تذکرہ اکابر

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
تذکرہ اکابر
فخر المتکلمین خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ
مولانا محمدعبداللہ معتصم حفظہ اللہ
ولادت۔ و نسب:
سرتاج المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری صفر 1269ھ بمطابق دسمبر1852ء کو منصّۂ شہود پر جلوہ افروز ہوئے۔آپ کا آبائی وطن صوبہ یوپی ضلع سہارنپور کا ایک مشہور قصبہ انبیٹھ۔ ہے۔آپ کا سلسلہ نسب دسویں پشت پر اپنے روحانی باپ ومرشد قطب الارشاد حضرت مولانا گنگوہی رحمہ اللہ سے جاملتا ہے آپ کے والد ماجد شاہ مجید قصبہ ابنیٹھ۔ کے مشہور وممتاز خاندان ایوبی کے ایک نمایاں فرد تھے۔آپ کی والدہ حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی رحمہ اللہ صدرمدرس دارالعلوم دیوبند کی حقیقی بہن اور استاذ الکل حضرت مولانا مملوک علی قدس سرہ کی صاحبزادی تھی ۔شاہ مجید علی ریاست کے سرکاری عہدیدار ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات گھر سے باہر ہوتے ،جس کی وجہ سے آپ کی والدہ ماجدہ کا زیادہ وقت اپنے میکہ میں گزرتا ،اس لیے آپ کی رضاعت اور ابتدائی تربیت زیادہ تر آپ کے ننھیال میں ہوئی۔
تعلیم و تربیت:
حضرت سہارنپوری رحمہ اللہ کی عمر 5سال ہوئی تو آپ کے نانا محترم حضرت مولانا مملوک علی نانوتوی رحمہ اللہ نے آپ کو تبرکاً بسم اللہ شریف پڑھا کر قاعدہ شروع کرادیا۔فطرتاً آپ ذہین اور ذکی تھے اس لیے ناظرہ قرآن جلدی ختم کرلیا۔قرآن ختم ہونے کے۔ بعد مولانا نے ابتدائی عربی اورفارسی کتابیں انبیٹھ اور نانوتہ میں مختلف اساتذہ سے پڑھی ،پھر جب 1283ھ میں دارالعلوم دیوبند کے قیام کی خبر سنی اور یہ معلوم ہوا کہ دار العلوم میں صدرمدرس آپ کے ماموں حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی رحمہ اللہ قرار پائے ہیں۔تو آپ والدین سے اجازت لے کر دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں پر صرف،نحو اور فلسفہ کی متداول کتب پڑھیں۔دارالعلوم دیوبند کے قیام کے تقریباً 6ماہ بعد سہارنپور شہر میں مدرسہ مظاہر العلوم کاافتتاح ہوا جس کے صدرمدرس مولانا محمد مظہر نانوتوی رحمہ اللہ تجویز ہوئے دارالعلوم دیوبند میں اگرچہ آپ مولانا محمد یعقوب نانوتوی رحمہ اللہ کی زیر نگرانی بہترین نظم ونسق کے ساتھ تعلیم حاصل کررہے تھے۔مگر قدرت کو منظور تھا کہ جس ذات گرامی کے ہاتھوں مظاہرالعلوم کو منازل ترقی طے کرنے ہیں وہ اپنی تعلیم کے سلسلہ میں مظاہر العلوم ہی کارہین منت اور۔ احسان مند ہو۔ اس لیے دیوبند میں آپ کا دل نہیں لگا اور آپ۔ مظاہر العلوم سہارنپور تشریف لے آئے یہاں پر آپ نے حدیث،فقہ،تفسیر،اصول،منطق،ہیئت اور دیگر علوم عالیہ وآلیہ مولانا محمد مظہر رحمہ اللہ اور دیگر مدرسین سے پڑھے،تقریباً19سال کی عمر میں آپ نے درس نظامی سے فراغت حاصل کی اس کے بعد علوم ادبیہ میں مہارت کا شوق آپ کو اورینٹل کالج لاہور لے آئی یہاں پر آپ نے مشہور ادیب مولانا فیض احمد سہارنپوری سے علوم ادبیہ کی خاطر خواہ تکمیل فرمائی۔
تدریس:
