شوال کے 6 روزوں کی فضیلت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

شوال کے 6 روزوں کی فضیلت

مولانا عابد جمشید رانا
شوال کے ان چھ روزوں کا ثواب ایک روزےکےبرابرہے۔ یہ موقع بھی رمضان کی طرح سال میں ایک بار آتا ہے لہذا اس کو ضائع نہ کیا جائے کیوں کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ عن ابی ایوب الانصاری رضی الله عنه ، ان رسول صلی اللہ علیہ وسلم قال: من صام رمضان ، ثم اتبعه ستا من شوال كان كصیام الدهر
(رواه مسلم ، كتاب الصیام ، رقم الحدیث1164 (
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی مانند ہے۔‘‘
فوائد الحسنة بعشر امثالها (ایک نیکی کا اجر کم از کم دس گنا ہے) کے مطابق ایک مہینے(رمضان) کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں, اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھ لیے جائیں جنہیں شش عید روزے کہا جاتا ہے تو یہ دو مہینے کے برابر ہوگئے یوں گویا پورے سال کے روزوں کا مستحق ہوگیا۔ دوسرے لفظوں میں اس نے پورے سال کے روزے رکھے اور جس کا یہ مستقل معمول ہوجائے تو وہ ایسے ہے جیسے اس نے پوری زندگی روزوں کے ساتھ گزاری وہ اللہ کے ہاں ہمیشہ روزہ رکھنے والا شمار ہوگا۔ اس اعتبار سے یہ شش عید روزے بڑی اہمیت رکھتے ہیں گو ان کی حیثیت نفلی روزوں ہی کی ہے۔ یہ روزے متواتر رکھ لیے جائیں یا ناغہ کرکے ، دونوں طرح جائز ہیں ، تاہم شوال کے مہینے میں رکھنے ضروری ہیں۔ اسی طرح جن کے رمضان کے فرضی روزے بیماری یا سفر کی وجہ سے رہ گئے ہوں ، ان کیلئے ضروری ہے کہ پہلے وہ فرضی روزوں کی قضا دیں اور اس کے بعد شوال کے چھ نفلی روزے رکھیں۔
شوال کے چھ روزوں کی بابت: علامہ قاسم بن قطلوبغا کی تحقیق (۲)
مالکیہ کے صحیح مذہب کی تفصیل: چونکہ ان روزوں کی نفی کے بارے میں سب سے زیادہ پیش کی جانی والی دلیل امام مالک کا قول ہے‘ اس لئے مالکیہ کی معتبر کتابوں سے اس بارے میں وہ تصریحات بھی پیش کی جاتی ہیں جن سے ان کا مذہب‘ جمہور کے مذہب کے قریب نظر آتاہے اور امام مالک کے قول کی صحیح تشریح بھی ہوجاتی ہے۔
۱:- سب سے پہلے شرح زرقانی کی عبارت ذکر کرتے ہیں جس میں ”موطأ“ والی ان کی روایت کا مفہوم بیان کیا گیاہے۔
”یحییٰ کہتے ہیں: کہ میں نے عید الفطر کے بعد چھ روزوں کے بارے میں امام مالک کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: ”میں نے اہل علم وفقہ (اور اہل اجتہاد) میں سے کسی کو یہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے اور نہ ہی سلف میں سے (جن حضرات کو میں نے نہیں پایا‘ جیسے صحابہ اور کبار تابعین) کسی سے کوئی روایت پہنچی‘ چنانچہ اہل علم اس کو پسند نہیں کرتے تھے‘ اور ان کو اس کے بدعت بن جانے اور بے علم لوگوں کا رمضان کے ساتھ غیر رمضان کو ملانے کا اندیشہ تھا۔“
مطرف فرماتے ہیں کہ: امام مالک نے اس مذکورہ وجہ کی بنیاد پر ان روزوں کو مکروہ سمجھا تھا، ورنہ جو شخص صرف فضیلت کے حصول کی نیت سے یہ روزے رکھے تو اس کے لئے کراہت نہیں‘ صحیح مسلم اور سنن اربعہ میں حضرت ابو ایوب انصاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:”جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے‘ پھر اس کے بعد شوال کے چھ اور روزے رکھے تو یہ پورا سال روزے رکھنے کی طرح ہے“۔
