فقیہ یمن سیدنا حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
تذکرۃ الفقہاء:
فقیہ یمن سیدنا حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ
مولانا محمد عاطف معاویہ حفظہ اللہ
نام ونسب:
آپ کا اسم گرامی معاذ بن جبل بن عمرو ہے اور کنیت ابوعبدالرحمن ہے۔ نسب نامہ یہ ہے: معاذ بن جبل بن عمرو بن اوس بن عائذ بن عدی بن کعب بن عمرو بن ادی بن علی بن اسد ابوعبدالرحمن الانصاری الخزرجی۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ: ج3ص1847،رقم الترجمۃ:8040)
قبول اسلام :
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا تعلق مدینہ منورہ سے تھا، اس لیے جب مدینہ منورہ میں اسلام کی دعوت شروع ہوئی تو آپ نے اسلام قبول کرلیا۔
فضائل ومناقب ا ورقوتِ اجتہاد:
1: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ایسی جماعت عطا فرمائی جنہوں نے آپ کے اوصاف کو اپنے اندر محفوظ کیا۔ہر صحابی میں کوئی ایک صفت نمایا ں تھی۔ مثلاً حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ میں صفتِ صداقت،حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں صفتِ عدالت،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میں صفتِ سخاوت اور حضرت علی رضی اللہ عنہ میں صفتِ شجاعت نمایاں تھی۔آپ علیہ السلام کی ایک صفت علم اور فقہ بھی تھی۔ آپ علیہ السلام نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو حلال وحرام کا سب سے زیادہ جاننے والا قرار دیا ہے۔فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے
اعلم بالحلال والحرام معاذبن جبل۔
(جامع الترمذی :ج2ص219باب مناقب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ)
یعنی معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ میری امت میں حلال وحرام کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں اور جس فن میں حلال وحرام کے احکامات بیان کئے جائیں اسے ”علم فقہ“ کہتے ہیں، تو گویا آپ علیہ السلام نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو فقہ کا بڑا ماہر قرار دیا۔
2: عہدِ رسالت میں چند حضرات کو قرآن کریم جمع کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ان میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا نام بھی ہے۔
(جامع الترمذی :ج2ص219باب مناقب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ)
3: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو چار صحابہ سے قرآن کریم پڑھنے اور سیکھنے کا حکم دیا۔ فرمان نبوی ہے:
استقروا القرآن من اربعۃ؛ عبداللہ بن مسعود فبدا بہ وسالم مولیٰ ابی حذیفۃ وابی بن کعب ومعاذ بن جبل
(صحیح البخاری: ج1ص531،537)
ترجمہ: چار شخصوں سے تعلیمات قرآن حاصل کرو۔حضرت عبداللہ بن مسعود،سالم مولیٰ ابی حذیفہ ،ابی بن کعب اور معاذ بن جبل [رضی اللہ عنہم]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو سارے علم وعمل کے پہاڑ اور فضل وولایت کے سمندر ہیں، ان سب کے پاسِ وضع اور حفظِ مراتب کے باوجود ان چار کو قرآن کے ساتھ خاص کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآنیات کے سلسلے میں یہ حضرات ممتاز مقام ومرتبہ کے حامل ہیں۔
دربارِ نبویعلی صاحبہا السلام سے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے اجتہادکی تائید:
1: حضور علیہ السلام نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا روانگی کے وقت ان سے سوال کیا
كَيْفَ تَقْضِى إِذَا عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ قَالَ أَقْضِى بِكِتَابِ اللَّهِ. قَالَ فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِى كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلاَ فِى كِتَابِ اللَّهِ قَالَ أَجْتَهِدُ برَأْيِى وَلاَ آلُو. فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَدْرَهُ وَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِى رَسُولَ اللَّهِ
(سنن ابی داود ج2ص149باب اجتہاد الرای فی القضاء)
ترجمہ:اے معاذ !یمن میں جاکر لوگوں کے درمیان فیصلے کیسے کرو گے؟حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں کتاب اللہ کو سامنے رکھ کر لوگوں کے فیصلےکروں گا۔آپ علیہ السلام نے پوچھا: اگر تجھےوہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ملے تو پھر؟عرض کیا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں سے اس کا حل تلاش کروں گا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اگردونوں میں نہ ملے تو ؟آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :میں کسی قسم کی کوتاہی کیے بغیر اپنی رائے سے اس کو حل کروں گا۔ آپ علیہ السلام نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے سینے پر اپنا ہاتھ مبارک مارا اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے اپنے نبی کے قاصد سے وہ بات کہلوائی جس کو سن کر تیرا پیغمبر خوش ہوگیا۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آپ علیہ السلام نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے مجتہد ہونے کی تائید وتصویب فرمائی۔
استاذِمحترم متکلمِ اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ اس حدیث کے فوائد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
