مرکز اہل السنت والجماعت کی اساسیات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مرکز اہل السنت والجماعت کی اساسیات
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
قرآن ، سنت اور فقہ کی اشاعت و تحفظ کے عالمی ادارے مرکز اہل السنت والجماعت 87 جنوبی سرگودھا میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہو چکا ہے۔ عرصہ 7 سال میں اب تک اس ادارے میں تقریباً 450 فارغ التحصیل علماء کرام ایک سالہ تخصص فی التحقیق والدعوۃ کا کورس مکمل کر چکے ہیں۔ یہ آٹھواں گروپ ہے ملک بھر کے مختلف بڑے بڑے جامعات اور دینی مدارس سے دورہ حدیث شریف کے فضلاء مرکز اہل السنت والجماعت 87 جنوبی سرگودھا کا رخ کر رہے ہیں۔ الحمد للہ امسال بھی تقریباً 100 کے قریب علماء کرام کے داخلہ کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ جن میں سے کافی تعداد نے داخلہ لے بھی لیا ہے ،باقی حضرات بھی مستقل رابطے میں ہیں۔ متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ؛ سرپرست ادارہ نے افتتاحی تقریب میں مرکز اہل السنت والجماعت کی اساسیات پر گفتگو فرمائی کہ ہم نے مرکز کے قیام میں کن باتوں کا ملحوظ رکھاہے ، افادۂ عام کے لیے پیش خدمت ہے۔
الحمد للہ وحدہ لا شریک لہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ من لا نبی بعدہ امابعد !فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین وکان اللہ بکل شیئ علیما اللھم صل علی محمد وعلی آل محمدکما صلیت علیٰ ابراہیم و علیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید۔ اللھم بارک علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید۔
اللہ رب العزت کا ہمارے اوپر بہت بڑا احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اشرف المخلوقات میں انسان بنایا اس کے بعد اللہ رب العزت کا ہمارے اوپر بہت بڑا کرم یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں مسلمان بنایا اور اس کے بعد اللہ رب العزت کا ہمارے اوپر بہت بڑا کرم یہ ہے کہ ہمیں خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بنایا اور اللہ رب العزت کا ہمارے اوپر کرم اور احسان یہ کہ آخری امت کی عوام کے بجائے اللہ تعالی نے ہمارا تعلق اہل علم کے ساتھ جوڑا ہے ان احسانات کا اپنے ذہن میں استحضار بہت ضروری ہے جب تک آدمی کو یہ احساس نہ ہو کہ مجھ میں اللہ کریم کے فلاں فلاں انعامات موجود ہیں آدمی صحیح طرح زندگی میں جینا چاہے وہ جی نہیں سکتا۔
آپ نے کئی بار دیکھا ہے کہ والدین اپنی اولاد کو احساس دلاتے ہیں تجھے پتا ہے تو کس کا بیٹا ہے ؟ کم از کم اپنا خیال نہیں کرتا تو ہمارے نام کی لاج رکھ لے۔ کبھی استاد احساس دلاتا ہے کہ تجھے پتا ہے تو کس کا شاگرد ہے ؟تیری ان حرکتوں کی وجہ سے ہم بدنام ہوں گے کبھی ادارہ تحریک والے احساس دلاتے ہیں کہ تمہارے ان غلط کارناموں کی وجہ سے ہماری جماعت بدنام ہوگی تو ہمیں اپنے ذہن میں ان انعامات کو مستحضر رکھنا چاہیے کہ اللہ نے ہم پر کتنے احسانات کیے ہیں اور یہ نیک لوگ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بغیر مانگے اور بغیر طلب کیے ہمیں عطا فرمائے ہیں انسان ہونے میں ہمارے دخل کو کوئی حصہ نہیں مسلمان ہونے میں بھی کسی حد تک دخل نہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونا اس میں ہمارا رتی برابر دخل نہیں ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اہل علم کے ساتھ تعلق میں ہمارا دخل ہے لیکن یہ دخل بھی محض اللہ کریم کا فضل اور احسان ہے۔
