نکاح بیوگان؛ احیاء ِسنت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
مجلس الشیخ
نکاح بیوگان؛ احیاء ِسنت
صراط مستقیم، راہ اعتدال کا نام
ترتیب :مفتی شبیر احمد حنفی حفظہ اللہ
17اپریل 2012ء بروز منگل مرکز اہل السنۃ والجماعۃ سرگودہا میں متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب حفظہ اللہ کی دعوت صالحہ پر حضرت اقدس مولانا محمد طلحہ کاندھلوی مدظلہ تشریف لائے۔حضرت کی آمد پر قرب وجوار کے علماء وعوام بھی مرکز میں جمع ہوگئے اور ایک تقریب کاسماں بن گیا۔ حضرت کاندھلوی مدظلہ سے قبل متکلمِ اسلام حفظہ اللہ نے اس تقریب سےخطاب فرمایا اور" صراط مستقیم" کی تشریح فرمائی۔ بعدہ حضرت اقدس کاندھلوی مدظلہ نے دلنشین نصائح ارشاد فرمائیں، نکاح بیوگان پر بہت زور دیا کہ بیوہ عورتوں سے نکاح کرنا ایک سنت کو زندہ کرنا ہےاوراس پر متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ کے اس اقدام کو نمونہ قرار دیا کہ انہوں نے مشہور تبلیغی بزرگ حضرت مولانا مفتی زین العابدین رحمہ اللہ کی بیٹی سے نکاح فرمایا ہے۔ افادۂ عام کے لیے دونوں بیانات کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی دامت برکاتہم نے فرمایا:
قال اللہ تعالیٰ: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
(الذاریات:56)
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا۔
مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے مولانا مفتی زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کی ایک صاحبزادی کا نکاح ثانی ہوا ہے۔آج لوگوں نے نکاح ثانی کو گناہ سمجھا ہوا ہے اور اس سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے شیطان اذان سے بھاگتاہے۔حالانکہ نکاح ثانی کا اہتمام ہمارے بزرگوں نے فرمایا ہے اور اس کو کرنا بھی چاہیے،اس سے امت مسلمہ کا فائدہ ہوگا۔آپ دیکھیں کہ اگر لڑکی کم عمری میں بیوہ ہوجائے،شوہر انتقال کرجائے یا شہید کردیا جائےتو وہ ساری عمر کیسے گزاری گی؟یقیناًاس کے لیے زندگی اجیرن بن جائے گی۔ماشاء اللہ ہمارے نئے دولہا مولانا محمد الیاس گھمن نے حالات کے مخالف ہونے کے باوجود اس کام کوضروری سمجھ کر کیا اور یہ ہونابھی چاہیے کیونکہ جب بددینی عام ہو تو لوگ بری باتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ان حالات میں ضروری ہے کہ دین داری کو عام کرتے ہوئے دینی باتوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔مولانا گھمن ان حالات میں جب کہ ہر طرف شور وہنگامے اٹھتے ہیں اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر اس کا اہتمام فرمایا ہے۔جب اس نکاح کا انعقاد طے ہوا اور یہ تجویز کیاگیا کہ ہم نے بھی اس نکاح میں شرکت کرنی ہے تو ہم بھی اس میں شریک ہوئے۔