جب لاہور سے آپ کی واپسی ہوئی تو آپ کے ماموں مولانا محمد یعقوب صاحب نے عربی کے معتبر اور مستند لغت قاموس کا ترجمہ کرنے کے لیے آپ کو منصوری پہاڑ بھیج دیا۔ منصوری پر آپ کے قیام کو ابھی چند ہی ماہ گزرے تھے کہ منگلور کے مدرسہ عربیہ میں مدرس کی ضرورت محسوس ہوئی اور آپ بحیثیت صدرمدرس وہاں تعنیات ہوگئے۔اس کے بعد بالترتیب بھوپال ،بہاولپور،بریلی،اور دیوبند میں مدرس رہے،1314ھ میں جب کہ آپ کی عمر45سال تھی صدر مدرس کی حیثیت سے مدرسہ مظاہر العلوم میں آپ کا تقرر ہوا جہاں آپ نے پڑھا اور علمی نشوونما پائی تھی۔یہاں آپ نے۔ اپنے استاذ محترم مولانا محمد مظہر کے لگائے ہوئے باغیچے کو اس جانفشانی اور تندہی سے سینچا ،جس کا اظہار مظاہر العلوم کا ہرطاق ومحراب اور ہردرودیوار زبان حال سے کررہاہے۔
سلوک:
باوجود اس کے کہ آپ علوم عالیہ اور ادبیہ میں یدطولیٰ رکھتے تھے آپ کی فطرت سلیمہ اس معرفت الہیہ کی جستجو میں تھی جو قال کو حال اور علم کو سر تا پا عمل بنا دیتی ہے۔چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لیے آپ کی نظر انتخاب قطب عالم،فقیہہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ پر پڑی اور آستانہ رشیدیہ پر حاضر خدمت ہوئے،حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے آپ کے باطن با صفا کو سمجھ کو بلاتامل آپ کو بیعت کرالیا۔بیعت ہونے کے بعد سلوک سے متعلقہ معمولات آپ نے نہایت عزیمت اور حددرجہ استقامت سے پورے فرمائے۔دن بھر تشنگان علم کو فقہ وتفسیر کا سبق پڑھاتے اور شب کو ذکر الہی سے رطب اللساں رہتے،سنسان گھڑیوں میں جبکہ دنیا خواب خرگوش سو رہی ہوتی تھی آپ اپنے مولی کے ساتھ راز ونیاز میں مشغول ہو جایا کرتے تھے۔آپ کی انہی ریاضتوں کا ثمرہ تھا کہ جب آپ سفر حج پر تشریف لے گئے تو امام ربانی ، مرشدالعرب والعجم حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی نے پہلی ہی ملاقات میں آپ کو۔ اپنی بیعت میں داخل کرلیا۔اور ساتھ ہی۔ خلعہ خلافت سے بھی نوازا،مزید برآں اپنی دستار آپ کے سر پر رکھ دی اور تحریری خلافت نامہ عنایت فرمایا۔جب آپ واپس ہندوستان پہنچے تو حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور خلافت نامہ دکھایا،حضرت گنگوہی نہایت خوش ہوئے،اور اسی خلافت پر مہر تصدیق ثبت کرکے آپ کو اپنی طرف سے بھی خلافت دے دی۔،
علمی کارنامے:
حضرت سہارنپوری رحمہ اللہ جس طرح تدریس وتبلیغ دین سے متعلق رہے ایسے ہی اکابر علماء دیوبند کی روش پر چلتے ہوئے قلم اور زبان دونوں سے اپنے دور کے ہر پیش آمدہ فتنے کا تعاقب کیا ہے۔اس سلسلے کے چندایک واقعات پیش خدمت ہیں۔
جس وقت آپ مدرسہ دینیات کے صدرمدرس تھے تو مدرسہ کے افسروں میں سے ایک شیعہ افسر چراغ شاہ تھا،جب حضرت کسی دفتری کام کی خاطر ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ مذہبی قصہ چھیڑ کر اہل سنت پر اعتراضات شروع کردیتا،حضرت نے خارجی وقت میں کتب شیعہ کا مطالعہ کرکے ہدایات الرشید کے نام سے رد شیعت پر ایک ضخیم کتاب لکھی جو کہ اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک لاجواب کتاب ہے۔