قاضی عیاض فرماتے ہیں: اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک نیکی دس کے برابر ہے اور چھ روزوں سے ایک سال کا حساب پورا ہوجاتاہے‘ جیساکہ نسائی نے روایت کیا ہے۔ ہمارے مشائخ فرماتے ہیں کہ امام مالک نے اس وجہ سے اس کو مکروہ قرار دیا کہ کہیں جاہل لوگ رمضان کے ساتھ غیر رمضان کو جوڑ نہ دیں، البتہ شریعت (کے بیان کردہ فضیلت) کی بناء پر یہ روزہ رکھنا مکروہ نہیں۔
نیز کہا گیا ہے کہ امام مالک کو (متعلقہ) حدیث نہیں پہنچ سکی یا (پہنچی تو صحیح مگر) ان کے نزدیک (استدلال کے درجہ میں) ثابت نہ ہوسکی یا اہل مدینہ کا عمل اس کے برعکس تھا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے عید کے دن کے ساتھ ملا کر رکھنے کو مکروہ سمجھا ہو‘ چنانچہ اگر مہینہ کے درمیان میں رکھے تو پھر کوئی کراہت نہیں اور ان کے قول ”ستة ایام بعد الفطر من رمضان“ کا ظاہری معنی بھی یہی بنتا ہےاور ابو عمر (ابن عبد البر) فرماتے ہیں کہ: امام مالک بچ بچ کر چلنے والے دین کے معاملہ میں نہایت احتیاط برتنے والے آدمی تھے‘ اور روزہ ویسے تو ایک نیک عمل ہے مگر (یہاں) اس کا رکھنا بھی اچھا نہیں سمجھا (کیونکہ) بے علم لوگوں کی کوتاہی کا اندیشہ تھا‘ جیساکہ خود بیان کیا ہے۔ امام مالک کے نزدیک (متعلقہ) حدیث ثابت نہ ہوسکنے (حالانکہ صحیح مسلم میں موجود ہے) اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سند میں سعد بن سعید راوی ہیں جس کو امام احمد نے ضعیف کہا ہے، اور نسائی نے کہا کہ: لیس بالقوی اور ابن سعد نے کہا : ثقة قلیل الحدیث اور ابن عیینہ وغیرہ نے کہا: کہ یہ حدیث ابو ایوب پر موقوف ہے‘ یعنی اس بات کا امکان ہے کہ یہ ان کی اپنی رائے ہو‘ کیونکہ ایک نیکی تو ویسے بھی دس کے بدلے میں ہے تو اس حدیث کی دو علتیں ہوئیں : ایک اس کے راوی میں اختلاف ہونا ‘ دوسری موقوف کہا جانا (انتہی) (۱۴) ۲:- ابن رشد نے ”بدایة المجتہد“ میں لکھا ہے:
”بہرحال شوال کے چھ روزے کے بارے میں ثابت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا:”جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ اور رکھے ‘ تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے پورے سال روزے رکھے“۔
مگر امام مالک نے اس کو مکروہ کہا ہے‘ اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ ان کو اس بات کا خوف تھا کہ کہیں عام لوگ رمضان کے ساتھ غیر رمضان کو جوڑ نہ دیں اور یا اس وجہ سے کہ ان کو متعلقہ حدیث نہیں پہنچ سکی‘یا یہ حدیث ہی ان کے نزدیک استدلال کے درجہ کو نہیں پہنچ پاتی اور یہی (توجیہ) زیادہ واضح ہے۔“ (۱۵)
۳:- علامہ ابن شاش المتوفی:۶۱۶ھ نے ”عقد الجواہر الثمینة فی مذہب عالم المدینة“ میں لکھا ہے:
”صحیح روایت میں شوال کے چھ روزوں کا ذکر آیا ہے‘ مگر امام مالک کو یہ خدشہ لاحق تھا کہ کہیں جاہل لوگ فرائض کے ساتھ غیر فرض کو شامل نہ کر بیٹھیں‘ تحدید کی کراہت میں ان کے اصل کے مطابق ‘ چنانچہ ان دنوں کے علاوہ ان روزوں کے رکھنے کو مستحب سمجھا ہے‘ کیونکہ اس سے بھی مقصود حاصل ہوجاتاہے یعنی ان چھ دنوں اور رمضان کے روزوں کے ثواب کا کئی گنا ہوجانا یہاں تک کہ ایک سال کی تعداد کو پہنچ جائیں‘ جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اور چھ روزے دو مہینوں کے برابر ‘ تو یہ ایک سال کے روزے ہوگئے“۔
