مقام فقہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
آثار التشریع
مقام فقہ
علامہ خالد محمود
پی-ایچ-ڈی لندن
فقہ کی عظمت اور اہمیت تابعین رحمہم اللہ کی نظر میں
قرآن کریم حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نظر میں فقہ کا کیا مقام ہے اور اس کی کتنی عظمت ہے ؟یہ آپ دیکھ آئے ہیں۔اب اس تسلسل میں چند اقوالِ تابعین رحمہم اللہ بھی ایک نظر دیکھ لیجیے۔
1: حضرت عمرو بن میمون الاودی رحمہ اللہ (74ھ) کہتے ہیں یمن میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہمارے پاس تشریف لائے۔ فقہ میں ان کی علمی شان میرے دل میں گھر کرگئی میں زندگی بھر ان کا گرویدہ رہا۔آپ کہتے ہیں:
"فما فارقتہ حتیٰ دفنتہ بالشام میتا ثم نظرت الی افقہ الناس بعدہ فاتیت ابن مسعود فلزمتہ حتیٰ مات۔
(سنن ابی داود ج1ص62،مسندامام احمد ج5ص231)
ترجمہ: میں آپ کے ساتھ عمر بھر لگارہا کبھی آپ سے جدا نہ ہوا۔یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی۔ میں نے آپ کو شام میں قبرمیں اتارا ،پھر میں دیکھتا رہا کہ اب آپ کے بعد افقہ الناس کون ہے؟(علم فقہ زیادہ جاننے والا کون ہے)پھر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انہی کے ساتھ لگا رہا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی۔
اس حدیث سے جہاں یہ پتہ چلتاہے کہ اُس دور میں علم فقہ کی کیا قدر ومنزلت تھی اور فقہاء صحابہ (جیسے حضرت معاذاور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما )کس طرح امت کے امام سمجھے جاتے تھے؟یہ بھی پتہ ملتاہے کہ بعض تابعین رحمہم اللہ زندگی بھر ایک امام کے پیرو رہے۔ پھر یہ بھی واضح ہوا کہ تمام مسائل میں کسی ایک امام کی طرف رجوع کرنا ان کے ہاں کوئی عیب نہ سمجھا جاتاتھا۔
آج یہ لوگ تقلید ِشخصی کو عیب سمجھتے ہیں۔ یہ سوچ صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے دور میں نہ تھی۔ علم اسی کا اونچا سمجھا جاتا جس کو دین میں فقہ حاصل ہو،صرف حدیث کاکثرت سے بیان کرنا ان کے ہاں کافی نہ سمجھا جاتاتھا۔
2: حضرت ابوتمیمہ رحمہ اللہ(97ھ)کس درجے کے تابعی ہیں، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ِخاص ہیں۔ حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں:
ہو ثقۃ حجۃ عندجمیعہم
(تہذیب التہذیب ج5ص12)
آپ ایک مجمع علیہ علمی سند تھے۔ یحییٰ بن معین اور دار قطنی نے انہیں ثقہ کہا ہے۔آپ کے ہاں صحابہ رضی اللہ عنہم میں فقہی امتیاز کس درجے میں تھا؟ اسے درج ذیل واقعہ میں ملاحظہ فرمائیں:
آپ کہتے ہیں میں شام آیا اور میں نے دیکھا لوگ ایک شخص کے گرد گھیرا بنائے ہوئے جمع ہیں۔ میں نے کہا یہ کون ہیں؟
قالوا :ھذا افقہ من بقی من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم
(اعلام الموقعین ج1ص16)
ترجمہ: اس ہجوم نے کہا حضور کے جو صحابہ رہ گئے ہیں ان میں یہ فقہ کے سب سے بڑے عالم ہیں۔
