معرفت سے محبت پیدا ہوتی ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
خزائن السنن
معرفت سے محبت پیدا ہوتی ہے
مفتی شبیر احمد حنفی
خزائن السنن کے عنوان سے عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کے ملفوظات کو پیش کیا جاتاہے۔معرفت سے محبت پیدا ہونے کے عنوان سے حضرت دامت برکاتہم کایہ دلنشین ملفوظ ہدیہ قارئین ہے۔
عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم نے فرمایا:
محبت پیدا ہوتی ہے معرفت سے،جب تک جان پہچان نہ ہو محبت نہیں ہوتی۔ایک دفعہ دو شیخ الحدیث میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے،ایک داہنی طرف ایک بائیں طرف اور دونوں حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے خلفاء کے بیٹے تھے،دونوں شیخ الحدیث اور سہارن پور میں ساتھ پڑھے ہوئے تھے لیکن تیس چالیس سال کے بعد ملاقات ہوئی ایک دوسرے کو نہیں پہچانا اور اجنبی کی طرح ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
میں نے دونوں کا تعارف کرایا کہ یہ جو داہنی طرف محدث ہیں یہ مولانا خیر محمد صاحب رحمہ اللہ کے صاحبزادے ہیں جو حکیم الامت کے خلیفہ تھے ملتان میں اور یہ مولانا محمد نبی صاحب جو رام پور میں حکیم الامت کے خلیفہ تھے ان کے صاحبزادے ہیں, مولانا مفتی محمد وجیہ صاحب جو کہ ٹنڈو الہ یار میں شیخ الحدیث ہیں۔یہ سنتے ہی دونوں کھڑے ہوگئے اور ایک دوسرے کو لپٹ گئے اور کہا کہ ارے ہم تم تو ساتھ پڑھتے تھے۔معلوم ہوا کہ محبت میں اشتداد معرفت کے بعد پیدا ہوتاہے۔اسی طرح ایک بچہ ری یونین میں ہو اس کا باپ بچپن ہی میں سعودیہ نوکری کے لیے چلا گیا ہو اور بیس سال کے بعد اگر آئے گا تو یہ بچہ اس کو نہیں پہچان سکتا بلکہ باپ کے کسی دوست سے معلوم کرے گا کہ میرے والد کون ہیں؟ ری یونین کے ائیرپورٹ پر باپ اترا اور اس نے پہچان لیا کہ یہ میرا بیٹا ہے لیکن بیٹے نے نہیں پہچانا۔باپ نے کہا کہ میرا بستر اٹھاؤ تو کہتا ہے کہ آپ کو کیا حق ہے مجھ سے بستر اٹھوانے کا،میں تو اپنے باپ کی تلاش میں مشغول ہوں۔تب اس بڑے بوڑھے نے کہا کہ ارے یہی تو ہے تیرا ابا۔ تو پھر باپ سے لپٹ جائے گا اور معافی بھی مانگ رہا ہے اور بستر بھی سر پر رکھ رہا ہے اورکہہ رہا کہ ابا آپ خود بھی میرے کندھے پر بیٹھ جائیے۔
معلوم ہوا کہ معرفت کے بعد محبت پیدا ہوتی ہے، لیکن اس کے لیے ضرورت ہے ایک معرِّف کی جو جان پہچان کرائے۔ساری دنیا اللہ سے غافل ہوتی ہے،ایک نبی آتا ہے اور ایک عالم کو اللہ کا عارف بنا دیتاہے اور اب نبوت تو ختم ہوگئی،اب نائبین رسول قیامت تک ہمارے اور اللہ کے درمیان معرِّف کے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔تقویٰ کا حصول یعنی اللہ کی معرفت و ولایت موقوف ہے اہل اللہ کی صحبت پر اور آیت : كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ اس پر دلالت کررہی ہے۔
اسی لیے ہمارے اکابر مولانا قاسم نانوتوی،مولانا گنگوہی،مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہم اللہ وغیرہ کے پاس کیا علم کی کمی تھی لیکن علم کے یہ آفتاب وماہتاب ایک غیرعالم حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں گئے اللہ کی معرفت حاصل کرنے۔آج لوگ علماء کی خدمت میں جانے میں عار محسوس کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج نسبت مع اللہ اور درد بھرے دل سے محروم ہیں،ان کی تقریر میں جان نہیں۔
جب نور نہیں خود ہی دل میں منبر پہ وہ کیا برسائیں گے
صحبت اہل اللہ کا فائدہ لوگوں کو نہیں معلوم ورنہ چالیس دن کیا دوسال کسی صاحب نسبت کے دروازے پر پڑے رہتے اور کہتے۔
جی چاہتاہے در پہ کسی کے پڑے رہیں سر زیر بار منت درباں

کیے ہوئے

جس کو اہل اللہ کی معیت وصحبت کا لطف حاصل ہوگیا انہیں وہ مزہ ملا کہ ساری زندگی کے مجاہدے ایک طرف اور اہل اللہ کی صحبت کا انعام ایک طرف۔
یہی میرے شیخ حضرت پھولپوری رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ اللہ والوں کی صحبت میں اللہ کا راستہ صرف آسان ہی نہیں ہوتا لذیذ بھی ہوجاتاہے۔ورنہ صرف مجاہدہ بھی کافی نہیں،تل اپنے آپ کو لاکھ رگڑ لے کہ بھوسی چھوٹ جائے یہاں تک کہ کولہومیں پیل دو لیکن تلی کا تیل ہی رہے گا کیونکہ پھولوں کی صحبت میں نہیں رہا۔
لیکن اسی رگڑی ہوئی تلی کو پھولوں میں ایک مدت بسادو پھر کولہو میں پیلو گے تو اب روغن گل اور روغن چنبیلی نکلےگا۔اسی طرح اہل اللہ کی صحبت میں رہ کر مجاہدہ کرو،ان کے مشورہ پر چلو تب ولی اللہ بنو گے،بدون صحبت اہل اللہ محض اپنےمجاہدوں سے اللہ والے نہیں بن سکتے۔ان کی صحبت سے جب معرفت نصیب ہوتی ہے تو عارف کی ایک رکعت غیر عارف کی لاکھ رکعات سے افضل ہوتی ہے کیونکہ جس درد واخلاص ومحبت سے عارف کا سجدہ ہوگا غیر عارف کو اس کی ہوا بھی نہیں لگ سکتی۔
اسی لیے ہمارے بزرگ فرماتے ہیں کہ اپنی نفلوں اور اپنی تسبیحات میں مشغول ہونے کی بجائے کسی اللہ والے کی صحبت میں بیٹھو۔اہل اللہ کی صحبت کا جو فائدہ ہے اس کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے یہ فائدہ اٹھایا ہو،غرض ولایت موقوف ہے تقویٰ پر اور تقویٰ بدون صحبت صادقین متقین صالحین کے حاصل نہیں ہوسکتا جیسا کہ آیت :
كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ دلالت کررہی ہے اور اولیاء اللہ کون ہیں؟اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَاخَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ• الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ
)سورۃ یونس آیت62(
معلوم ہوا کہ ایمان اور تقویٰ ان دو نعمتوں سے ولایت مرکب ہوتی ہے۔