سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تذکرۃ الاکابر(آخری حصہ)
شیخ العرب والعجم حضرت مولانا
سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ
مولانا محمد عبداللہ معتصم حفظہ اللہ
ہندوستان میں سیاسی سرگرمیاں:
1919ء میں تحریک خلافت کی بنیاد پڑ چکی تھی شیخ الہند اور مولانا مدنی ہندوستان تشریف لانے کے بعد اس تحریک اور اس کی افادیت سے متعارف ہوئے انتہائی جذبے سے اس میں شامل ہوگئے شیخ الہند کی عمر نے وفا نہ کی وہ آغاز تحریک کے 6ماہ بعد انتقال فرماگئے۔حضرت شیخ الہند کی وفات مولانا مدنی کے لیے ایک عظیم سانحہ تھا اس سے آپ کے کندھوں پر حضرت شیخ الہند کی جانشینی اور مسلمانان ہند کی سربراہی کا بوجھ آپڑا،10جولائی 1921ء کو آل انڈیا خلافت کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا گیا اس موقع پر مولانا مدنی نے ایک تجویز پیش کی جس کا خلاصہ یہ تھا "کہ حالات حاضرہ میں مسلمانوں کے لیے سرکاری فوج میں ملازم رہنا یا بھرتی ہوناحرام ہے"اس کے رد عمل کے طور پر 1921میں آپ کی گرفتاری عمل میں آئی مولانا دوران اسارت بھی اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم رہے۔چنانچہ مقدمے کی سماعت کے دوران انگریز جج کے سامنےانتہائی جرات مندانہ انداز میں فرمایا: "اگر برطانوی حکومت مذہبی آزادی اور فرائض کا احترام نہیں کرتی تو اس صورت میں کروڑوں مسلمانوں کو اس مسئلہ کا تصفیہ کرلینا چاہیے کہ آیا وہ مسلمانوں کی حیثیت سے زندہ رہنے کو تیار ہیں یا حکومت برطانیہ کی رعایا کی حیثیت سے،اگر گورنمنٹ مذہبی آزادی چھیننے پر آمادہ ہے تو مسلمان اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے تیار ہونگےاور میں پہلا شخص ہوں گا جو اپنی جان قربان کروں گا "1923ء میں دو سال کی طویل اسارت کے بعد جب آپ رہا ہو ئے تو برطانوی حکومت اور اس کی پالیسیوں کے متعلق آپ کا وہی موقف تھا جس کی بنا پر آپ کی گرفتاری عمل میں آئی تھی چنانچہ گرفتاری کے فوراً بعد آپ نے جو بیان فرمایا اس کے چند کلمات یہ ہیں۔"مسلمانوں پر فرض ہے کہ نہایت شد ومد سے پورے عزم واستقلال کو کام میں لاتے ہوئے انگریز کی ناپاک پالیسی کا مقابلہ کریں" حضرت کی یہ مستقل مزاجی اور جاں سوزی تھی جس نے ہندوستان میں انقلاب برپا کر دیا اورممولے شاہیں سے ٹکرانے کو بے تاب ہوئے۔
جن کے دل تھے پتھر کےتانبے کے دماغ
ہم انھی لوگوں کو احساسِ زیاں تک لے گئے
معمولات ومشاغل:
آپ کے معمولات کا سلسلہ رات کے پچھلے پہر سے شروع ہوتا اور پھر اگلی رات 12بجے تک ہوتا تھا 24گھنٹوں میں آپ صرف 3گھنٹے آرام فرماتے۔سال کا تقریباً نصف حصہ بلکہ اس سے بھی زائد سفرمیں گزرتا مصروفیات کم کرنے کی آپ نے کئی بارکوشش کی لیکن ایسا نہ ہوسکا کسی کی دعوت کو مسترد کردینا آپ کے لیے محال تھا سفر کے دوران بھی آپ کی نمازیں بالعموم باجماعت ہوا کرتی تھیں نماز تہجد آپ پابندی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔قیام دیوبند کے دوران آپ روزانہ 8گھنٹے درس دیتے اور شیخ الحدیث ہونے کی وجہ سے صحاح ستہ کی دو اہم کتابیں بخاری اور ترمذی کی تدریس ہمیشہ آپ کے پاس ہی رہی پھر درس بھی پوری پابندی اور انبساط کے ساتھ ہوتاتھا قیام کے دوران کبھی بھی سبق کا ناغہ نہ ہوا، حتی کہ سفر میں بھی سبق کا خیال رہتا اور کوشش یہ ہوتی کہ جلد از جلد واپس پہنچ کر سبق پڑھایا جائے سینکڑوں میلوں سفر سے واپسی ہوتی سبق کا وقت ہوتا تو آتے ہی اعلان فرمادیا جاتاکہ سبق ہوگا اور کسی بھی تھکاوٹ واضمحلال کا اظہار کیے بغیر معمول کے مطابق اپنے اسباق پڑھاتے۔
