے آپ کا نظریہ یہ تھا کہ بندہ جس چیز کو نہ جانتا ہو اس سے لاعلمی کا اظہار کردے اپنی طرف سے بات نہ بتائے۔آپ رضی اللہ عنہ بلند درجہ کے محدث بھی تھے مگر اس کے باوجود حدیث بیان کرنے میں بڑی احتیاط فرماتے اکثر حدیث بیان کرتے وقت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں فرماتے تھے،چنانچہ ابوعمرو شیبانی کہتے ہیں:
کنت اجلس الی ابن مسعود حولا لا یقول: قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم الا استقلتہ الرعدۃ ،وقا: ہکذا ، او نحو ذا، او قریب من ذا
(تذکرۃ الحفاظ ج1ص17)
میں ایک عرصہ تک آپ کی خدمت میں رہا آپ حدیث بیان کرتے وقت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں فرماتے تھے۔جب کبھی حدیث بیان کرتے وقت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تو جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی اور فرماتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا یا اس کے قریب قریب۔
فقہ واجتہاد:
آپ رضی اللہ عنہ صف اول کے مجتہدین وفقہاء میں سے ہیں۔آپ کو فقہ میں بڑی دسترس حاصل تھی،مسائل اجتہادیہ میں آپ اجتہاد کرنے کے قائل تھے،چنانچہ آپ کےچند اجتہاد ی مسائل درج ذیل ہیں۔
1: آپ کے پاس ایک شخص لایا گیا جو ایک اجنبی عورت کے ساتھ اس کے لحاف میں پایا گیا لیکن اس کے خلاف کوئی گواہ نہ تھا،آپ نے اس شخص کو 40کوڑے لگوائے۔اور عبرت کے طور پر لوگوں کے سامنے کھڑا کیا،لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی تو انہوں نے حضرت ابن مسعود سے پوچھا کہ آپ۔ نے ایسا کیا ہے؟فرمایا جی ہاں!حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا ایسے شخص کے بارے میں آپ کی۔ رائے یہی ہے ؟فرمایا جی ہاں!تب حضرت عمر نے فرمایا کہ آپ کی۔ رائے بہت اچھی ہے۔(فقہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ص21)یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اجتہادی فیصلہ کو درست قرار دیا۔
2: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک مقدمہ پیش آیا کہ ایک شخص نے دوسرے کو عمدا قتل کردیا اور۔ مقتول کے ورثاء میں سے ایک شخص نے قاتل کو معاف کردیا۔حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود۔ رضی اللہ عنہ۔ سے پوچھا اس معاملہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ نے فرمایا کہ قاتل کی جان کے تمام ورثاء حقدار تھے جب ایک نے معاف کردیا تو اب قاتل کو قتل نہیں کرسکتے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا پھر کیا کیاجائے؟حضرت ابن مسعود نے فرمایا کہ قاتل کے مال سے مقتول کی دیت اس کے ورثاء کو ادا کی جائے۔لیکن جس وارث نے معاف کردیاہے اس کا حصہ ختم کردیا جائے یہ فیصلہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری رائے بھی یہی ہے۔
(فقہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ص21،22)
3: کتاب الحج میں ایک مسئلہ ہے اگر کوئی شخص دشمن کی طرف سے رکاوٹ کی وجہ سے حج یا عمرہ نہ کرسکے تو وہ ہدی کا جانور بھیج دے اور بعد میں احرام کھول دے پھر جب موقع ملے تو قضاء کرلے۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس سے دوسرا مسئلہ یہ نکالا کہ اگر کوئی شخص بیماری کی وجہ سے حج یا عمرہ نہ کرسکے تو وہ بھی ہدی کا جانور بھیج دے بعد میں قضاء کرلے۔
(شرح معانی الآثار۔ ص456۔ باب حكم المحصر بالحج)
