تجارت اور سود میں فرق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر 5
تجارت اور سود میں فرق
مفتی رئیس احمد
شریعہ ایڈوائزر حلال ریسرچ کونسل
سود کے مال کی بے برکتی :
سود خور کا مال اگرچہ بڑھتا ہوا نظر آتا ہے مگر وہ بڑھنا ایسا ہے جیسے کسی انسان کا بدن ورم سے بڑھ جائے ورم کی زیادتی بھی تو بدن کی زیادتی ہے مگر کوئی سمجھدار انسان اس زیادتی کو پسند نہیں کر سکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ زیادتی موت کا پیغام ہے اسی طرح سود خور کا مال کتنا ہی بڑھ جائے مگر مال کے فوائد وثمرات یعنی راحت وعزت سے ہمیشہ محروم رہتا ہے
سود خوروں کی ظاہر ی خوشحالی دھوکہ ہے :
شاید کسی کو یہ شبہ ہو کہ آج تو سود خوروں کو بڑی سے بڑی راحت حاصل ہے وہ کوٹھیوں ،بنگلوں کے مالک ہیں عیش وآرام کے سارے سامان مہیا ہیں کھانے پینے اور رہنے سہنے کی ضروریات بلکہ فضولیات بھی سب ان کو حاصل ہیں نوکر چاکر اور شان وشوکت کے تمام سامان موجود ہیں لیکن غور کیا جائے تو ہر شخص سمجھ لے گا کہ سامان راحت اور ”راحت “ میں بڑا فرق ہے سامان راحت تو فیکٹریوں اور کارخانوں میں بنتا اور بازاروں میں بکتا ہے وہ سونے چاندی کے عوض حاصل ہوسکتا ہے لیکن جس کا نام راحت ہے وہ نہ کسی فیکٹری میں بنتی ہے نہ کسی منڈی میں بکتی ہے وہ ایک ایسی رحمت ہے جو براہ راست حق تعالی کی طرف سے عطا ہوتی ہے جو بعض اوقات بے سروسامان انسان بلکہ جانور کو بھی دی جاتی ہے اور بعض اوقات ہزاروں اسباب وسامان کے باوجود حاصل نہیں ہوسکتی
ایک نیند کی راحت کو دیکھ لیجیے کہ اس کو حاصل کرنے کے لیے آپ یہ تو کر سکتے ہیں کہ سونے کے لیے مکان کو بہتر سے بہتر بنائیں اس میں ہوا اور روشنی کا پورا اعتدال ہو مکان کا فرنیچر دیدہ زیب اور دل خوش کن ہو چارپائی اور گدے تکیے حسب منشاء ہوں لیکن کیا نیند آجانا ان سامانوں کے مہیا ہونے پر لازمی ہے ؟اگر آپ کو کبھی اتفاق نہ ہوا ہو تو ہزاروں وہ انسان اس کا جواب نفی میں دیں گے جن کو عارضے سے نیند نہیں آتی یہ سارے سامان دھرے رہ جاتے ہیں خواب آور دوائیں بھی بعض اوقات جواب دے دیتی ہیں نیند کے سامان تو آپ بازارسے خرید لائے لیکن نیند آپ کسی بازارسے کسی قیمت پر نہیں لاسکتے اسی طرح دوسری راحتوں اور لذتوں کا حال ہے ان کے سامان تو روپے پیسے کےذریعے حاصل ہوسکتے ہیں مگر راحت اور لذت کا حاصل ہوجانا ضروری نہیں۔
یہ بات سمجھ لینے کے بعد سود خوروں کے حالات کا جائزہ لیجیے تو ان کے پاس آپ کو سب کچھ ملے گا مگر ”راحت“ کانام نہ پائیں گے وہ اپنے کروڑ کو ڈیڑھ کروڑ اور ڈیڑھ کروڑ کو دو کروڑ بنانے میں ایسے مست نظر آتے ہیں کہ ان کو اپنے کھانے پینے کا ہوش ہے نہ اپنے بیوی بچوں کا کئی کئی فیکٹریاں چل رہی ہیں دوسرے ملکوں سے جہاز آرہے ہیں ان کی ادھیڑ بن ہی میں صبح سے شام اور شام سے صبح ہوجاتی ہے افسوس ہے کہ ان دیوانوں نے سامان راحت کا نام راحت سمجھ لیا ہے اور در حقیقت راحت سے کوسوں دور ہوگئے اگر یہ مسکین راحت کی حقیقت پر غور کرتے تو یہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ مفلس محسوس کرتے یہ حال تو ان کی راحت کا ہے۔
اب ”عزت“کو دیکھ لیجیے یہ لوگ چونکہ سخت دل بے رحم ہوجاتے ہیں ان کا پیشہ ہی یہ ہوتا ہے کہ مفلسوں کی مفلسی سے یا کم مایہ لوگوں کی کم مائیگی سے فائدہ اٹھائیں ان کا خون چوس کر اپنے بدن کا پالیں اس لیے ممکن نہیں کہ لوگوں کے دلوں میں ان کی کوئی عزت ووقار ہو۔
یورپ اور افریقہ مصر وشام کے یہودیوں کی تاریخ پڑھ لیجیے ان کے حالات کو دیکھ لیجیے ان کی تجوریاں کتنے ہی سونے چاندی اور جواہرات سے بھری ہوئی ہوں لیکن دنیا کے کسی گوشے میں انسانوں کے کسی طبقے میں ان کی کوئی عزت نہیں بلکہ ان کے اس عمل کا یہ لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کے دلوں میں ان کی طرف سے بغض اور نفرت پیدا ہوتی ہے اور آج کل تو دنیا کی ساری جنگیں اسی بغض ونفرت کے مظاہرے ہیں محنت وسرمایہ کی جنگ نے ہی دنیا میں اشتراکیت اور اشتمالیت کے نظریے پیدا کیے کیمونزم کی تخریبی سرگرمیاں اسی بغض ونفرت کا نتیجہ ہیں جن کے پوری دنیا قتل وقتال اور جنگ وجدال کا جہنم بن کر رہ گئی ہے یہ حال تو ان کی راحت اور عزت کا ہے اور تجربہ شاہد ہے کہ سود کا مال سود خور کی آنے والی نسلوں کی زندگی بھی خوشگوار نہیں بننے دیتا یا ضائع ہوجاتا ہے یا اس کی نحوست سے وہ بھی مال ودولت کے حقیقی ثمرات سے محروم وذلیل رہتے ہیں۔
) جاری ہے(
علمِ نافع کیا ہے؟
مولانا اعجاز احمد دیروی
جو شخص دنیا کے لئےعلم سیکھتا ہے۔ وہ علم کی بر کت سے محروم رہتا ہے اسے علم کا رسوخ حاصل نہیں ہوتا۔ نہ مخلوق خدا کو اس سے فوئدہ ہوتا ہے اور جو شخص علم دین دین کے لئے سیکھتا ہے۔ اسے علم کی برکات نصیب ہوتی ہیں۔ اسے علم میں رسوخ کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور علم حاصل کرنے والے اس کے علم سے نفع اٹھاتے ہیں۔
( ملفوظات اما م اعظم ابو حنیفہ )