ان روزوں کے لئے شوال کو مقرر کرنے کی بنیادمکلف کے لئے آسانی پیدا کرنے پر ہے‘ کیونکہ اس کو روزہ رکھنے کی عادت ہوگئی ہے ‘ مذکورہ وقت کے ساتھ اس کے حکم کو خاص کرنا مقصود نہیں‘ لامحالہ اگر کوئی عشرہ ذی الحجہ کے دوران رکھے گا ‘ جبکہ اس میں روزہ رکھنے کی بھی فضیلت آئی ہے‘ تو بہت ہی بہتر ہوگا‘ کیونکہ مقصود یہاں بھی حاصل ہوتا ہے‘ ساتھ میں اس عشرہ کی فضیلت بھی حاصل ہوگی اور امام مالک کو جس چیز کا اندیشہ تھا‘ اس سے بھی حفاظت رہے گی۔“ (۱۶)
۴:- امام قرافی المتوفی: ۶۸۴ھ نے ”الذخیرة“ میں لکھا ہے:”صحیح مسلم میں ہے ”جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ اور رکھے تو گویا اس نے پورا سال روزے رکھے‘ امام مالک شوال کے علاوہ کسی اور مہینے میں ان روزوں کے رکھنے کو مستحب سمجھتے ہیں‘ اس خوف کی وجہ سے کہ کہیں جاہل لوگ ان کو رمضان کے ساتھ ہی شامل نہ کردیں اور جہاں تک شوال کی بات ہے تو شریعت نے صرف مکلف کی آسانی کی خاطر اس کی تعیین کی ہے‘ کیونکہ یہ مہینہ رمضان کے قریب ہے‘ ورنہ مقصد تو دوسرے مہینہ میں بھی حاصل ہوجاتا ہے ‘ لہذا دونوں مصلحتوں کی خاطر تاخیر مشروع ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: ”فکانما صام الدہر“ کا معنی یہ ہے کہ ایک نیکی دس کے برابر ہے‘ تو ایک مہینہ دس مہینوں کے اور چھ روزے ساٹھ دن کے برابر ہوگئے تو یہ ایک سال کا حساب ہوگیا اور جب سالہا سال اس طرح کرے گا تو گویا اس نے ساری زندگی روزے رکھے۔
سوال: تشبیہ میں مساوات یا مقاربہ شرط ہوتا ہے اور یہاں تو کوئی نہیں ‘ اس وجہ سے کہ یہ روزہ صوم الدہر کا عشر ہے اور کسی چیز کے عشر اور کل میں کوئی مقاربہ نہیں ہوتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ: مذکورہ تشبیہ کا مطلب یہ ہے کہ گویا صوم الدہر رکھ لیا‘ اگر کسی دوسری امت میں سے ہوتا۔ کیونکہ ہمارا ایک مہینہ ہم سے پہلی امتوں کے دس مہینوں کے برابر ہے اور ہمارے چھ روز ان کے دو مہینوں کے برابر ہیں ‘ لہذا ہر اعتبار سے مساوات پائی گئی۔ تنبیہ: یہ ثواب مختلف الاجر ہے‘ اس طرح کہ اس میں سے پانچ سدس تو مرتبہ کے اعتبار سے بڑے درجہ میں ہے‘ کیونکہ وہ واجب کے باب میں سے ہے اور ایک سدس نفل کا ثواب ہے۔ فائدہ: روایت میں ”بست“ کے الفاظ ہیں تذکیر کے ساتھ اصل کی رعایت کی خاطر ”بستة“ نہیں فرمایا‘ جبکہ عدد میں مذکر کے لئے تانیث ضروری ہے‘ کیونکہ عرب لوگ لیلی کو سبقت کی وجہ سے ایام پر غلبہ دیتے ہیں‘ جیساکہ آپ کہتے ہیں: ”لعشر مضین من الشہر“۔ (۱۷)
دور اخیر کے محقق عبد العزیز بن صدیق العماری نے بھی ”شرح العثماویة“ میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اس مسئلے میں متکلم فیہ روایت کا سہارا لینے والوں کی خوب خبر لی ہے‘ کیونکہ اس باب کی روایات تواتر کی حدود کو چھورہی ہیں۔ موصوف کا ان روایات پر تفصیلی کام کرنے کا بھی ارادہ تھا (۱۸) اگر وہ یہ کر چکے ہوں تو پھر بزعم خویش محققین کے لئے گنجائش نہیں چھوڑی ہوگی۔ اس باب کے دیگر موضوعات کو مستقل رسالہ لکھنے تک چھوڑ دیتے ہیں۔ ان شاء اللہ
حوالہ جات اور مآخذ:
۱۴- شرح الزرقانی ۲/۱۹۰ ۱۵- بدایة المجتہد لابن رشد الحفید ۱/۳۰۸ ۱۶- عقد الجواہر الثمینة فی مذہب عالم المدینة لابن شاش المالکی ۱/۳۶۹ طبع دار العرب الاسلامی بیروت ۱۷- الذخیرة للقرافی المتوفی: ۶۸۴ھ ۲/۵۳۰ طبع: دار الغرب الاسلامی بیروت ۱۸- اتحاف ذوی الہمم العالیة بشرح العثماویة ص:۱۵۵-۱۵۷ ابو الیسر عبد العزیز بن صدیق الغماری طبع دار البشائر الاسلامیة ۱۴۲۲ھ