اللہ رب العزت چاہیں تو باہر سے بندہ اٹھائیں اور اس کو علم کی دولت عطا فرمائیں اور اگر اعمال بد کی وجہ سےاللہ تعالیٰ محروم کرنا چاہیں تو علمی مجلس میں سے اٹھائیں باہر پہنچادیں۔ پتہ چلا کہ اگر اللہ کریم کا فضل اور احسان نہ ہو تو نیکی کی توفیق آپ کو مل ہی نہیں سکتی۔ ایک بات تو میں نے یہ عرض کرنی تھی کہ ہم اپنے ذہن میں ان احسانات وانعامات کا تصور رکھیں ان شاء اللہ زندگی گزارنے کا لطف آئے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا تعلق عوام سے نہیں اہل علم طبقے سے بھی ہے اور اہل علم کا طبقہ بھی وہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وارث ہے۔ وارث اپنے مورث کا ایک چیز میں نہیں بلکہ تمام اشیاء میں وارث ہوتا ہے حتی کہ مورث اگر ایک سوئی بھی چھوڑ کے جائے تو اس کا بھی وارث ہوتا ہے اگر میت دھاگہ چھوڑے اس کا بھی وارث ہوتا ہے ایک ایک چیز کاوارث ہوتا ہے اگر علماء؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہیں۔ اور یقیناً وارث ہیں تو پھر ہم وارث پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام چیزوں میں ہیں سوائے نبوت کے۔ اللہ نے نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند فرما دیا ہے باقی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین ہونے کی حیثیت کے ہم پیغمبر کے تمام چیزوں کے وارث ہیں ساری گنوانا بہت مشکل ہیں میں اہم بات یہ عرض کرنا چاہتا ہوں تمام چیزوں کا خلاصہ صرف تین چیزیں ہوتی ہیں :
1: علم
2: عمل
3: فکر اور درد
یہ تین چیزیں بنیاد ہیں نبوت کو جو چیز اللہ تعالیٰ عطا فرماتے ہیں وہ علم اور عمل ہوتا ہے نبی اللہ سے علم و عمل لیتا ہے اور امت کو علم و عمل عطا فرماتا ہے آپ کے ذہن میں ممکن ہے کہ خدشہ ہے کہ عمل کا تذکرہ ہے عقیدے کا نہیں لیکن اگر آپ کے عمل کے باب کو تھوڑا سے وسیع کر دو گے تو عقیدہ بھی اسی میں آئے گا۔ کیوں کہ عمل کا تعلق خواہ جسم سے ہو خواہ قلب سے ہو۔ تو پھر نظریا ت افعال دونوں اس کے اندر داخل ہوجائیں گے تو نبی اللہ سے علم وعمل لیتا ہے اور امت کو دیتا ہے۔
ہم بحیثیت عالم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہیں علوم نبوت میں۔ ہمارا سب سے پہلا مقصد علوم نبوت میں وراثت ہے اور دوسری وراثت اعمال نبوت میں اور تیسری وراثت ہے افکار نبوت میں۔
صرف علم کافی نہیں ہے اور صرف عمل بھی کافی نہیں بلکہ نبی کا فکر اور درد بھی ضروری ہےکہ نبوت کی فکر کیا تھی ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی رویا ہے امت کے لیے رویا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی مار کھائی ہے امت کے لیے کھائی ہے نبی نے جب بھی دکھ برداشت کیا امت کے لیے برداشت کیا۔
