عظمت والی رات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عظمت والی رات
مولانا محمد عاطف معاویہ حفظہ اللہ
اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو گذشتہ امتوں کے مقابلے میں عمر بہت تھوڑی دی ہے جس کو بیان کرتے ہوئے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اعمار امتی مابین ستین الیٰ سبعین واقلہم من یجوز ذلک،
)ترمذی رقم3550(
میری امت کے اکثر افراد کی عمر ساٹھ سے ستر سال کے درمیان ہوگی بہت کم ایسے ہوں گے جن کی عمر اس سے زیادہ ہوگی۔ جب عمر کم ہوگی تو، عبادت بھی بنسبت پہلی امتوں کے کم ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر احسان فرمایا کہ کم عمر میں اس امت کو کچھ ایسے اوقات ،کچھ ایسی عبادات عطا فرمائیں جن کا اجر وثواب گذشتہ امتوں کی ساری عمر کی عبادت سے بھی زیادہ ہے۔ ان اوقات میں سےرمضان المبارک کی ایک رات لیلۃ القدر بھی ہے جس میں عبادت کا ثواب کئی سالوں کی عبادت سے بھی زیادہ ہے اس رات کی فضیلت قرآن کریم میں بھی ہے اور حدیث مبارکہ میں بھی۔
قرآن کریم میں اس رات کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
لیلۃ القد خیر من الف شہر
)القدر:3(
اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی افضل ہے۔
فائدہ: ہزار مہینہ سے بہتر ،یہ عرب کا محاورہ ہے یہاں لغوی معنیٰ مراد نہیں اہل عرب جب کسی چیز کی کثرت کو ذکر کرتے تو ہزار کا لفظ بولتے کہ فلاں شخص ہزاروں کا مالک ہے یعنی اس کے پاس دولت بہت زیادہ ہے اور یہ بات مسلمہ ہے کہ جب کوئی لفظ بطور محاورہ اور عرف عام کے استعمال ہوتو وہاں لغوی معنیٰ مراد نہیں لیا جاتا اگر یہ بات ذہن میں ہو اور بندہ اس کو سمجھتا ہو تو کبھی مسائل شرعیہ پر اعتراض کا موقع ہی نہیں آتا اس کی مثال حدیث مبارکہ میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو فرمایا میرے بعد تم میں سے سب سے پہلے اس کا انتقال ہوگا جس کے ہاتھ سب سے زیادہ لمبےہوں گے اطولکن یداً
)شرح مشکل الآثار ج1ص202(
اب ہاتھ لمبے ہونے کا ایک لغوی معنیٰ ہے اور ایک عرفی ،لغوی معنیٰ یہ کہ جس کے ہاتھ ظاہری طور پر بڑے ہوں گے سب سے پہلے اس کا انتقال ہوگا چنانچہ ازواج مطہرات نے ظاہری معنیٰ سمجھتے ہوئے آپس میں ہاتھوں کی پیمائش شروع کردی کہ دیکھیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں ظاہری طور پر حضرت سودہ رضی اللہ عنھا کے ہاتھ لمبے تھے لیکن سب سے پہلے انتقال حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا ہوا" اطولکن یداً "کا عرفی معنیٰ اہل عرب جب کسی کی کثرت سخاوت کو ذکر کرتے تو کہتے کہ فلاں کے ہاتھ سب سے لمبے ہیں۔جب عرفی معنیٰ کو دیکھا گیا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا میں سخاوت کا مادہ بہت زیادہ تھا تو"اطولکن یداً "کا لغوی معنیٰ اور ہے اور عرفی معنیٰ اور ہے جب کوئی لفظ بطور محاورہ اور عرف کے استعمال ہو تو وہاں اس کے لغوی معنیٰ کو لے کر اعتراض کرنا انسان کی حماقت کی دلیل ہے۔اس کی ایک اور مثال فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ امام وہ شخص ہونا چاہیے"اصغرہم عضواً" جس کے عضو سب سے چھوٹے ہوں وہ لوگ جن کے دلوں میں فقہ کی دشمنی ،فقہاء کی عداوت ہے انہوں نے اعتراض کرنا شروع کردیا کہ دیکھو جی فقہ میں کتنے گندے مسائل ہیں یہ اعتراض انہوں نے اس لیے کیا کہ وہ لغوی اور عرفی معنیٰ کے فرق کو نہیں سمجھ سکے انہوں نے ظاہری اور لغوی معنیٰ کو لے کر اعتراض شروع کردیا۔حالانکہ یہ لفظ بطور محاورہ اور عرف کے استعمال ہوا ہے۔اہل عرب جب کسی شخص کی پاکدامنی کو ذکر کرتے تو کہتے "اصغرہم عضواً "فلاں شخص چھوٹے اعضاء کا مالک ہے یعنی پاکدامن ہے اپنے اعضاء کی حفاظت کرتاہے تو فقہاء کرام نے کہا ہے کہ امام وہ ہونا چاہیے جس کے اعضاء چھوٹے ہوں یعنی پاکدامن ہو۔ اب اس معنیٰ میں کونسی قابل اعتراض بات ہے۔ مگرفقہ اور فقہا ء سے بغض عداوت نے اعتراض پر مجبور کر دیا۔ یار لوگ چونکہ محاورات اور عرف عام سے جاہل ہیں اس لیے فوراً اعتراض شروع کردیتے ہیں۔
لیلۃ القدر اور احادیث مبارکہ:
جس طرح قرآن کریم میں لیلۃ القدر کی عظمت اہمیت بیان کی گئی ہے اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رات کی فضیلت بیان فرمائی ہے یہاں ہم صرف ایک حدیث نقل کرتے ہیں مکمل روایات کا احاطہ مقصود نہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفر لہ ماتقدم من ذنبہ
)صحیح بخاری ج1ص270باب فضل لیلۃ القدر (
جس شخص نے ایمان کی حالت میں خلوص نیت سے لیلۃ القدر میں عبادت کی تو اللہ تعالیٰ اس کے گذشتہ گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں۔
اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہوگی کہ صرف ایک رات کی عبادت سے آدمی کے سارے گناہ معاف ہوجائیں۔لیکن اس فضیلت کے حصول کے لیے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے 2 شرطیں ذکر کی ہیں ،
1: عبادت کرنے والا مومن ہو یعنی عقیدہ صحیح ہو، اگر عقیدہ ہی غلط ہو تو ایک لیلۃ القدر نہیں ہزار لیلۃ القدر بھی عبادت کرتا رہے تو وہ محروم ہی رہے گا۔ کیونکہ عقیدہ اصل اور بنیاد ہے۔اگر بنیاد ہی درست نہ ہو تو عبادت والی عمارت کیسے کھڑی ہوگی چنانچہ عربی کا ایک شعر ہے۔
ان العقائد کلہا اس لاسلام الفتیٰ
ان ضاع امر واحد من بینہن فقد غویٰ
یعنی عقائد اسلام کی بنیاد ہیں اگر ایک عقیدہ بھی غلط ہوگیا تو گمراہی مقدر بنے گی۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس رات کی برکت حاصل کرنے کے لیے عقائد اہل السنۃ والجماعۃ کو اپنائیں اور لوگوں میں بھی ان عقائد کی محنت کریں۔
2: عبادت کرنے والے کی نیت درست ہو، اگر نیت میں ریا،دکھلاوا آگیا تو رات بھر جاگنا اور عبادت کرنا کسی کام کا نہیں۔
فائدہ: اس حدیث میں اور اس طرح کی احادیث میں جو عبادت پر گناہوں کی معافی کا تذکرہ ہے اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں باقی کبیرہ گناہ کی معافی کے لیے توبہ اور حقوق العباد والے گناہوں کی معافی کے لیے ان حقوق کی ادائیگی یا پھر صاحب حق سے معافی ضروری ہے صرف عبادت سے وہ کبھی معاف نہ ہوں گے۔
لیلۃ القدر کون سی رات ہے؟
لیلۃ القدر رمضان المبارک کی کون سی رات ہے؟رب العالمین نے اس کو پوشیدہ رکھا اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رات کی کوئی ایک تعیین نہیں فرمائی بلکہ فرمایا کہ اس رات کو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو
عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال تحروا لیلۃ القدر فی الوتر من العشر الاواخر من رمضان۔
)صحیح بخاری ج1ص270باب تحری لیلۃ القدر فی الوترمن العشر الاواخر فیہ(
ترجمہ: لیلۃ القدر کو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔یعنی،29 21،23،25 ،27، کی راتوں میں تلاش کرو۔اسی طرح کی ایک حدیث مسند احمد )ج16ص399 رقم 22612(میں بھی ہے جس میں حضرت عبادہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لیلۃ القدر کے متعلق سوال کیا کہ وہ کونسی رات ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
اس رات کی مخصوص دعا:
ام المومنین حضرت امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اگر مجھے لیلۃ القدر نصیب ہوجائے اور مجھے معلوم ہوجائے کہ آج لیلۃ القدر ہے تو میں کونسی دعا مانگوں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ سے یوں دعا مانگنا
اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی
)سنن ابن ماجہ ص274باب الدعاء بالعفو والعافیۃ(
ترجمہ: اے پروردگار آپ بہت معاف فرمانے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند بھی فرماتے ہیں مولائے کریم مجھے معاف فرمادیں۔
عظمت والی رات میں ارتکاب منکرات:
بدقسمتی کہ اتنی برکتوں والی رات میں بھی امت کے بہت سارے افراد اعتدال کا دامن چھوڑ کر افراط وتفریط کرکے بجائے مغفرت کے عتاب کے مستحق بنتے ہیں۔
1: پٹاخے بجانا،
2:مساجد پر چراغاں کرنا،
3:اہتمام کے ساتھ اعلانات کرکے مساجد میں باجماعت صلٰوۃ التسبیح ادا کرنا وغیرہ
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب مسلمانوں کو اس عظیم رات میں اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اس رات کو ہماری بخشش کا ذریعہ بنائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم