فتاویٰ عالمگیری

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

تعارف کتب فقہ (حصہ اول)

فتاویٰ عالمگیری
مولانا محمد یوسف حفظہ اللہ
جہانگیر احمد نگر کے سپہ سالار ملک عنبر کو شکست دے کر آگرہ کی طرف اطمینان سے واپس آرہا تھا کہ "مالوہ"اور "گجرات"کی انتہائی سرحد پر واقع "دوحد"نامی علاقہ میں اتوار کی شب 15ذیقعدہ1027ھ بمطابق 24اکتوبر1618ء کو اس کے بیٹے کے گھر میں ایک بچے نے جنم لیا اس نومولود نے ایسے تاریک ماحول میں آنکھ کھولی جہاں شرعی احکام رسم ورواج کے ملبے تلے دب چکے تھے اور اسلام کا فقط ناتواں وجود باقی رہ گیا تھا جس میں روح اور جان نہ تھی مگر کسے خبر تھی کہ یہ بچہ بڑا ہوکر برصغیر میں دین محمدی کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا دے گا اور پھر سے شریعت اسلامیہ کے وجود میں نئی روح پھونکے گا۔جی ہاں!ہماری مراد ہندوستان کے بڑے تاجدار عادل حکمران سلطان اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت ہے جسے قدرت نے بے پناہ خصوصیات اور کمالات سے نوازا تھا۔وہ عالم باعمل،پرہیز گار ،تہجد گزار،متعدد علوم وفنون کا ماہر،مجاہد فی سبیل اللہ اور علم دوست آدمی تھا۔علمائے دین کا قدر دان اور ان سے خاص ربط وتعلق رکھتا،حلقہ یاراں میں ریشم کی طرح نرم اور اور رزم حق وباطل میں فولاد کی طرح گرم ثابت ہوتا۔سلطان عالمگیر رحمہ اللہ قرآن وسنت پر عمل پیرا ہونے میں پیش پیش رہتا۔قرآن کریم سے اتنا شغف اور قلبی تعلق تھا کہ تخت نشین ہونے کے بعد اس کے حفظ کی سعادت حاصل کی۔حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی معرفت کا شرف حاصل تھا اور فقہ میں کمال درجہ کی مہارت تھی کہ اس کی جزئیات پر مکمل عبور تھا۔عالمگیر رحمہ اللہ کی علم دوستی اور فقہ سے بے لوث محبت کا منہ بولتا ثبوت مفتیٰ بہ اور مستند فتاویٰ جات کا ایک ایسا مجموعہ تیار کرانا ہے جو ہندوستان میں فتاویٰ عالمگیری کے نام سے اور مصر اور شام اور ترکی میں "الفتاویٰ الہندیہ"کے نام سے مشہور ہے۔اسی عظیم علمی کاوش پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے کہ رہتی دنیا تک اہل اسلام اس فقہی سرمایہ سے سیراب ہوتے رہیں۔
ایک فائدہ:
فتاویٰ عالمگیری کی ترتیب کسی وقتی مصلحت یا محض ایک شخص کی ذاتی خواہش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ فتاویٰ کی ترتیب وتدوین کا اصل محرک مسلمانوں کا یہ شدید احساس تھا کہ ان کے اجتماعی معاملات کا فیصلہ کتاب وسنت کی روشنی میں ہو اور اسلامی قانون ملک میں جاری وساری ہو۔ایسی کتاب کی ضرورت ایک عرصہ سے محسوس کی جارہی تھی جو انفرادی فتاویٰ کے اختلافات کو دور کردے اور قانون کی بنیادی کتاب کی حیثیت سے پوری مملکت میں استعمال کی جاسکے۔لیکن محض سیاسی وجوہات کی بناء پر اس قسم کی کتاب کی ترتیب کے مواقع نہیں مل سکے تھے اس لیے نہایت ضروری ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور اور اس سے پہلے کے دور کے سیاسی پس منظر کو بھی مختصر طور پر سمجھ لیں۔
سیاسی پس منظر:
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے دور حکومت کی ابتداء صحیح معنوں میں مغلوں کے خاندان حکومت سے ہوئی ہے جن کا مقصد ہندوستان میں مستحکم اور پائیدار حکومت کرنا تھا۔اس دور میں مسلمانوں میں سیاسی اور فکری اتحاد تھا اور اس حکومت کے قیام واستحکام کے لیے یہ ضروری تھا کہ باہمی اختلاف پیدا نہ ہوں۔اس کے بر خلاف ہندوستان کے آبائی باشندے اور ہندو مسلمانوں کی ا س کامیابی پر بہت ہی ہراساں اور خوفزدہ تھے یہی وجہ ہے کہ ہندو برادری نے مسلمان حکومت یا امراء سے تعاون اور میل ملاپ کرنے کے بجائے مستقل جنگ جاری رکھی اور مختلف حربوں سے مسلمان حکومت کو ختم کرنے اور اسلامی قوت کو کمزور کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے بالآخر مسلسل ناکامیوں سے تنگ آکر دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے راجپوتوں کے ایک بہت بڑے گروہ نے اسلامی قوت وحکومت کو تسلیم کیا اور مسلمان حکمرانوں سے تعاون اور دوستی کی راہ ورسم اختیار کی۔