اس شادی کے متعلق میں نے عرض کیا کہ ہمارے بزرگوں نے اس کا اہتمام فرمایا تھا۔ہمارے سید الطائفہ مولانا مظفر حسین کاندہلوی نوراللہ مرقدہ نے بیوہ سے شادی شروع کرنے کی غرض سے خود شادی فرمائی۔لڑکی شیعہ تھی۔اس نے مذہب شیعہ چھوڑنے کی شرط یہ لگائی کہ آپ مجھ سے شادی کریں۔وہ بےچاری دھوکہ باز نہیں تھی۔چنانچہ ایسے وقت پر آپ کو اور آپ کے رفقاء کو بلانے کا کہا کہ جب سب گھر والے کربلا جائیں گے۔ چنانچہ اس وقت اس نے پیغام بھیجا اور حضرت مع رفقاء اسے پالکی میں لے کر آگئے۔اس طرح انہوں نے ایک سنت کو زندہ کیا۔تو اللہ تعالیٰ نے بھی مفتی زین العابدین صاحب کی بیٹی کے لیے کچھ ہمدرد کھڑے کردیئے جنہوں نے اس نکاح بیوگان کی سنت کو زندہ کیا،اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔
امت جتنا نبی علیہ السلام کا اتباع کرے گی اتنا پھلے پھولے گی،ترقی کرے گی،فائدہ اٹھائے گی اور دوسروں کو فائدہ پہنچائے گی۔اگر یہود ونصاریٰ کی اتباع کرے گی تو اتنی ہی ڈوبے گی اور کوئی اس کو بچانے والانہ ہوگا۔
آج کل ہم میں علم کا شوق اور جذبہ کم ہوتاجارہا ہے۔بچے، بوڑھے،عورتیں غرض تمام طبقات علم سے دور ہورہے ہیں۔حالانکہ جب تعلیم عام ہو تو گھروں میں بیٹھنے والی عورتوں کوبھی کھرے کھوٹے کی پہچان ہو جاتی ہے۔بچیوں نے اگر کچھ لکھ پڑھ لیا تو کل جب سسرال جائیں گی تو گھر والوں کی نیک نامی کا سبب ہوں گی۔لکھنا جانتی ہوں، پڑھنا جانتی ہوں، کھانا پکانا جانتی ہوں، پھول بوٹے نکالنا بھی جانتی ہوں،اور ان علوم کے پھیلانے کا شوق وذوق بھی رکھتی ہوں۔اس مقصد کے لیے ہم نےکئی کتب خانوں کے اتحاد سے لاہور میں ایک کتب خانہ کھولنے کا ارادہ کیا ہے جس میں ایسی کتابوں کا اہتمام ہوگا جو عام مسلمانوں کے لیے مفید ہوں گی۔عورتوں اور بچیوں کے لیے مفید ہوں گی۔الحمدللہ ایسی چیزیں ہمارے ہاں ہندوستان میں دستیاب ہیں۔میرے ذہن میں ایسی کتب ہیں جو اگر یہاں سے چھپوا دی جائیں تو پاکستان میں بھی اس کا فائدہ ہو۔مولانا علی میاں نوراللہ مرقدہ کی والدہ کی بعض کتابیں ایسی ہیں جو عورتوں کی اصلاح اور رہنمائی کے لیے بہت مفید ہیں۔لہذا کتب خانوں کو چاہیے ان اصلاحی کتب کی ترسیل کا ضرور اہتمام فرمائیں تاکہ امت مسلمہ کو نفع ہو۔
ہر امتی کو چاہیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا ضرور اہتمام کرے خاص طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درود شریف بھیجنے کا اہتمام ضرور کرے۔جو حضرات بیعت ہونگے- ان شاء اللہ- ان کو بتلایا جائے گا کہ تسبیحات کے علاوہ درود شریف کا اہتمام ضرور کریں۔میرا جی یہ چاہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے امت کا جتنا رسوخ ہوگا اتنا ہی امت کو فائدہ ہوگا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہر ملک سے جتنی زیادہ مقدار میں درود پہنچے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اتنی ہی زیادہ ہوگی۔آج پوری قوم پریشان ہے،جب اُن کی توجہ ہوگی تو ان شاء اللہ پریشانیاں بھی دور ہوں گی اور ہمیں اتحاد واتفاق کی دولت بھی نصیب ہوگی۔اس سے دنیا کا بھی فائدہ ہوگا اور دین کا بھی۔تبلیغ ،تعلیم اور تذکیر تینوں کام خوب ہوں گے۔