علمی آثار :
حضرت مدنی دنیا علم کے آفتاب تھے آپ ایک وقت میں ایک متبحر عالم،ممتاز سیاست دان،قومی رہنما،اور روحانی دنیا کے امام اور ایک صاحب طرز ادیب بھی تھے حجاز مقدس (مسجدِ نبوی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام)میں تدریس کے دوران حق تعالیٰ نے آپ کو وہ عزت بخشی تھی جو یمنی،شامی،عراقی علماء کے لیے بھی قابل رشک تھی۔آپ کو مضبوط علمی استعداد اور دیگر علمی صلاحیات کے پیش نظر 24سال کی عمر میں آپ کو شیخ العرب والعجم کے معزز القاب کے ساتھ سرفراز کیا گیا۔
تحریر و تصنیف میں ید طولیٰ رکھنے کے باوجود آپ کی بہت کم تصانیف منظر عام پر آئی ہیں وجہ اس کی یہ تھی کہ سیاسی وتدریسی مصروفیات نے آپ کو نصنیفی میدان میں رہنے کا کم موقع دیا البتہ تدریس کے میدان میں جو کام آپ سے رب تعالیٰ نے لیاہے اس کا اندازہ آپ کے شاگردوں سے لگایا جاسکتاہے جو اپنے دور کے یگانہ روزگارہستیاں تھیں۔چند ایک تلامذہ کے نام پیش خدمت ہیں۔امام اہلسنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ،شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک،پیر طریقت حضرت مولانا سید امین شاہ رحمہ اللہ،شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان حفظہ اللہ،شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالستار تونسوی حفظہ اللہ،حضرت مولانا عبدالحفیظ کردی مدینہ منورہ،حضرت مولانا احمد البساطی نائب قاضی مدینہ منورہ، حمود عبدالجواد، شیخ بشیر ابراہیمی جزائری،مولانا محمد یوسف خان کشمیری وغیرہ
حضرت مدنی کے متعلق معاصرین کی آراء:
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ:میرے نزدیک ابوحنیفہ زمانہ،بخاری اوانہ،جنید وشبلی حضرت اقدس شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ہیں۔ کچھ کہنے والا مادح خورشید مداح خد است کا مصداق ہے۔میرا خیال ہے کہ حضرت کے فضل وکمال،متبحر فی العلوم والسلوک سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو۔
مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ:
حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی آسمانی علم وہدایت کے آفتاب اور زہد ورع میں یگانہ روزگار اور جہادتخلیص وطن کے ایک ممتاز شہسوار تھے۔
ہندوستان کے مسلمان ان کی ذات گرامی پر جس قدر بھی فخر کریں بجاہے وہ علم ہدایت اور مستحق منصب قیادت ہے۔
مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمہ اللہ:
حضرت مدنی کے کیا کہنے پہلے تو ہم یوں ہی سمجھتے رہے مگر وقت کی نزاکتوں اور ہنگامہ آرائیوں میں جب ہم نے اس مرد مجاہد کو دیکھا تو جہاں شیخ مدنی کے قدم تھے وہاں اپنا سر پڑا دیکھا۔
وفات حسرت آیات:
آخری عمر میں حضرت مدنی کو سانس کی تنگی اورتنفس کی تکلیف ہوگئی تھی جس کی وجہ سے صحت بہت بگڑ گئی اور یہی بیماری مرض الموت کی صورت اختیار کرگئی چنانچہ 1957ء میں ظہر 3بجے علم وعرفان کا یہ چراغ ایک عالم کو اپنی ضیاء پاشیوں سےمنور کرنے کے بعددارِ فناء سے دارِ بقاء کی طرف روانہ ہو گیا۔نماز جنازہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ نے پڑھائی اور اپنے مربی وشیخ الہند کے مرقد مبارک کے ساتھ مدفون ہوئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج بخش مایہ گراں کیا کیے