فقہ کی اہمیت محدثین کی نظر میں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
آثار التشریع:
فقہ کی اہمیت محدثین کی نظر میں
حضرت مولانا خالد محمود صاحب
پی ایچ ڈی لندن
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر مسئلہ چلا کہ قبر مبارک بصورتِ لحد کھودی جائے یا بصورتِ شق۔صحابہ رضی اللہ عنہم جنھوں نے دن رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس پائی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئی جنازے بھی پڑھے تھے سب موجود تھے۔ بایں ہمہ ان کی نظر ان بزرگوں پر تھی جو فقہاء سمجھے جاتے تھے۔مشہور محدث، جلیل القدر تابعی ہشام بن عروہ رحمہ اللہ م146ھ کہتے ہیں: فقہاءِ کرام نے اسے بصورت لحد تجویز کیا۔اس سے پتہ چلتاہے کہ اسلام میں فقہاء کی اہمیت اور برتری شروع سے مسلم چلی آرہی ہے۔
1: مشہور محدث حافظ ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ رحمہ اللہ م235ھ المصنف باب اللحد للمیت میں ایک سند اس طرح لائے ہیں:
حدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ فُقَهَاءِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ، قَالَ : كَانَ بِالْمَدِينَةِ رَجُلاَنِ یجعلان الْقُبُورَ ، قَالَ : فَكَانَ أَحَدُهُمَا يَشُقُّ وَالآخَرُ يَلْحَدُ ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلمالخ
(المصنف ج3ص13)
2: سفیان الثوری رحمہ اللہ م161ھ فرماتے ہیں: فقیہ ایک بھی ہوتو کئی علماء پر بھاری ہے
لو ان فقیہا علی راس جبل لکان ہوالجماعۃ۔
(شرح السنۃ ج1ص279)
ترجمہ:اگر ایک فقیہ پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا ہو تو(گو وہ ایک ہے)وہ جماعت شمار ہوگا۔
3: لیث بن سعد مصری رحمہ اللہ م175ھ فرماتے ہیں:
الحدیث مضلۃ الا للعلماء
(ترتیب المدارک ج1ص96)
ترجمہ:حدیث رستے کو بھلا دینے والی ہے مگر علماء ہیں جو اسے سمجھ پاتے ہیں۔
یعنی حدیث اپنے پیرایہ اختلاف کے بھنور میں اور پس منظر اور پیش منظر کے مباحث میں رستے سے دور جا ڈالتی ہے۔ یہ صرف فقہ جاننے والے ہیں جو اس کی مراد کو پا لیتے ہیں۔ حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے یہاں علماء کا معنیٰ فقہاء ہی کیا ہے۔
4: امام مالک رحمہ اللہ م179ھ آپ نے اپنے دو بھانجوں ابوبکر اور اسماعیل کو کہا تم حدیث سننے اور لکھنے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہو۔اگر تم چاہتے ہو کہ اس علم سے نفع پاؤ اور دوسروں کو پہنچاؤ تو حدیث روایت کرنا کم کر و اور حدیث میں فقہ حاصل کرنے میں محنت کرو۔یعنی جمع روایت میں تم صرف محدث بنو گے فقہ سے تم صحیح عالم بن پاؤگے۔
اوصی الامام مالک ابنی اختہ ابابکر واسماعیل ابنی ابی اویس فقال لہما: اراکما تحبان ہذا الشان جمع الحدیث وسماعہ وتطلبانہ قال نعم قال ان احببتما ان تنتفعا بہ وینفع اللہ بکما فاقلا منہ وتفقہا
(رواہ الرامہرمزی فی المحدث الفاضل ص242،559،الخطیب فی الفقیہ والمتفقہ ج2ص82)
امام مالک رحمہ اللہ کی یہ نصیحت بھی یاد رکھیں۔
سلموا للائمۃ ولاتجادلوہم فلوکنا کلما جاء رجل اجدل من رجل لخفنا ان نقع فی رد ماجاء بہ جبریل علیہ السلام (المیزان الکبریٰ للشعرانی ج1ص51)
ترجمہ:اماموں کی بات مان لیا کرو، ان سے جھگڑا نہ کرو،ہمارے پاس جب بھی بڑے سے بڑا مناظر آیا ہمیں اندیشہ ہوا کہیں ہم قرآن کی تردید کے درپے نہ ہوجائیں۔
5: عبداللہ بن وہب رحمہ اللہ م197ھ امام لیث اور امام مالک رحمہما اللہ کے نامورشاگردکہتے ہیں:
کل صاحب حدیث لیس لہ امام فی الفقہ فہو ضال ولو لا ان اللہ انقذنا بمالک واللیث لضللنا
(کتاب الجامع للقیروانی ص117)
ترجمہ:ہر اہل حدیث جس کا فقہ میں کوئی امام نہیں وہ راہ بھٹکا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ ہمیں امام مالک اور حضرت لیث بن مسعود رحمہما اللہ کے ذریعہ اس الجھاؤ سے (جو حدیث میں پیش آتا ہے)نہ نکالتا تو ہم بھی بھٹک جاتے۔
6: حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ م198ھ :
الحدیث مضلۃ الاالفقہاء،
(کتاب الجامع للقیروانی ص118)
ترجمہ:حدیث فقہاء کے سوا سب کو رستے سے بچلادیتی ہے۔اور یہ بھی فرمایا:
التسلیم للفقہاء سلامۃ فی الدین،
(ایضا)
ترجمہ:فقہاء کی بات تسلیم کرنا دین کی سلامتی کی ضمانت ہے۔
7: حضرت امام وکیع بن الجراح رحمہ اللہ م197ھ لکھتے ہیں:
حدیث یتداولہ الفقہاء خیر من ان یتداولہ الشیوخ۔
(معرفۃ علوم الحدیث ص11)
ترجمہ: حدیث فقہاء کے ہاتھ لگے اس سے بہتر ہے کہ اسے حدیث کے اساتذہ ہی روایت کرتے رہیں۔