تو ہمیں چاہیے کہ اپنے گھروں،علاقوں اور ملکوں میں درود شریف کثرت سے پڑھنے کا اہتمام کریں۔اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ درود شریف پڑھنے کی وجہ سے دشمن دشمنی چھوڑ دے گا۔جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد سے لے کر مغرب تک درود کا زیادہ اہتمام کریں۔ ہمارے ہاں ماشاء اللہ اس کا بہت اہتمام ہوتا ہےاور رمضان شریف میں تو ہم آخری عشرے کے جمعہ میں سوالاکھ درود شریف اہتمام سے پڑھواتے ہیں اور بحمد اللہ آدھ پون گھنٹہ میں سوا لاکھ درود شریف پورا ہوجاتاہے۔اپنے ہاں بھی اس کا اہتمام کریں بلکہ مقررین کو چاہیے کہ درود پڑھنے کا شوق دلائیں۔ اگر کوئی شخص پڑھے گا توترغیب دینے والے کو بھی ثواب ملے گا۔کیونکہ حدیث میں ہے: الدَّالُّ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ (نیکی پر ابھانے والا بھی نیکی کرنے والے کی طرح ہے۔)اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے فرمایا:
قال اللہ تعالیٰ: إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا
[الاسراء:9]
حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہےجو سب سے زیادہ سیدھاہے، اور جو لوگ(اس پر) ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں، انھیں خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔
آسان ترجمہ
سورۃ فاتحہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے۔ قرآن مجید میں جو مضامین بیان ہوئے ہیں، ان کا خلاصہ سورۃ فاتحہ میں موجود ہے۔سورۃ فاتحہ کا خلاصہ "صراط مستقیم"ہے، کیونکہ اس سورۃ میں صرف ایک ہی دعا مانگی گئی ہے:
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
[فاتحہ:6]
کہ اے اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔
صراطِ مستقیم کا معنیٰ:
صراطِ مستقیم کا معنی ہے" راہِ اعتدال" جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط ، قرآن بھی اسی راہِ اعتدال کی دعوت دیتاہے:
إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ
[الاسراء:9]
امت بہت سارے امور میں بے اعتدالی کا شکارہے۔ اس وقت ان میں سے دو کا تذکرہ کرتاہوں۔
:1 خانقاہ و طریقت 2: نکاح
1:خانقاہ وطریقت:
خانقاہ کے حوالے سے ایک طبقہ وہ ہے جو خانقاہوں کا منکر ہے، بیعت کا منکر ہے اور اس کو کفر وشرک کے دروازے قرار دیتاہے، اور ایک طبقہ وہ ہے جو خانقاہوں کا قائل تو ہے لیکن ان کی حیثیت وہ کبھی کبھی درگاہ نبوت سے بھی آگے لے جاتاہے۔
تو پہلا طبقہ خانقاہوں کا قائل نہیں اور دوسرا طبقہ ضرورت سے زیادہ قائل ہے۔یہ دونوں افراط وتفریط کا شکار ہیں۔ یہ دونوں غلط ہیں۔ ہم اعتدال سے چلتے ہیں،بے اعتدالی ہرگز اختیار نہیں کرتے۔ہم خانقاہ کے شیخ کو حلال وحرام کا اختیار نہیں دیتے،خانقاہ کے شیخ کو حلال اور حرام سمجھنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ شیخ کے ساتھ تعلق کی وجہ سے آدمی کو حلال پر عمل کرنا اور حرام سے بچنا بہت آسان ہوتاہےاور بغیر ولی اللہ اور صاحبِ دل کی صحبت کے دینی اعمال پر عمل کرنا ناممکن نہ ہوتو مشکل ضرور ہے۔