چھ تکبیریں احادیث کی روشنی میں
قارئین کرام !ہم پورے وثوق و اعتماد کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ نماز عید میں چھ زائد تکبیریں سنت رسول ہیں ، سنت صحابہ اور سنت تابعین ہیں۔ثبوت کے طور چند احادیث وآثار ملاحظہ فرمائیں لیکن یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ نماز عید میں بحالت قیام تین تکبیریں اصلی ہیں یعنی تکبیرتحریمہ اور رکوع کی دو تکبیریں ،ان کو تکبیرات صلاتیہ بھی کہا جاتا ہے اور چھ زائد تکبیریں ہیں۔ بعض احادیث میں مجموعی تعداد نو کا ذکر ہے ،بعض میں پہلی رکعت میں پانچ کا اور دوسری رکعت میں چار کا ذکر ہے ،بعض میں چار چار تکبیروں کا ذکر ہے یعنی پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ سمیت قراءۃ کے پہلے چار تکبیریں ہیں اور رکوع والی تکبیر ان سے الگ قراۃ کے بعد ہے اور دوسری رکعت میں قراۃ کے بعد تکبیر رکوع سمیت چار تکبیریں ہیں۔حاصل سب کا ایک ہے کہ نماز عید میں بحالت قیام مجموعی طور پر نو تکبیریں ہیں ،تین تکبیرات صلاتیہ )یعنی تکبیر تحریمہ اور رکوع کی دو تکبیریں اور (چھ زائد تکبیریں۔
حدیث نمبر 1:
ان القاسم اباعبد الرحمن حدثہ قال حدثنی بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال صلی بناالنبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم عید فکبر اربعا واربعا ثم اقبل علینابوجھہ حین انصرف فقال لا تنسوا کتکبیر الجنائز واشارباصابعہ وقبض ابہامہ۔
)طحاوی ج3ص371(
ابو عبد الرحمن قاسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے بتایا کہ ہمیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید پڑھائی۔ پس آپ نے چار چار تکبیریں کہیں پھر نماز سے فار غ ہو کر رخ انور ہماری طرف کر کے فرمایا بھول ناجانا عید کی تکبیریں جنازہ کی تکبیروں کی طرح چار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھا بند کر کے چار انگلیوں کے ساتھ اشارہ بھی فرمایا۔
یہ حدیث لکھ کر علا مہ شمس الدین سرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
”ففیہ قول وعمل اشارۃ واستدلال وتاکید “
یعنی اس حدیث میں آپ کا قول،عمل،اشارہ ،تاکید اور استدلال ہے یعنی جیسے جنازہ میں تکبیر تحریمہ کے بعد تین تکبیریں ہیں اسی طرح عیدین میں تکبیرات صلاتیہ کے علاوہ ہر رکعت میں زائد تکبیریں تین ہیں۔
حدیث نمبر 2:
`عن مکحول قال اخبرنی ابو عائشۃ جلیس لابی ھریرۃ ان سعید بن العاص سال ابا موسٰی الاشعری وحذیفۃبن الیمان کیف کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یکبر فی الاضحی والفطر فقال ابو موسٰی کان یکبر اربعا تکبیرۃ علی الجنائز فقال حذیفۃصدق فقال ابو موسی کذلک کنت اکبر فی البصرۃ حیث کنت علیھم قال ابو عائشۃ وانا حاضر سعید بن العاص۔
)ابو دائود ج1ص163مصنف ابن ابی شیبہ ج3ص78(