آپ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی دو زندگیاں سامنے رکھیں ایک وہ زندگی جو قبل از نبوت ہے اور ایک وہ زندگی جو اعلانِ نبوت کے بعد کی ہے جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کام نہیں کیا تھا تو مشکلات پیش نہیں آئی تھیں، نبوت کے ساتھ جب بھی قوم ٹکرائی ہے اعلانِ نبوت کے بعد ٹکرائی ہے۔ نبی جب اعلان نبوت نہ فرمائے تب بھی پاک دامن ہوتا ہے اعلان نبوت کے بعد بھی نبی گناہوں سے معصوم ہوتا ہے۔ نبوت کی ذات کا مسئلہ نہیں بلکہ جب کام شروع کیا تو اس کے بعد قوم نے مخالفت کی ہے۔ آپ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہیں جب تک کام شروع نہیں کریں گے اس وقت تک آپ کی ذات پر کیچڑ نہیں اچھالا جائے گا لیکن جب آپ مسلک کا کام شروع کریں گے تو لوگ آپ کے مخالف بنیں گے۔ پھر ایسے حالات آئیں گے مسائل پیدا ہوں گے اور اس قدر مسائل پیدا ہوں گے کہ جن کو شمار میں لانا ممکن نہیں۔
دوباتیں بنیادی عرض کرتا ہوں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں سے بعض مسائل مادی ہوتے ہیں اور بعض مسائل فطری۔مادی مسائل کا مقابلہ کرنا آسان ہوتا ہے اورفطری مسائل کا سامنا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مادی مسائل کا انسان کوئی نہ کوئی حل تلاش کر لیتا ہے جیسے آپ پراٹھا نہ کھائیں سوکھی روٹی کھال لیں ، گوشت نہ کھائیں سبزی کھالیں ، دوہزار کا جوتا نہ پہنیں چپل پہن لیں۔
لیکن فطری مسائل کا حل بہت مشکل ہوتا ہے فطری سے مراد یہ ہے کہ جب کام کرنے والے پر الزامات لگتے ہیں یا اس کی مخالفت ہوتی ہے جب غیروں سے بڑھ کر اپنے رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں تو یہ کام بڑا مشکل ہوتا ہے۔
مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے تفسیر معارف القرآن میں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ
المائدة:54
کے تحت لکھا ہے تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ یعنی جب تم کام کو چھوڑو گے تو اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو لائیں گے جن کی یہ صفت ہوگی ،یہ صفت ہوگی،اس کے بعد ہے کہ اللہ ان سے پیارے کرے گا اور وہ اللہ سے پیار کریں گے،مزید لکھا ہے فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ ،تو اللہ نے اپنی محبت کو ان محبت پر مقدم کردیا،اپنی محبت کو مقدم کیوں کیا؟یہ سمجھانے کے لیے کہ وہ جو اللہ سے پیار کریں گے وہ نتیجہ اس محبت کا ہوگا جو اللہ ان سے کرتا ہے اگر اللہ محبت نہ کرے تو بندہ محبت کر ہی نہیں سکتا۔ ہمارے استاد بات کو سمجھایا کرتے تھے کہ شاگرد جو استاد سےپیار کرتا ہے اس وقت تک جب استاد پیار کرتا ہے، مرید اپنے شیخ پہ مرتا ہے جب تک شیخ کی اپنے مرید پر توجہ رہتی ہے۔اور یہ جو لوگ اللہ پہ مرتے ہیں یہ تب تک ہے جب اللہ کی نظر کرم ان پر رہتی ہے جب اللہ نظر کرم نہیں فرماتے تو کوئی بھی اللہ پہ نہیں مرتا۔
پھر سمجھتا ہے کہ میں بہت باکمال ہوں باکمال نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے نظر کرم فرمادی ہے جب شیخ مرید سے محبت کرنا چھوڑ دے تو مرید شیخ کے دروازے پہ جانا چھوڑ دیتا ہے۔یہ تب دروازے پہ جاتا ہے جب شیخ کی اس پر توجہ ہوتی ہے۔ خیر میں عرض یہ کررہا تھا کہ اللہ فرماتے ہیں فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُمومنین کے معاملے میں نرم کفار کے مقابلے میں سخت آگے فرمایا يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ مفتی شفیع رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یجاہدون فرمایااور آگے ولا یخافون لومۃ لائم فرمایا۔ آخر کیوں؟