بعض لوگ ادب کے نام پر شرک کرتے ہیں اور بعض لوگ توحید کے نام سے گستاخیاں کرتے ہیں۔میرے ان جملوں کو سمجھیں اور دل کی تختیوں پر نوٹ فرمائیں۔ہم توحید کے بھی قائل ہیں اور ادب کے بھی قائل ہیں، توحید کے نام پر گستاخ نہیں بنتے اور ادب کے نام پر مشرک نہیں بنتے۔ہم اعتدال کے ساتھ چلتے ہیں۔
خانقاہوں کا مقصد:
خانقاہوں کا جو بنیادی مقصد ہے وہ اعمال کی ترغیب اور اعمال پر پختہ کرناہے۔ جو شخص کسی دینی شعبے کے اندر منسلک ہو، اگر اس کا خانقاہ کے شیخ سے تعلق نہ ہوتو اس کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟اس کےلیے میں صرف ایک مثال عرض کرتاہوں۔
مثال: ہمارا اس وقت پوری دنیا میں سب سے بڑا مذہبی نیٹ ورک تبلیغی جماعت کا ہے اور الحمدللہ وہ ہمارے مسلک دیوبند کا ہے۔ہماری اس تبلیغی جماعت کے بانی برصغیر میں حضرت مولانا محمد الیاس نوراللہ مرقدہ ہیں۔حضرت جی کے ملفوظات میں میں نے پڑھا، حضرت فرماتے ہیں: بازار میں جاتے ہیں،گشت کرتے ہیں،دعوت دیتے ہیں اور بازار کی ظلمت میں اپنے دل پر محسوس کرتاہوں اور واپس آکر خانقاہ میں وقت لگا کر اس قلب کی ظلمتوں کو دور کرتاہوں۔یہ کون فرما رہے ہیں؟حضرت مولانا محمد الیاس صاحب۔ کتنے بڑے شخص ہیں !وہ بھی خانقاہ کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔
میں یہاں ساتھیوں سے گزارش کرتا ہوں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَحَبُّ البِلادِ إلَى اللهِ مَسَاجِدُهَا۔
سب سے بہترین جگہ زمین پر مسجد ہے،
وَأبْغَضُ البِلاَدِ إلَى اللهِ أسْوَاقُهَا
[صحیح مسلم: رقم الحدیث:671]
سب سے گندی اور ناپسندیدہ جگہ بازارہے۔تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث مدینہ منورہ میں فرمارہے ہیں۔معلوم ہوا کہ مدینہ منورہ میں بھی جو ماحول مسجد کا ہے وہ بازار کا نہیں۔مدینہ منورہ کا وہ بازار ہمارے مدرسوں سے بھی اعلیٰ ہوگا لیکن مدینہ منورہ کا بازار مدینہ منورہ کی مسجد سے اعلیٰ تو نہیں ناں!
میں جب بھی سفر پر وہاں[سعودی عرب]جاتاہوں تو میری خواہش ہوتی ہے کہ ہوٹل کی بجائے حضرت شیخ مولانا عبدالحفیظ مکی صاحب دامت برکاتہم کی خانقاہ میں قیام کروں۔بعض مرتبہ حضرت کے قریبی رشتہ دار، جن کا ہوٹلنگ کا کام ہے ،انہوں نے کہا بھی کہ ہم ہوٹل میں آپ کو جگہ دیتے ہیں ،آناجانا آسان ہوگا۔ میں نے کہا کہ وہ ہوگا، لیکن وہ خانقاہ تو نہیں ہوگی۔تو میں نے گزارش کی ہے کہ خانقاہ کے حوالے سے ہم اعتدال کے ساتھ چلیں،افراط وتفریط کا شکار نہ ہوں۔جس تحریک میں کام کریں اس کے اصولوں کے مطابق چلیں ،لیکن شیخ سے رابطہ رکھیں گے، تو گناہوں سے ان شاء اللہ العزیز بچتے رہیں گے اور بہت حفاظت ہوگی۔کسی بندے کو شیخ ماننے کا مطلب یہ ہوتاہے کہ اس پر بندہ اعتماد کرے اگر شیخ کی بات سمجھ میں نہ آئے تب بھی اس کی بات کو رد نہ کرے۔
حضرت مولانا محمد طلحہ کاندہلوی صاحب کی نصیحت:
رات حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب دامت برکاتہم فرمارہے تھے کہ جب آپ کام کریں گے اور مشائخ کے طرز پر کریں گے اور کچھ نہ کچھ پڑھ کر مشائخ کو ایصال ثواب کریں گے۔تو نتیجہ نکلے گا کہ مشائخ کی ارواح کو جب ثواب پہنچے گا تو ان کی ا رواح خوش ہوگی اور ہماری طرف متوجہ ہونگی۔آپ کا کام بڑھے گا اور کام میں برکتیں بھی ہوں گی اور نحوستوں اور آفات سے اللہ تعالیٰ محفوظ فرمائیں گے۔تو خیر میں نے ایک گزارش کی ہے کہ ہم اعتدال کاخیال رکھیں، خانقاہوں سے اپنے آپ کو جوڑیں ،مشائخ واکابر کی عزت کریں ،ان کے آرام وسکون کاخیال رکھیں، پھر دیکھیں اللہ رب العزت کس طرح نتائج عطاء فرماتے ہیں۔
مشائخ سے تعلق؛تین واقعات:
واقعہ 1:
علامہ علی شیرحیدری -اللہ ان کے درجات بلند فرمائے -ہم یہاں مرکز میں بیٹھے تھے،اجلاس ہورہاتھا۔مجھے بعض اساتذہ نے کہا کہ مولانا حیدری صاحب سرگودہا تشریف لائے ہیں، آپ انہیں مرکز آنے کی دعوت دیں۔میں نے کہا: میں ان کو دعوت نہیں دوں گا مجھے کہنے لگے کیوں؟میں نے کہا کہ حضرت سے میرا تعلق ہے۔میں سندھ جاؤں تو میں فون کروں اور وہ سرگودہا آئیں تو بھی میں فون کروں؟،یک طرفہ دوستیاں تو نہیں چلاکرتیں۔ میں دعوت نہیں دوں گا ،اگر وقت ہوگامجھ سے محبت ہے وہ تشریف لائیں گے ، نہیں وقت ہوگا تو میں تنگ نہیں کرتا۔ہم اجلاس ہی میں بیٹھے تھے کہ علامہ حیدری رحمہ اللہ کا اسی وقت فون آگیا: کہاں پر ہیں؟میں نے کہا: جی مرکز میں ہوں۔فرمایا: میں آ رہا ہوں۔ میں نےکہا: جی ٹھیک ہے ،کب تشریف لائیں گے؟فرمانے لگے: میں یہ نہیں بتا سکتا میں نے کہا جی ٹھیک ہے۔ کیا کھائیں گے ؟فرمایا: کچھ نہیں۔ میں نے کہا: جی بہتر۔ ان کا دو بجے پھر فون آ گیا: میں آرہاہوں، چائے تمہارے پاس پیوں گا۔آپ یقین فرمائیں میں نے کسی ڈرائیور کو نہیں بھیجا، میں خود سرگودہا شہر گیا، ان کی چائے کا اہتمام کیا۔جب حضرت جانے لگے تو میں نے کچھ ہدیہ پیش کیا۔ فرمانے لگے: تم نے پیسے دئیے تو میں آئندہ نہیں آؤں گا۔میں نے کہا: میں نے تو آج بھی نہیں بلایا، آپ خود تشریف لائے ہیں۔آئندہ دل مانے گا پھر آجائیے گا،دل نہیں مانے گا نہ آئیے گا۔ہم آپ کو تنگ تھوڑا کریں گے۔
واقعہ2:
میں خانقاہ سید نفیس شاہ صاحب رحمہ اللہ کے ہاں کئی بار حاضر ہوتا اور میں نے کبھی بھی نہیں کہاکہ میرا شاہ صاحب سے اندر جاکے مصافحہ کراؤ۔وجہ صرف یہ کہ مشائخ کے آرام میں خلل نہ آئے۔خدام خود لے کر جاتے، مصافحہ کرو۔ میں نے کہا :جی ہم یہاں آگئے ہیں۔خانقاہ میں حاضری ہوگئی ہے،پھر دعا جب ہوگی تو ہمارے لیے بھی ہوجائے گی واقعی مشائخ کی راحت میں ہماری راحت ہے۔
واقعہ3:
آپ کو اس بات کا تعجب ہوگا،حضرت شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم اللہ ان کی عمر میں برکت عطاء فرمائے-حضرت نے مجھے اس وقت خلافت واجازت عنایت فرمائی جب میں نے خانقاہ میں ایک دن بھی نہیں گزارا تھا۔میں رمضان المبارک میں حضرت سے ملنے کراچی گیا۔تو حضرت نےفرمایا:کیا پروگرام ہے؟میں نے کہا: جی سرگودہا جاناہے۔یہاں کتنے دن ٹھہروگے ؟میں نے کہا: جی تین دن۔فرمایا: تین دن نہیں، چالیس دن میں نے کہا : چالیس دن۔ حضرت روپڑے خوشی میں۔ میں رک گیا اور چھوٹی عید پر بھی نہیں آیا۔ اس دوران ایک بارحضرت نے فرمایا: کب جاوگے؟میں نے کہا: جب آپ فرمائیں گے جاؤں گا۔