حضرت ابو ہریرہ کے ہم نشین ابو عائشہ فرماتے ہیں کہ سعید بن العاص )گورنر کوفہ ( نےحضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں تکبیریں کیسے کہتے تھے ؟حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عیدین میں اس طرح تکبیریں کہتے تھے جیسے نماز جنازہ میں تکبیریں کہی جاتی ہیں )یعنی ہر رکعت میں چارچار ( حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس نے سچ کہا پھر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب میں بصرہ میں حاکم تھا تو اسی طرح تکبیریں کہتا تھا اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے ابو عائشہ فرماتے ہیں میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ بات نہیں بھولا کہ چار تکبیریں ہیں تکبیرات جنازہ کی طرح۔
حدیث نمبر 3:
عن علقمۃ والاسود ابن یزید قالا کان ابن مسعود جالساوعندہ حذیفۃ وابوموسیٰ الاشعری فسالھماسعید بن العاص عن التکبیر فی الصلوۃ یوم الفطر والاضحیٰ فجعل ھذایقول سل ھذا وھذا یقول سل ھذا فقال لہ حذیفۃ سل ھذا لعبد اللہ بن مسعود فسالہ فقال ابن مسعود یکبر اربعا ثم یقرء ثم یکبر فیرکع ثم یقوم فی الثانیۃ فیقرء ثم یکبر اربعا بعد القراءۃ۔
)مصنف عبد الرزاق ج3ص293(
علقمہ اور اسود رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے آپ کے پاس حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے سعید بن العاص نے تکبیرات عید کے متعلق پوچھا حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا ابو موسیٰ اشعر ی رضی اللہ عنہ سے پوچھئے ،ابو موسیٰ اشعری نے کہا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھئے )کیوں کہ وہ ہم میں سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ صحبت یافتہ اور زیادہ علم والے ہیں (چنانچہ اس نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا۔ سو آپ نے فرمایا کہ چار تکبیریں )تکبیر تحریمہ اور تین زائد تکبیریں (کہے پھر قراۃکرے اور تکبیر کہہ کر رکوع کرے پھر دوسری رکعت میں کھڑا ہو کر قراۃ کرے۔ قراۃ کے بعد چار تکبیریں کہے )یعنی تین زائد تکبیریں اور ایک تکبیر رکوع (
حدیث نمبر 4:
عن کردوس قال ارسل الولید الی عبد اللہ بن مسعود و حذیفۃ وابی مسعود وابی موسیٰ الاشعری بعد العتمۃ فقال ان ھذا عید المسلمین فکیف الصلوۃ ؟ فقالوا سل ابا عبد الرحمٰن فسالہ فقال یقوم فیکبر اربعا ثم یقرء بفاتحۃ الکتاب وسو رۃ من المفصل ثم یکبر ویرکع فتلک خمس ثم یقوم فیقرء بفاتحۃ الکتاب وسورۃ من المفصل ثم یکبر اربعا یرکع فی آخر ھن فتلک تسع فی العیدین فما انکرہ واحد منھم۔
)معجم کبیر للطبرانی ج9ص3(
کردوس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ولید بن عقبہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود، حذیفہ،حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہم اجمعین کے پاس عشاء کے بعد ایک آدمی کو بھیج کر مسئلہ پوچھا کہ مسلمانوں کی نماز عید کا طریقہ کیا ہے؟سب نے ابو عبد الرحمٰن یعنی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ کیا چنانچہ سائل نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ امام بحالت قیام چار تکبیریں کہے پھر سورۃ فاتحہ اور مفصلات میں سے کوئی سورۃ پڑھے پھر دوسری رکعت میں چار تکبیریں کہے اور ان میں سے آخری تکبیر میں رکوع کرے پس عیدین کی دونوں رکعتوں میں بحالت قیام یہ نو رکعتیں ہیں اس پر موجود صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی اعتراض کیا نہ انکار۔
حدیث نمبر 5:
عن علقمۃوالاسود بن یزیدان ابن مسعود کان یکبر فی العیدین تسعاتسعا اربعا قبل القراءۃثم کبر فرکع وفی الثانیۃیقرء فاذا فرغ کبر اربعا ثم رکع۔