4: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بسا اوقات کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے فرماتے بعد میں اس کے مطابق حدیث مل جاتی تو آپ اس پر خوشی کا اظہار فرماتے۔چنانچہ ایک مسئلہ پیش آیا کہ ایک شخص کا نکاح ہوا لیکن بیوی کا حق مہر مقرر نہیں کیاگیااور خاوند کا انتقال ہوگیا،تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟فرمایا اس کے لیے مہر ہوگاوہ خاوند کی وارث ہوگی اور اس پر عدت بھی ہوگی۔ ساتھ ہی فرمایااگر میرا یہ فیصلہ درست ہوتو اس کو اللہ جل شانہ کی طرف سے سمجھنا اوراگر اس میں اجتہادی غلطی ہو تو اس میں میرا قصور ہوگا۔اس جگہ موجود لوگوں میں سے چند افراد نے گواہی دی کہ آپ نے جو فیصلہ فرمایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فیصلہ فرمایا تھا اس پر آپ رضی اللہ عنہ بہت ہی زیادہ خوش ہوئے۔ ملخصاً
(سنن ابی داود ج1ص295باب فی من تزوج ولم یسم صداقا حتی مات،اعلام الموقعین ج1ص81 )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اجتہاد ات کا احاطہ مقصود نہیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے ہم نے چند اجتہادی مسائل کو یہاں ذکر کردیا۔اور شروع میں یہ بات عرض کی تھی کہ فقہ حنفی کی بنیاد حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ہی اجتہادات پر ہے۔ہم یہاں چند مسائل ذکر کرتے ہیں کہ ان میں جو موقف سیدناابن مسعود رضی اللہ عنہ کا تھا اسی کو امام اعظم ابوحنیفہ تابعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا۔
1:ترک قرات خلف الامام:
عن علقمة بن قيس : أن عبد الله بن مسعود كان لا يقرأ خلف الإمام فيما جهر فيه وفيما يخافت فيه في الأوليين ولا في الأخريين
)موطا امام محمد ص100باب القراءۃ فی الصلوۃ خلف الامام(
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے کسی بھی نماز میں قراءت نہیں کرتے تھے۔
عن أبي وائل قال جاء رجل إلى عبد الله فقال يا أبا عبد الرحمن أقرأ خلف الإمام قال أنصت للقرآن فإن في الصلاة شغلا وسيكفيك ذلك الإمام
(مصنف عبدالرزاق ج2ص89،90(
ترجمہ: ابووائل کہتے ہیں کہ ایک شخص حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور پوچھا کیا امام کے پیچھےقراءت کرسکتا ہوں؟آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قراءت قرآن کے وقت خاموش رہو کیونکہ نماز میں ایک قسم کی مشغولیت ہے ،امام کی قراءت تجھے کافی ہے۔
2:آمین آہستہ کہنا:
عن عبد اللہ بن مسعود قال یخفی الامام ثلاثا؛الاستعاذۃ، و بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ و آمین
)المحلیٰ بالآثار ج2ص280(
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں امام تعوذ،تسمیہ اور آمین آہستہ آواز سے کہے گا۔
3:شروع نماز کے علاوہ رفع یدین نہ کرنا:
عن الاسود ان عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کان یرفع یدیہ فی اول التکبیر ثم لایعود الیٰ شئی من ذالک،الحدیث
(جامع المسانید ج1ص355)
ترجمہ: حضرت اسود سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تکبیر اولیٰ کے وقت رفع یدین کرتے تھے بعد میں نہیں کرتے تھے۔
4:فجر کی جماعت کھڑی ہوجانے کے بعد بھی سنت فجر ادا کرنا:۔
عن عبد الله بن أبى موسى عن عبد الله : انه دخل المسجد والإمام في الصلاة فصلى ركعتي الفجر۔
)سنن طحاوی ج1ص255 (
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن ابی موسی سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ مسجد میں تشریف لے گئے امام فجر کی نماز شروع کرچکا تھا آپ رضی اللہ عنہ نے پہلے فجر کی سنتیں ادا فرمائیں۔
5:اسفار بالفجر:۔۔۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ؛ أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ كَانَ يُنَوِّرُ بِالْفَجْرِ
)مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص355رقم4باب من کان ینور بہا وسیف الخ(
ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فجر کی نماز خوب روشنی میں ادا فرماتے تھے۔
6:مسائل وتر:
عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ : كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يُوتِرُ بِثَلاَثٍ ، يَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ مِنْهُنَّ بِثَلاَثِ سُوَرٍ) مصنف ابن ابی شیبہ ج 2ص199رقم5باب فی الوتر ما یقرء فیہ(
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تین رکعت وتر پڑھتے تھے ہر رکعت میں تین سورتیں پڑھتے تھے۔
عن عبد الله بن مسعود : الوتر ثلاث كثلاث المغرب
)موطا امام محمد ص150باب السلام فی الوتر(
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر کی تین رکعتیں ہیں جس طرح نماز مغرب کی تین رکعتیں ہیں۔
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِيهِ؛ أَنَّ عَبْدَ اللهِ كَانَ يُوتِرُ ، فَيَقْنُتُ قَبْلَ الرُّكُوعِ
)مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص201رقم4 باب فی القنوت قبل الرکوع او بعدہ(
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رکوع سے پہلے دعاء قنوت پڑھتے تھے۔
عن عبد الله ، أنه كان يقرأ في آخر ركعة من الوتر قل هو الله أحد ثم يرفع يديه ويقنت۔ قبل الركعة
)جزء رفع الیدین لامام بخاری ص146،147رقم163(
ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ وتر کی آخری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھتے پھر رفع یدین کرتے اور قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔
عن زيد بن وهب قال كان عبد الله بن مسعود يصلي لنا في شهر رمضان فينصرف وعليه ليل قال الأعمش كان يصلي عشرين ركعة ويوتر بثلاث
)عمدۃ القاری ج8ص246(
ترجمہ: زید بن وہب کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ ہمیں رمضان میں تراویح پڑھاتے تھے اعمش کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے
7:محلہ کی مسجد میں جماعت ثانیہ :
۔ عن إبراهيم أن علقمة والأسود أقبلا مع بن مسعود إلى مسجد فاستقبلهم الناس قد صلوا فرفع بهما إلى البيت فجعل أحدهما عن يمينه والآخر عن شماله ثم صلى بهما
)مصنف عبدالرزاق ج2ص272رقم3895باب الرجل یوم الرجلین والمراءۃ(
ترجمہ: حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ حضرت اسود اور حضرت ابن مسعود تینوں حضرات ایک مسجد میں تشریف لائے وہاں جماعت ہوچکی تھی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ان کو گھر لے گئے ایک کو دائیں طرف دوسرے کو بائیں طرف کھڑا کیا اور نماز پڑھائی۔یعنی مسجد میں دوبارہ جماعت نہیں کرائی۔
8:سجدہ میں جاتے وقت پہلے گھٹنے زمین پر رکھنا:۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: " أَنَّ رُكْبَتَيْهِ، كَانَتَا تَقَعَانِ إِلَى الْأَرْضِ قَبْلَ يَدَيْهِ "
)سنن طحاوی ج1ص182باب مایبدء بوضعہ فی السجود الیدین او الرکعتین(
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سجدہ میں جاتے وقت پہلے گھٹنے زمین پر رکھتے پھر ہاتھ۔
9:جلسہ استراحت:۔
۔ عَنْ إبْرَاهِيمَ ، قَالَ : كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ فِي الرَّكْعَةِ الأَولَى وَالثَّالِثَةِ لاَ يَقْعُدُ حِينَ يُرِيدُ أَنْ يَقُومَ حَتَّى يَقُومَ
)مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص431 رقم1باب من کان یقول اذا رعت راسک من السجدۃ الثانیۃ فی الرکعۃ الاولیٰ فلاتجلس(
ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نماز کی پہلی اور تیسری رکعت سے اٹھتے وقت جلسہ استراحت نہیں فرماتے تھے۔