آپ۔ کی شہرہ آفاق کتاب براہین قاطعہ جب منظر عام پر آئی تو بعض کج فہموں نے اپنی کم علمی کی بنیاد پر اس کی چند ایک عبارات میں قطع برید کرکے غلط رنگ میں پیش کیا اور حضرت کےمتعلق یہ فتوی لگایا کہ" خلیل احمد بددین اور کافر ہے"آپ نے اس افتراء پردازوں کے ساتھ تحریری وتقریری مناظرے کیے اور نقلی وعقلی رنگ میں ایسے دلائل پیش کیے کہ مخالف مناظرین کو آپ کا علم وفضل کا سکہ ماننا پڑا۔اس موقع پر ثالث نے آپ کو رئیس المناظرین کے لقب سے ملقب کیا۔
ایک مرتبہ سفر حج پر جاتے ہوئے راستہ میں مولوی دیدار علی الوری کی طرف سے عین اس وقت آپ کو دعوت مناظرہ دی گئی جب کہ آپ جہاز پر سوار ہونے والے تھے۔آپ کے رفقاء نے جواب دیا جہاز تیار ہے اب گنجائش نہیں واپسی پہ مناظرہ ہوگا،آپ نے یہ سنا تو بے ساختہ فرمایا کہ نہیں ہم تیار ہیں حج بشرط زندگی دوسرے سال کرلیں گے،یہ بھی تو ایک دینی کام ہے یہ سن کر فریق مخالف پر اوس پڑگئی اور کوئی میدان مناظرہ میں نہ آیا۔
(تذکرۃ الخلیل ص155 ملخصاً)
سفر حجاز اور سفر آخرت:
16شوال المکرم 1344ھ کو آپ مدرسے سے ڈیڑھ سال کی رخصت لے کر حج کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے مناسک حج پورے ہونے کے بعد اپنے رفقاء سفر کو واپس ہندوستان بھیج دیا اور خود وہیں پر سکونت اختیار کرلی اس دوران آپ نے بعض علماء مدینہ کے اصرار پر ابوداودپڑھانا شروع کردی مگر یہ سلسلہ درس صرف دو روز تک رہا،کیونکہ درس کا آغاز آپ کی وفات سے چار دن قبل ہواتھا۔آپ کی شہرہ آفاق۔ تصنیف بذل المجہود مدینہ منورہ میں سکونت کے دوران ہی مکمل ہوئی جب بذل کی تالیف سے فراغت پائی تو فرمایا کہ حق تعالی سے تین دعائیں مانگی تھیں دو قبول ہوچکی ہیں ایک باقی ہے۔1:مکہ مکرمہ میں پر امن اسلامی شریعت اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں،2:موت سے پہلے پہلے بذل کی تالیف مکمل ہوجائے۔3:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوار۔ میں دفن ہونا نصیب ہوجائے۔
آپ کی تیسری دعا کو بھی اللہ رب العزت نے شرف قبولیت بخشا۔چنانچہ بذل المجہود مکمل ہونے کے تقریباً8ماہ بعد15ربیع الثانی 1346ھ کو بعد عصر وصال فرمایا۔اور قبلہ اہل بیت کے متصل دفن ہوئے ایک عجیب اتفاق یہ ہوا کہ جامعہ مظاہرالعلوم سے ڈیڑھ سال کی حاصل کردہ رخصت میں نہ ایک دن کم ہوا نہ زیادہ،رخصت کازمانہ 15ربیع الثانی1346ھ کو ختم ہوا اور سورج غروب ہونے۔ میں ایک گھنٹہ باقی تھا کہ آفتاب علم وعمل غروب ہوگیا۔
اناللہ وانا الیہ راجعون۔
تالیفات وتصنیفات :
بذل المجہود : سنن ابی داود کی لاجواب شرح
المہندعلی المفند: علماء دیوبند پر بعض متہمین کی افتراء پردازی کا جواب
ہدایات الشیعہ:
ایک شیعہ سکالر کا مذہب اہل السنۃ والجماعۃ پر اعتراضات کے مسکت جوابات
مطرقۃ الکرامۃ: مسئلہ خلافت وامات پر ایک لاجواب کتاب
اتمام النعمۃ:
غنیۃ المناسک: مناسک حج پر مشتمل ایک جامع رسالہ
براہین قاطعہ: ایک مبتدع کی کتاب انوار ساطعہ کا کافی شافی جواب