)مصنف عبد الرزاق ج3ص293(
علقمہ اور اسود رحمھما اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عیدین میں نو تکبیریں کہتے تھے چار قراءۃ سے پہلے) تکبیر تحریمہ سمیت(پھر تکبیر کہتے اور رکوع کرتے اور دوسری رکعت میں قراءۃ کرتے پھر قراءۃ سے فارغ ہوکر چار تکبیریں کہتے )تکبیر رکوع سمیت (پھر رکوع کرتے۔
حدیث نمبر 6:
عن کردوس قال کان عبد اللہ بن مسعود یکبر فی الضحی والفطر تسعاتسعا یبدء فیکبر اربعاثم یقرء ثم یکبر واحدۃ فیرکع بھا ثم یقوم فی الراکعۃالاخرۃفیبدا فیقرء ثم یکبر اربعا یرکع باحدھن۔
)المعجم الکبیر ج9ص3(
کردوس سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عید الاضحی اور عید الفطر میں نو نو تکبیریں کہتے تھے پھر ایک مرتبہ کہہ کر رکوع کرتے پھر دوسری رکعت میں کھڑے ہو کر پہلے قراءۃ کرتے پھر چار تکبیریں کہتے اور ان میں سے ایک کے ساتھ رکوع کرتے۔
حدیث نمبر 7:
عن عبد اللہ بن الحارث قال شھدت ابن عباس کبر فی صلاۃ العید بالبصرۃ تسع تکبیرات والی بین القرائتین قال وشھدت المغیرۃ بن شعبۃ فعل ذلک ایضا فسالت خالدا کیف فعل ابن عباس ؟ففسرلنا کماصنع ابن مسعود۔
)مصنف عبد الرزاق ج3ص294اسنادہ صحیح (
عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں بصرہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس )عید کے موقع پر (حاضر ہوا آپ نے نماز عید میں نو تکبیریں کہیں اور پہلی اور دوسری رکعت کی دونوں قراءتوں کے درمیان تکبیریں نہ کہیں اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا تو انہوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ اسماعیل بن الولید فرماتے ہیں کہ میں نے خالد سے پوچھا ابن عباس نے کیسے کیا؟توانہوں نے ویسے تفصیل بتائی جیسے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔
حدیث نمبر 8
عن مسروق قال کان عبداللہ یعلمنا التکبیر فی العیدین تسع تکبیرات خمس فی الاولی واربع فی الاخرۃ وایوالی بین القرائتین )مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص(
مسروق رحمہ اللہ تابعی فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہمیں عیدین میں نو تکبیریں سکھاتے ان میں سے پانچ پہلی رکعت میں اور چار دوسری رکعت میں دونوں قراءتوں کے درمیان ترتیب قائم رکھتے )یعنی ان کے درمیان تکبیریں نہ کہتے(
حدیث نمبر 9
عن الشعبی عن عبد اللہ انہ کان یکبر فی الفطر والاضحی تسعا تسعا خمسا فی الاولی واربعا فی الاخرۃ ویوالی بین القرائتین
)مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص78(
حضرت شعبی رحمہ اللہ تابعی فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عید الفطر اور عید الاضحی میں نو نو تکبیریں کہتے۔پانچ پہلی رکعت میں اور چار دوسری رکعت میں دونوں قراءتوں کے درمیان ترتیب قائم رکھتے۔
حدیث نمبر 10
عن قتادۃ عن جابر بن عبد اللہ وسعید بن المسیب قالا تسع تکبیرات ویوالی بین القرائتین
)مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص79(
قتادہ رحمہ اللہ تابعی فرماتے ہیں کہ )بدری صحابی (جابر بن عبداللہ اور) جلیل القدرتابعی (سعید بن مسیب رحمہ اللہ ہر سو حضرات نے فرمایا نماز عید میں نو تکبیریں ہیں اور دونوں قرائتیں لگا تار ہیں )یعنی ان کے درمیان تکبیریں نہیں ہیں (
حدیث نمبر 11
عن الشعبی قال ارسل زیاد الی مسروق انا یشغلنا اشغال فکیف التکبیر فی العیدین قال تسع تکبیرات قال خمسا فی الاولی واربعا فی الاخرۃ ووالی بین القرائتین
) مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص79(
حضرت شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ زیاد نے حضرت مسروق رحمہ اللہ کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم تو اپنے کاموں کی وجہ سے مسائل کی تحقیق و تعلیم سے غافل ہیں آپ فرمائیے عیدین میں تکبیروں کا مسئلہ کیسے ہے ؟حضرت مسروق رحمہ اللہ نے جواب دیا۔ کل نو تکبیریں ہیں پانچ پہلی رکعت میں )یعنی تکبیر تحریمہ ،تین زائد تکبیریں اور تکبیر رکوع( اور دونوں قرائتیں لگاتار کرے۔
حدیث نمبر 12
عن ابراہیم عن الاسود ومسروق انھما کانا یکبر ان فی العید تسع تکبیرات
)مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص80(
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسود بن یزید رحمہ اللہ اور مسروق رحمہ اللہ عید میں نو تکبیریں کہا کرتے تھے۔
حدیث نمبر 13
عن محمد بن سیرین عن انس انہ کان یکبر فی العید تسعا فذکر مثل حدیث عبد اللہ
)مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص80(
محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص(حضرت انس عیدین میں نو تکبیریں کہتے تھے ان نو تکبیروں کی تفصیل محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے ویسے ذکر کی جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔
حدیث نمبر 14
عن ابراہیم ان اصحاب عبداللہ کانو یکبرون فی العید تسع تکبیرات
)مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص80 >
حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد عید میں نو تکبیریں کہتے تھے۔
حدیث نمبر 15:
عن ابن قلابۃ قال التکبیر فی العید ین تسع تسع
)مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص80(
ابن قلابہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عیدین میں نو نو تکبیریں ہیں۔
حدیث نمبر 16:
عن جابر عن ابن جعفرانہ کان یفتی بقول عبد اللہ فی التکبیر فی العیدین
)مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص80(
جابر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن جعفرتکبیرات عیدین کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق فتوی دیتے تھے۔
حدیث نمبر 17:
محمد قال اخبرنا ابو حنیفہ عن حماد عن ابراہیم عن عبد اللہ ابن مسعود رضی االلہ عنہ عنہ کان قاعدافی مسجد الکوفۃ ومعہ حذیفۃ بن الیمان رضی اللہ عنہ وابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ فخرج علیھم الولید بن عقبۃ بن ابی معیط وھو امیر الکوفۃ یومئذ فقال ان غدا عیدکم فکیف اصنع ؟فقالا اخبرہ یا ابا عبد الرحمن کیف یصنع؟فامرہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان یصلی بغیر اذان والا اقامۃ ووان یکبر فی الاولی خمسا وفی الثانیۃ اربعا وان یوالی بین القرائتین وان یخصب بعد الصلوۃ علی راحلۃقال محمد وبہ ناخذ۔۔وھو قول ابی حنیفۃ
)کتاب الاثار لمحمد ص53(