جوبات میں سنانا چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ چالیس دن کے عرصہ میں حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کا جو اپنا کمرہ ہے،شاید میں دو یا تین مرتبہ اس میں گیا۔ایک دن اتنا عجیب واقعہ پیش آیاکہ ظہر کی نماز کے بعد میں اوپر کمرے میں تھا، تو میرا جی چاہا کہ میں اپنے شیخ کے پاس ان کے مخصوص کمرے میں جاؤں، میں وہاں سے نیچے جو خانقاہ کا بڑا کمرہ ہے، وہاں آکے بیٹھ گیا۔پھر ہمت نہ ہوئی اندر جانے کی۔
مجھے تعجب ہوتا ہے کہ شیخ کی قلبی توجہ کسے کہتے ہیں؟اوپر کمرے سے نیچے آیا اور اندر جانے کی بجائے دفتر میں بیٹھ گیا۔ابھی دو منٹ بھی نہیں گزرے کہ اندر سے خادم آیا اس نے کہا: حضرت آپ کو کمرے میں بلارہے ہیں میں کمرے میں چلاگیا تو مجھے فرمایا:مولانا!تم ادھر آئے ہو ،ہمارے پاس کیوں نہیں آتے؟باہرکیوں بیٹھے ہو؟میں نے کہا: آپ بڑے ہیں مجھے ڈر لگتاہے، اس لیے باہر بیٹھا رہتاہوں۔فرمایا: ہم آپ سے محبت کرتے ہیں اور آپ کو ڈر لگتاہے!خیر یہ واقعات زیادہ نہیں سنا رہا کہ اس کا اہتمام کریں اپنے مشائخ کی محبت لیں،اپنے مشائخ کی دعائیں لیں،اپنے مشائخ کا قلبی تعلق اپنےساتھ رکھیں۔
مشائخ سے قلبی محبت کیوں؟
ہم ان مشائخ سے محبت کیوں کرتے ہیں؟اس لیے کہ ان کا تعلق اللہ سے ہے اور تو کوئی وجہ نہیں۔سہارنپور مظاہر العلوم میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ حدیث پڑھا تے تھے -یہ بڑا سننے والاواقعہ ہے- شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کا فتویٰ تھا کہ انگریز کا بنایا ہوا کپڑا استعمال کرنا حرام ہے ، لہذا سادہ کھدر کا کپڑا استعمال کرنا چاہیے۔حضرت شیخ زکریا رحمہ اللہ کے بدن کا تقاضا یہ تھا کہ وہ نرم اور آرام دہ کپڑا نہ پہنیں تو بدن کو کوفت ہوتی تھی ،ان کی ضرورت تھی تو ململ کا کپڑا استعمال کرتے۔حضرت مدنی رحمہ اللہ جب سہارنپور تشریف لاتے تو ان کے آنے سے پہلے حضرت شیخ زکریا رحمہ اللہ ململ کا کپڑا اتار کر کھدر کا کپڑا پہن لیا کرتے تاکہ حضرت سے ڈانٹ نہ پڑے۔ اندازہ کریں کتنے بڑے آدمی تھے۔ ایک مرتبہ حضرت مدنی رحمہ اللہ تشریف لائے اور محبت میں فرمانے لگے: زکریا! مجھے پتہ ہے تو ململ کا کپڑا پہنتاہے، میرے ڈر کی وجہ سے جب میں آتاہوں تو ململ کا کپڑا اتار کر کھدر کا پہن لیتاہے۔ تو حضرت شیخ زکریا کا جواب سنیں! فرمانے لگے: حضرت !میں آپ سے تونہیں ڈرتا ،آپ کے کندھے پر کون سی بندوق رکھی ہے ،میں اس وجہ سے ڈرتاہوں کہ اللہ کا آپ سے تعلق بہت ہے، آپ ناراض ہوگئے تو اللہ ناراض ہوجائے گا۔
2:نکاح:
دوسری چیز جس میں لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں وہ "نکاح" ہے۔ اچھی طرح بات سمجھیں کہ جو بندہ حقوق ادا نہ کر سکتا ہو اس بندے کے لیے ایک نکاح کرنا بھی جائز نہیں، جو حق تلفی کرتا ہو، ظلم کرتا ہو وہ ایک نکاح سے بھی بچےاور جو حقوق کی ادائیگی کر سکتا ہو، اعتدال کے ساتھ زندگی گزار سکتا ہو تو شریعت نے اجازت دی ہے کہ وہ دو، تین یا چار نکاح کرے۔میں اکثر یہی گزارش کرتا ہوں کہ خواتین اورعورتوں کی آہوں سے بچو۔ باپ نے اپنی بیٹی بیاہ کے آپ کے گھر بھیج دی ہے، اس عورت نے بھی سارا خاندان چھوڑا ہےاس شوہر کے لیے۔ اگر یہ بھی اس پر ظلم کرے گا تو اس کا ظلم عرش کو ہلا کے رکھ دے گا۔اس کو ڈانٹنا، اس کو مارنا، پیٹنا،بتاؤ اس سے بڑا ظلم اور کون سا ہو سکتا ہے؟رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا سے جا رہے تھےتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر دو ہی جملے تھے:
الصلوۃ و ما ملکت ایمانکم
[سنن ابن ماجہ: رقم الحدیث 1625]
لوگو!نماز کا خیال کرنا اور اپنے ماتحتوں کا خیال کرنا۔
محدثین فرماتے ہیں کہ اس میں بیوی بھی شامل ہے کیونکہ یہ بھی شوہر کے ما تحت ہوتی ہے۔
دو واقعات:
1: حضرت مولانا محمد سعید احمد صاحب رحمہ اللہ بہت بڑے بزرگ تھے۔مدینہ منورہ میں مقیم تھے۔ ایک ساتھی کا نکاح ہوا۔وہ ایک ڈیڑھ مہینہ کے بعد سال کے لئے جماعت میں جانے لگا ، حضرت کو کسی ساتھی نے کہا تو حضرت نے بلا کر فرمایا: بھائی ! نئی نئی شادی ہے ، مہینہ ڈیڑھ مہینہ گزرا ہے تم سال میں چل پڑے ہو تو ہر مہینے میں ایک خط - ذرا تو جہ رکھنا اکابر کا مزاج سمجھنا – گھر اپنی بیوی کو لکھنا اور اس میں لکھنا کہ دن تو گشت میں گزرتا ہے ، تعلیم میں گزرتا ہے ، اعمال میں گزرتا ہے ، رات نہیں گزرتی ، تم بہت یاد آتی ہو ، کروٹیں بد ل بدل کے سوتا ہوں اور پریشان ہوں ، تمہاری محبت میں چُور ہوں۔ اس نے کہا : حضرت مجھے تو اتنا پیار ہی نہیں ،میں جھوٹ کیسے لکھوں ؟ حضرت کا جواب سنو ! فرمانے لگے : خاوند اور بیوی کا رشۃ وہ ہے کہ جھوٹ بول کر بھی اس کو خوش رکھے تو اس پر بھی ثواب ملتا ہے۔
2: حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفی رحمۃ اللہ علیہ حضرت حکیم الامت کے خلیفہ تھے ، غالباً مفتی تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم ایک گھر میں کھانے کے لئے گئے ، بہت اچھی دعوت تھی۔ کھانا کھایا۔ پردے میں خواتین بیٹھی تھیں۔ کھانا کھا کے اونچی آواز میں فرمایا : بھائی ! ہماری بیٹی سے کہو کہ تم نے بہت اچھا کھانا پکایا، ہمارا دل خوش ہو گیا، اس کو تو بہت سلیقہ ہے پکانے کا۔ حضرت فرماتے ہیں کہ عورت کی چیخیں نکل گئیں اتنی روئی کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ میں نے پو چھا: بیٹی کیا ہوا؟ اس نے کہا: حضرت مجھے کتنے سال گزر گئے، یہ جملہ مجھے شوہر نے کبھی نہیں کہا ، جس کے لئے میں سب کچھ چھوڑا اس نے کبھی بھی مجھے یہ بات نہیں کہی۔ آج میں نے آپ سے یہ جملہ سنا ہے، میں کتنی خوش ہوں میں آپ کو کیسے بتاؤں ؟