یہ حضرت عمرو البکالی رضی اللہ عنہ تھے انہیں افقہ الناس صرف حضرت تمیمہ نے نہیں کہا تابعین کے اس جم غفیر نے کہا ہے۔ اس سے اس بات کی قوی شہادت ملتی ہے کہ عہد صحابہ وتابعین میں علم فقہ کو کس بلند نظری سے دیکھا جاتاتھا۔لوگ ان کے گرد صرف روایات سننے کے لیے جمع نہ ہوتے تھے دین سیکھنے کے لیے اکٹھے ہوتے تھے لوگ پوچھتے جاتے تھے اور حضرت جواب دیتے جاتے ان دنوں دین سیکھنا فقہ پر ہی موقوف سمجھا جاتاتھا۔صرف روایت اس کے لیے کافی نہ سمجھی جاتی تھی۔
3: حضرت مجاہد رحمہ اللہ (100ھ) کس اونچے درجے کے تابعی ہیں، یہ حضرت عبداللہ بن عباس سے پوچھئے۔آپ کے نزدیک فقہ کا کیا مقام ہے اور آپ کے نزدیک تمام مسائل میں کسی ایک امام کی طرف رجوع کرنا کیسا تھا؟ اسے خود ان کے الفاظ میں دیکھیے :
اذا اختلف الناس فی شئی فانظروا ما صنع عمر فخذوا بہ۔
(اعلام الموقعین ج1ص15)
ترجمہ: جب لوگ کسی مسئلے میں اختلاف کریں تو تم دیکھا کرو کہ اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل کیا رہا ہے؟ تم ان کے فیصلے پر فیصلہ دو۔مسلمانوں کا اختلاف مسائلِ منصوصہ میں تو نہیں ہوسکتا۔یہ مسائل غیرمنصوصہ کا حل ہے جو حضرت مجاہد تجویز کررہے ہیں اور اعلم کی طرف رجوع کرنے کی تلقین فرمارہے ہیں۔
یہ کسی ایک مسئلے میں ان کے قول کو اختیار کرنا نہیں، تمام مسائل میں ان کے قول پر اعتماد کرنا اور فیصلہ کرناہے اور یہی تقلید ہے۔تقلید کن کی ہوگی؟ ان کی جو فقہ میں علمِ وافر رکھتے ہیں ،وہی اس لائق ہیں کہ آئندہ آنے والے ان کی پیروی میں چلیں۔
ممکن ہے حضرت مجاہد رحمہ اللہ کی نظر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہو جو حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نقل کرتے ہیں۔ حضرت امام احمد روایت کرتے ہیں:
عن حذیفۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :انی لاادری ما بقائی فیکم فاقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر
(جامع ترمذی ج2ص207،ابن ماجہ ،احمد،مشکوۃ)
ترجمہ: حضرت حذیفہ سے مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نہیں جانتا کہ کب تک میں تم میں رہوں،پس تم میرے بعد دو شخصوں کی پیروی کرنا؛ ایک ابوبکر کی اور دوسرے عمرکی۔
اس حدیث میں کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں بزرگوں کی تقلیدِ شخصی کی تعلیم نہیں دی؟یہاں امورِ حکومت مراد نہیں،امورِ حکومت قرآن کریم کے مطابق:
وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ
[سورۃ الشوری:38]
کے تحت رکھے گئے ہیں۔ان میں کسی کو مطلق العنان نہیں رکھا جاسکتا،نہ اس کی تقلید کی جاسکتی ہے۔تقلید دیگر علمی اور فقہی مسائل میں پیروی کانام ہےجن کا تعلق غیرمنصوص مسائل سے ہوتاہےاور وہ اہل علم کے اعتماد پر قبول کیے جاتے ہیں اور ان سے ہر موقع پر دلائل کی بحث نہیں کی جاتی۔کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہاں یہ فرمارہے تھے کہ تم ابوبکر اور عمر سے دلیل لے کر ان کی پیروی کرنا؟نہیں۔ اسلام میں اس طرح دلیل لے کر پیروی تو ہر کسی کی کی جاسکتی ہے پھر ان کی تخصیص کیا؟یہاں جو پیروی ہے وہ ان کے اقوال کو ان کے علم پر اعتماد کرتے ہوئے قبول کرناہے اور یہی تقلید کا حاصل ہے۔
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ
آمین بجاہ النبی الامی الکریم