کنز الدقائق

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
تعارف کتب فقہ
کنز الدقائق
مولانا محمدیوسف حفظہ اللہ
پہلی صدی ہجری سے تیسری صدی ہجری تک کا زمانہ اسلامی علوم وفنون کا تشکیلی دور ہے ،سارے علوم وفنون ایک مخصوص علمی انداز میں مرتب کیے جارہے تھے۔ تفسیر، حدیث، فقہ،اصول فقہ اور بقیہ علوم وفنون کی اصل تشکیل ابتدائی تین صدیوں میں ہی ہوئی۔چنانچہ جب تشکیلی دور کا یہ مرحلہ گزر گیا اور ایک بنیاد فراہم ہوگئی تو یہ علوم وفنون اتنے پھیل گئے کہ ایک طالب علم کے لیے ان کا احاطہ کرنا اور ان کو اپنی گرفت میں لانا مشکل ہوگیا۔چنانچہ اس دور کے چند جید علماء کرام نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ اگر سارے ذخیرۂ علم کو ایک مختصر کتابچے کے اندر سمو دیا جائےتو طلبہ کے لیے سمجھنا اور یاد کرنا آسان ہوگا۔
اس درسی ضرورت کے پیش نظر کچھ متون لکھے گئے ان میں اس بات کا خیال رکھا گیا کہ اس علم میں اس وقت تک جتنی وسعت پیدا ہوئی ہے اس کا جائزہ لے کر اس کے جو بنیادی مسائل ہیں اور جن پر اس علم کے ماہرین کا اتفاق ہے ان کو ایک آسان مختصر جامع متن میں سمودیا جائے۔یعنی ایک ایسا خلاصہ تیار کیا جائے جس کے یاد کرلینے سے اس علم کے اہم مسائل گرفت میں آجائیں۔چنانچہ اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے کوشش شروع کردی گئی۔جس کے نتیجے میں بہت جلد ایسے متون منظر عام پر آگئے جو طلبہ کی درسی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ بن گئے،اور یہ متون فقہ حنفی،مالکی،شافعی اور حنبلی تمام فقہوں میں تیار ہوئے۔پھر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ نئے مسائل اور مزید اجتہادات کے پیش آنے کی وجہ سے متون کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔
اس دوران ایسے متون بھی دیکھنے میں آئے جنہیں اپنی انفرادی خصوصیات کی بناء پر عوام وخواص میں اس قد رمقبولیت حاصل ہوئی کہ زمانہ تصنیف سے لے کر عصر حاضر تک یکساں طور پر ان کو عظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان سے استفادہ کیا جاتاہے۔چنانچہ فقہ حنفی کے ان متون میں سے ایک مقبول ترین اور فقہ اسلامی کے ذخیرے کا سب سے منفرد متن "کنز الدقائق"کہلاتا ہے۔اس کو ایک جید حنفی عالم،مفسر قرآن علامہ ابوالبرکات حافظ الدین عبداللہ بن احمد النسفی رحمہ اللہ نے ساتویں صدی ہجری کے اواخر میں تصنیف فرمایا تھا۔علامہ نسفی رحمہ اللہ نے ایک تفسیر بھی "مدارک التنزیل "کے نام سے لکھی تھی،جو آج بھی علمی حلقوں میں لائق مطالعہ وقابل استفادہ سمجھی جاتی ہے۔
علامہ موصوف کو باری تعالی عزوجل نے فقہ وتفسیر میں خصوصا قابل رشک ملکہ اور کمال عطاء فرمایا تھا۔باریک بینی ودقیق نظری سے مسئلہ کی تہہ تک پہنچنا اور پھرایک تفصیلی مسئلہ کو نہایت مختصر الفاظ میں بیان کرنا آپ کا خاص وصف تھا۔انہیں صفات کی جھلک آپ کی تصانیف میں نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔
کنزالدقائق کے نام سےعلامہ نسفی رحمہ اللہ نے۔ جو متن تیار کیا ہے وہ تمام متون سے زیادہ مختصراور جامع کہ اتنا مختصراور جامع اسلامی ادبیات میں اپنے اس اختصاراور جامعیت کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہے۔بعض مقامات پر تو یہ اختصار ایک پہیلی کی صورت اختیار کرجاتاہے جو اپنے اندر نہ صرف علم کا ذخیرہ رکھتا ہے بلکہ طلبہ کی دلچسپی کا سامان بھی فراہم کرتاہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح وہ ایک طویل بحث کو سمیٹ کر مختصر ترین عبارت میں بیان کرتے ہیں۔ذیل میں ہم ایک دومثالیں ذکر کرتے ہیں جس سے آپ علامہ موصوف کی زبردست قوت فکر،شاندار اندازتحریر اوربہترین طرز تفہیم کا بخوبی اندازہ لگا سکیں گے۔
ایک جگہ زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص جس پر غسل واجب تھا وہ کنویں میں
گرگیا۔دوچار غوطے کھانے کے بعد اس کوباہر نکالا گیا۔اس کا پورا جسم بھیگ چکاتھا۔۔اب سوال یہ ہے کہ کنویں کا اور اس آدمی کا کیا حکم ہے؟امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ شخص بدستور حالت جنابت میں ہے محض کنویں میں گر کر بھیگ جانے سے اس کا غسل نہیں ہوا۔اور اس کے گرجانے کی وجہ سے پانی بھی ناپاک ہوگیا۔امام ابویوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آدمی کا غسل تو نہیں ہوا لیکن پانی پاک ہی سمجھا جائے گا۔اور امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس شخص کا غسل ہوگیا اور پانی بھی بدستور پاک رہے گا۔(اس مسئلہ کے تینوں جزئیات کے تفصیلی دلائل موجود ہیں)اگر آپ اس مسئلہ کو لکھیں گے تو دوچار صفحات بھر ہی جائیں گے۔مگر امام نسفی رحمہ اللہ نے اس ساری بحث کو ایک جملہ میں یوں لکھا ہے کہ"ومسئلۃ البئر جحط"(کہ کنویں کا مسئلہ ج،ح،ط ہے)
چونکہ فقہائے احناف میں پہلا درجہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ہے اس لیے سب سے پہلے ان کی رائے بیان کی ہے اور "ج"سے مراد نجس ہے ،یعنی دونوں نجس ہیں،کہ پانی بھی نجس ہوگیا اور وہ آدمی بھی بدستور نجس ہی رہا،امام صاحب کے بعد دوسرا درجہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کا اس لیے آگے ان کا مسلک بیان کیا ہےاور "ح"سے مراد ہے "علیٰ حالہ" یعنی دونوں اپنی اپنی حالت پر ہیں کہ کنواں جیسے پہلے تھا ویسے ہی پاک رہے گا اور وہ آدمی جیسے پہلے ناپاک تھا اب بھی ناپاک سمجھا جائےگا۔تیسرا موقف امام محمد رحمہ اللہ کا بیان کیا ہے جن کا درجہ ان دونوں حضرات کے بعد آتاہے۔اور "ط"سے مراد "طاہر" ہے،یعنی کنواں بھی پاک ہے اور وہ آدمی بھی پاک ہوجائےگا۔
اب اس تفصیلی مسئلہ کو امام موصوف رحمہ اللہ نے تین حروف"ج،ح،ط"میں سمیٹ کربیان کردیا۔ چونکہ دشمنان فقہ فقاہت کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں، اس لیے فقہ کی ایسی مغلق عبارات نہ سمجھنے کے باعث اعتراضات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں، کیونکہ اصول ہے:الناس اعداء لما جہلوا۔
کھلے گا کس طرح مضموں مرے مکتوب۔ کا۔ یا رب
قسم۔ کھائی۔۔ ہے۔ اس۔۔ کافر۔۔ نے۔ تو۔۔ خط۔ کو جلانے۔۔ کی