امام ابو محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہمیں ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے خبر دی کہ وہ حماد رحمہ اللہ سے ،وہ ابراہیم نخفی رحمہ اللہ سے وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو فہ کی مسجد میں بیٹھے تھے۔ آپ کے پاس حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ موجود تھے کہ ولید بن عقبہ جو اس وقت کوفہ کا امیر تھا ان کے پاس آیا اور کہا کل تمہاری عید ہے بتاو میں کیسے کروں ؟حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا اے ابو عبد الرحمن!اسے بتائیے کے وہ کیا کرے ؟سو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسے حکم دیا کے وہ بغیر اذان اور بغیر اقامت کے نماز پڑھائے اور یہ کہ پہلی رکعت میں) تکبیر رکوع سمیت (چار تکبیریں کہے اور دونوں قراءتو ں کے درمیان ترتیب قائم رکھے )امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں(۔وھو قول ابی حنیفۃ رحمہ اللہ۔
مذہب جمہور صحابہ 18:
ھذا الفعل وھو الموالا ۃ بین القرائتین والتکبیر ثلاثا فی کل رکعۃ اولی۔۔۔۔ وھو قول ابن مسعود وابی موسی الاشعری وحذیفۃابن الیمان وعقبۃ بن عامر وابن الزبیر وابی مسعود البدری وابی سعید الخدری والبراء بن عازب وعمر بن الخطاب وابی ھریرۃ رضوان اللہ علیھم اجمعین والحسن البصری وابن سیرین وسفیان الثوری وھو روایۃ عن احمد وحکا البخاری فی صحیحہ مذھبالاابن عباس وذکر ابن الھمام فی التحریر انہ قول ابن عمر ایضا۔
اتحاف السادہ شرح احیاء العلوم ج۳ص۳۹۷میں ہے۔ نماز عیدین میں چھ زائد تکبیریں اور دونوں قراء تو ں کے درمیان تکبیریں نہ کہنا اور دونوں رکعتوں کی قراءۃ میں موالاۃمندرجہ ذیل صحابہ وتابعین کا مذہب ہے۔ عبد اللہ بن مسعود ،ابو موسی اشعری ،حذیفہ بن یمان ،عقبہ بن عامر ،عبد اللہ بن زبیر ،ابو مسعود بدری ،ابو سعید خدری ،براء بن عازب ،عمر بن خطاب ،ابو ھریرہ رضوان اللہ علیھم اجمعین حسن بصری ،ابن سیرین ،سفیان ثوری ،امام احمد رحمہ اللہ کا ایک قول یہی ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہی مذہب بیان کیا ہے اور ابن ہمام نے ذکر کیا کہ ابن عمر کا یہی قول ہے۔
۱۹: امام ترمذی رحمہ اللہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
قدروی عن غیر واحد من اصحاب النبی نحو ھذا وھو قول اھل الکوفۃ وبہ یقول سفیان الثوری
)جامع الترمذی ج۱ ص۱۲۰(
یہ طریقہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی ایک کا نہیں بلکہ متعدد حضرات سے مروی ہے اور تمام اہل کوفہ کا مذہب یہی ہے۔
اجماع صحابہ رضی اللہ عنہ:
۲۰: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو جنازہ کی تکبیریں مختلف طور پر کہی جاتی تھیں یعنی ۴،۵،۶،۷،خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک یہ صورت قائم تھی جب آپ نے اس اختلاف کو دیکھا تو پریشان ہو گئے۔ اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مشورہ کیاتو:
فاجمعو امرھم علی ان یجعلو ا التکبیر علی الجنائز مثل التکبیر فی الاضحی والفطر اربع تکبیرات فاجمع امرھم علی ذلک طحاوی کتاب الجنائز
)باب التکبیر علی الجنائز ج۱ص۳۱۹(
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس بات پر اجماع ہو گیا کہ جنازہ کی چار تکبیریں ہیں جیسا کہ عید الاضحی اور عید الفطر کی چار تکبیریں ہیں )عید کی ہر رکعت میں چار تکبیریں ،تکبیر تحریمہ اور دوسری رکعت کی رکوع والی تکبیر شامل کر کے (
اس روایت سے ثابت ہوا کہ عیدیں کی چھ تکبیروں پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اجماع تھا۔