اس لیے کہ یجاہدون یہ غیروں کے ساتھ ہے اپنوں کے ساتھ نہیں ہے۔یعنی اللہ سے اتنا پیار ہوتا ہے کہ اللہ کی محبت میں اللہ کے دشمنوں سے لڑتے ہیں اپنی جان دیتے ہیں ان کی جان لیتے ہیں اور آگے فرمایا وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ اس کا تعلق غیروں سے نہیں اپنوں سے ہے۔ غیروں سے لڑیں گے اور اپنوں سے لڑ تو سکتے نہیں اب اپنوں سے کیا کرے ؟اگر غیر ہے تو مقابلہ کریں گے اپنوں کے ساتھ کیا کریں ؟ تو فرمایا کہ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ،اپنوں کے ساتھ معاملہ کیا ہے؟اپنے برا بھی کہتے ہیں،اپنے الزام بھی لگاتے ہیں،اپنے طعن وتشنیع بھی کرتے ہیں،یہ کام بھی نہیں چھوڑتے اور اپنوں کی ملامت کی پرواہ بھی نہیں کرتے۔
حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یجاہدون آسان ہے ولایخافون پر عمل مشکل ہے۔آدمی اللہ کے دین کے لیے تحریک بنائے گا اس پہ جان بھی دے گا،تشدد برداشت کرےگااور جب اپنے اس کے خلاف بولیں گے دل چھوٹا کرکے بیٹھ جائے گا۔کہتے ہیں کہ ہم پیسے بھی دیتے ہیں جان بھی دیتے ہیں اور اپنے برداشت نہیں کرتے دل چھوٹا کرکے بیٹھ جاتا ہے تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ یجاہدون آسان اور ولایخافون لومۃ لائم مشکل ہے۔
خیر میں سمجھا یہ رہا تھا کہ اللہ کے نبی کے وارث ہونے کی حیثیت سے ہماری وراثت بنیادی طور پر تین چیزوں میں ہیں:
1: علومِ نبوت
2: افعالِ نبوت
3: افکارِ نبوت
یہ بنیاد ہے یہ باتیں سمجھ میں آجائیں تو کام کرنے میں لطف آئے گا تخصص کرنے والے افراد سے بہت سارے احباب پوچھتے ہیں کہ وہاں کیا پڑھاتے ہیں؟میں اپنے اساتذہ سے کہتا ہوں کہ جب کوئی اس طرح پوچھے کہ شرائط کیا ہیں؟تو میں کہتا ہوں کہ دو شرطیں ہیں۔
1: مولوی ہو
2: بےوقوف نہ ہو
پوچھے نصاب کیا ہے؟تو کہو ”انسانیت“ نصاب ہے۔
یہ لفظ سمجھئے کہ عالم؛ نبوت کے وارث علم میں ہیں اصل مسئلہ علم ہے اصل مسئلہ عمل نہیں ہے۔حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے ”آب حیات “ تب سمجھ آئی جب میں اپنے استاد سے سبقاً سبقا ًپڑھی ہے۔جو کہ دیوبند کی زبان شمار ہوتے ہیں حضرت نانوتوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کا اصل منصب علم ہے عمل نہیں ہے۔حضرت اس بات پر عجیب نکتے پیش کرتے ہیں حضرت فرماتے ہیں کہ یہی وجہ کہ امتی کبھی افعال میں نبی سے بڑھ جاتا ہے لیکن علم میں کبھی نبی سے نہیں بڑھتا بظاہر افعال میں بڑھ جاتا ہے۔
کیا مطلب؟مطلب یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حج فرمایا امتی پچاس حج کرتا ہے بظاہر بڑھتا ہے لیکن حقیقت میں نہیں بڑھا حضرت نانوتوی رحمہ اللہ نے عجیب بات فرمائی حقیقت میں بڑھتا کیوں نہیں ہے؟وجہ یہ ہے کہ عبادت نام ہے تواضع، خشوع اور عاجزی کا۔ جتنی تواضع زیادہ ہوگی اتنا ہی عبادت کا مقام بڑھتا ہے اور تواضع؛ معرفت سے آتی ہے۔ آدمی جتنا کسی کو پہچانتا ہوگا اتنی ہی تواضع کرے گا اور معرفت علم کے ساتھ ہوتی ہے جس کا علم ہوگا اس کی معرفت ہوگی۔