۲: ایک اور جگہ زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو کوئی چیزہبہ کردے یا ہدیہ دیدے اور بعد میں اس ہدیہ یا ہبہ کو واپس لینا چاہے۔ تو کن صورتوں میں۔ وہ ہدیہ واپس لیا جا سکتا ہے۔۔ اور کن میں نہیں لیا جا سکتا۔ ) یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے اس میں فقہاء کرام کی آراء مختلف ہیں۔ ( اخلاقی اعتبار سے۔ توہدیہ۔ واپس لینا بری بات اور گھٹیا حرکت ہے۔۔ اور سرور کونین۔ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حوصلہ شکنی فرمائی ہے۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر قانونی اعتبار سے کوئی اپنا دیا ہوا ہدیہ واپس لینا چاہے تو اس کے لئے قانوناً گنجائش ہے یا نہیں ؟اس معا ملہ میں فقہاء احناف کا نقطۂ نظر یہ ہے۔ کہ سات صورتیں ایسی ہیں۔ جن میں ہدیہ واپس نہیں لیا جا سکتا۔۔ بقیہ ہر صورت میں لیا جا سکتا ہے اب اگر ان سات صور توں۔ کو لکھا جائے تو۔ کم سے کم ایک پورا صفحہ تو لکھنا پڑے گا۔۔ مگر علامہ نسفی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پوری بحث کو صرف ایک جملہ میں بیان کیا ہے وہ فرماتے ہیں۔ " والرجوع فی الھبۃ دمع خز قہ" (یعنی ہبہ۔ میں رجوع کرنے کا معاملہ "دمع خزقہ" ہے) یہ جملہ" دمع خزقہ "سات حروف سے مرکب ہے۔ اور ہر ہر حرف ایک ممنو عہ صورت کی نشان دہی کرتا ہے وہ اس طرح کہ۔۔ "د" سے مراد ہے زیادتی متصلہ۔ یعنی ایسا اضافہ جو اس چیز کے ساتھ جڑا ہو ا ہو الگ نہ ہو سکتا ہو۔ جیسے ستو کے اندر گھی ملا دیا گیا۔۔۔ "م"سے مراد ہے "موت احد المتعاقدین "۔ ہبہ کرنے والے۔ یا ہبہ لینے والے میں سے کسی ایک پر موت واقع ہو جائے۔ "ع"سے مراد ہے عوض۔ یعنی ہبہ لینے والا اس کے بدلے میں کوئی چیز دے دے۔۔ " خ "سے مراد ہے۔ ملک سے خروج۔ یعنی وہ چیز ہبہ لینے والے کی ملک سے نکل جائےخواہ وہ اس کو بیچ دے یا صدقہ وغیرہ کر دے۔ "ز"سے مراد ہے۔ زوجین۔ یعنی شوہر اور بیوی میں سے۔ کوئی ایک دوسرے کو کوئی چیز ہبہ کرے۔۔ "ق"سے مراد ہے قرابت یعنی اپنے قریبی رشۃ دار جیسے ماں ،باپ، بہن، بھا ئی، بھتیجے،بھائی وغیرہ۔ "ہ " سے مراد ہے ہلاکت یعنی وہ موہوبہ چیز ہلاک یا ضائع ہو جائے۔
اس طرح مصنف مرحوم نے ایک مختصر جملہ "دمع خزقہ"۔ کے ذریعے۔ وہ تمام صورتیں بتا دیں جہاں ہبہ واپس لینا جائز نہیں۔
شروحات:
یوں تو متن مذکور (کنز الدقائق)اپنی جامعیت اور ترتیب وتہذیب کے ساتھ ساتھ حسن اختصار کی وجہ سے یوم تصنیف سے لے کر تاحال ہمیشہ ہی ارباب قلم کا منظور نظر رہاہے۔اور مختلف اہل علم حضرات نے اپنے اپنے دور میں اس پر قلم اٹھایا ہے اور درجنوں شروحات وحواشی معرض وجود میں آچکے ہیں مگر سردست ہم صرف مشہور شروحات کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہیں۔
تبیین الحقائق:
یہ کتاب مشہور فقیہہ اور محدث علامہ فخرالدین ابومحمدعثمان بن علی الزیلعی رحمہ اللہ م743ھ کی ہے۔اس میں استدلال اور دلیل پر بہت زوردیاگیا ہے کہ فلاں بات"کنزالدقائق"میں کیوں کہی گئی ہے؟اور اس کی دلیل کیا ہے؟یہ تفصیل تبیین الحقائق میں ملتی ہے یہ کتاب تین ضخیم جلدوں میں ہے۔
البحرالرائق :
یہ کتاب علامہ زین العابدین بن ابراہیم معروف بابن نجیم رحمہ اللہ م970ھ کی ہے۔ یہ تمام شروحات میں سب سے زیادہ مشہور اور مفصل ہے۔علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ کی اس شرح میں معلومات کی کثرت اور مثالوں اور جزوی احکام کا استیعاب (احاطہ،گھیراؤ)کیا گیا ہے۔ مذکورہ دونوں شرحیں مل کر ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں کہ ایک میں استدلال اور دوسری میں مثالیں زیادہ ہیں۔