حضرت نانوتوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی کو بھی اللہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ علم نہیں ہے۔اس لیے پیغمبر سے زیادہ کسی کو معرفت نہیں ہے۔اس بنیاد پر پیغمبر سے زیادہ اللہ کےسامنے کسی کی تواضع نہیں ہے۔لہذا کمیت میں کم بھی ہو مگر کیفیت میں پیغمبر کا ایک سجدہ امت کے کروڑوں سجدوں سے آگے نکل جاتا ہے۔تو اصل مقام پیغمبر کا علم ہے اس لیے علماء کہتے ہیں کہ نبی کی وراثت علوم میں چلتی ہے اللہ ہم سب کو علومِ نبوت ،افعالِ نبوت اور افکارِ نبوت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہمارے ہاں بڑے بڑے تخصصات موجود ہیں ان سب کی اہمیت اور افادیت کے ہم قائل ہیں اپنی اپنی جگہ پر ضروری ہیں لیکن ہمارے تخصص کی بنیاد کیا ہے؟
1: ہمارے علماء نے جو دلائل درس گاہوں میں پڑھے ہیں ان کے استعمال کا طریقہ بتائیں۔
2: ہمارے طلباء زمانہ طالبعلمی میں اہل علم کے درمیان رہے ہیں اب ہم سکھائیں گے کہ عوام میں کس طرح کام کریں گے۔
3: اس وقت پوری دنیا میں جو فرقہ یا فرقیاں فتنے یا فتنیاں یا جتنے بھی ہمارے مدمقابل آئے ہیں تو ان کے ساتھ اعتدال کے ساتھ مدلّل مقابلہ کیسے کریں؟ ہمارا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ بعض حضرات فتنوں کےسد باب کے لیے نکلتے ہیں توتھوڑے عرصے بعد خود ”فتنہ“ بن جاتے ہیں۔فتنوں کا مقابلہ کریں خود فتنہ نہ بنیں یہ بہت مشکل کام ہے۔اعتدال میں رہنا بڑا ہی اہم ہوتا ہے۔مدمقابل آپ پر الزام تراشیاں بھی کرتا ہے گالیاں بھی بکتا ہے،حکومت کے ذریعے پابندیاں بھی لگواتا ہے،اتنے سارے مسائل کے باوجود آپ کے مزاج میں اعتدال ہو تشدد نہ ہو،یہ مشکل ہے۔
ہمارے مرکز اہل السنۃ والجماعۃ کے ذمہ داران میں سے کسی پر بھی کوئی ایف آئی آر موجود نہیں،پھر بھی کام ہورہا ہے۔کیوں؟اس لیے کہ حضرت شیخ الہندرحمہ اللہ کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے دالعلوم دیوبند; دار الکفر میں رہ کر کام کرتا رہا ہے۔اگر ہم انہی کی پالیسی کی تحت کام کریں گے تو ہمارا کام بڑا آسان ہوگا اور ہمارے مسلک میں جب مولوی دیوبندی کہا جائے تو مراد شیخ الہند کی ذات گرامی ہے۔دیوبند کے فرد کامل کانام حضرت محمود حسن ہے۔حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھےکہ حضرت شیخ الہند کہنا ان کی بڑی بےادبی ہے ان کو شیخ العرب والعجم کہنا چاہیے۔تو مطلب یہ ہے کہ ان کی پالیسی اپنائیں گے تو کام بڑا آسان ہوگا کسی بھی جماعت کے مزاج اور کام کو سمجھنے کے لیے موجودہ قیادت کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ ان کے بانیان کو دیکھا جاتا ہے ،تبلیغی جماعت کو دیکھنا ہوتو مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ کو دیکھیں اور جہاد کو دیکھنا ہوتو شاہ اسماعیل شہید کو دیکھیں۔
4: ہمارے تخصص کی بنیادیہ ہے کہ ہمارے بہت سارے طلباء لکھ سکتے ہیں بول نہیں سکتے،تو ہم چاہتے ہیں کہ جو بھی یہاں سے نکلے تو مدرس بھی ہو اور مقرر بھی ہو،یعنی سب چیزیں موجود ہوں تو ہماری خواہش یہ ہے کہ ایسے عالم تیار کریں۔کہ جو صاحب لسان بھی اور صاحب قلم بھی ہوں۔اس کے لیے آپ ذہنی طور پر تیار رہیں اللہ کریم ہم سب کو اپنے دین کی اشاعت اور تحفظ کے لیے قبول فرمائے۔ آمین