1: آپ علیہ السلام نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ لوگ آپ سے مسائل پوچھیں گے تو کیسے بتاؤ گے؟اس سے ثابت ہوا کہ قرآن وحدیث کے ہوتے ہوئے بھی کسی مجتہد کی ضرورت ہے ،جو نئے پیش آمدہ مسائل کا حل پیش کرے۔ قرآن وحدیث سے مسائل کا استنباط ہر کسی کا کام نہیں۔اگر ہر شخص مسائل کو استنباط کر سکتا تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے: حضور !یمن والوں کے پاس تو قرآن بھی ہے اور حدیث بھی، میرے پاس کیوں آئیں گے؟
2: حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اکیلے یمن کی طرف گئے، یہ مجتہد تھے، باقی لوگ مسائلِ اجتہادیہ میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ تو ایک جگہ پر ایک مجتہد باقی اس کے مقلد ہوں یہ ترتیب خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لگائی ہے ،یہ تقلید شخصی ہے۔
3: مجتہد کے لیےمسائل کے حل کی ترتیب یہ ہوگی
۱:کتاب اللہ،۲:سنت رسول اللہ،۳:اجتہاد
4: اس حدیث میں منکرینِ حدیث اور منکرینِ فقہ دونوں کی تردید ہے۔منکرینِ حدیث کا نظریہ یہ ہے کہ تمام مسائل کے حل کے لیے قرآن کافی ہے، ذخیرۂ احادیث مشتبہ ہے اس لیے قابلِ اعتبار نہیں۔منکرینِ فقہ کا خیال خام یہ ہے کہ قرآن وحدیث زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہے، فقہ واجتہاد کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ قرآن وسنت کےساتھ اجتہاد وفقہ بھی شریعتِ اسلامیہ کا جزو لا ینفک ہے۔
5: حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :اگر مسئلہ کتاب وسنت میں نہ ملے تو ”أَجْتَهِدُ برَأْيِى“[میں اپنی رائے سے مسائل کا استنباط کروں گا] اس معلوم ہوا کہ وہ مسائل جن کے بارے میں صراحتاً قرآن وحدیث میں رہنمائی نہ ملے ان میں رائے سے کام لینا کوئی معیوب یا معتوب نہیں۔
6: کسی شخص کا صاحبِ رائے ہونا اس کے حق میں عیب کی بات نہیں۔ صاحبِ رائے وہ ہوتا ہے جو قرآن و حدیث اور اجتہاد میں ید طولیٰ رکھتا ہو۔امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ صاحبِ رائے تھے اور ان کی عظمت کے لیے یہی ایک فضیلت ہی کافی ہے۔
7: حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جب فرمایا کہ میں اجتہاد کروں گا تو آپ علیہ السلام نے خوش ہو کر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے سینے پر ہاتھ مارا۔اس حدیث کےساتھ ایک دوسری حدیث ملائیں تو مجتہد کی عظمت واضح ہوجائے گی۔صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا: حضور !میں آپ سے حدیثیں سنتا ہوں، بہت ساری بھول جاتا ہوں۔آپ علیہ السلام نے فرمایا :اچھا !چادر بچھاؤ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے چادر بچھائی، حضور نے اس پر ہاتھ لگائے اور فرمایا: ابوہریرہ ! اس کو سینے سے لگاؤ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے وہ چادر اپنے سینے سے لگائی۔ فرماتے ہیں: اس کے بعد مجھے پیغمبر کی زبان سے نکلنے والا ایک لفظ بھی نہیں بھولا۔لیکن جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی باری آئی تو آپ علیہ السلام نے بغیر کسی واسطہ کے سینہ پر ہاتھ مارا۔اس سے محدث ومجتہد کی عظمت کا فرق واضح ہوا۔محدث کی باری آئی تو ان کے سینہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کے درمیان چادر کا واسطہ موجود ہے اور جب فقیہ کی باری آئی تو پیغمبر کے ہاتھوں اور فقیہ کے سینہ کے درمیان کوئی واسطہ نہیں۔
8: حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے اجتہاد پر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی کا اظہار فرمایا۔ معلوم ہوا کہ مجتہد کے اجتہاد پر خوش ہونا پیغمبر علیہ السلام کا طریقہ ہے اور ناراض ہونا…….
9: اس حدیث میں لفظ ”رسول“ دو ذاتوں کے لیے استعمال ہوا ہے؛ایک پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے اور دوسرا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے لیے۔ ایک خدا کا نمائندہ اور دوسرا مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کا نمائندہ ، پیغمبر نمائندۂ خدا ہے اور صحابی نمائندۂ مصطفیٰ ہے ،پیغمبر خدا کے کلام کے الفاظ بھی دیتا ہے اورمعنیٰ بھی، اور صحابی پیغمبر کے الفاظ بھی دیتا ہے اور ان الفاظ کا معنیٰ بھی۔
10: انبیاء علیہم السلام اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے، جتنے نمائندے خدا کے اتنے ہی مصطفےٰ کے۔تلک عشرۃ کاملہ
الحاصل یہ حدیث مبارکہ حضرت معاذ رضی اللہ کے مجتہد ہونے کی واضح دلیل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسائل اجتہادیہ میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو اجتہاد کا حکم ہے اور یمن والوں کو ان کی تقلید کا۔
فائدہ: مشہور غیرمقلد عالم علامہ وحید الزمان اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں: اس حدیث میں دلیل ہے قیاس اور اجتہاد کے حجت ہونے پر۔
(ابو داؤد مترجم :ج3ص64)
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو فقیہ ہونے کی سند دی۔ چنانچہ ایک خطبہ میں لوگوں کو مخاطب کرکےارشاد فرمایا:
من اراد ان یسال عن الفقہ فلیات معاذ بن جبل
(المعجم الاوسط للطبرانی: ج3،ص33،رقم:3783،تذکرۃ الحفاظ للذہبی: ج1ص20)
کہ جس شخص کو کوئی فقہی مسئلہ درپیش ہو تو وہ معاذ بن جبل سے پوچھ لیا کرے۔
اس روایت سے تقلید شخصی کا بھی ثبوت ملتا ہے، کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فقہی مسائل میں اکیلے حضرت معاذ کی طرف رجوع کا حکم دیا۔ چنانچہ لوگ حضرت معاذ سے مسائل پوچھتے تھے۔ حضرت اسود بن یزید فرماتے ہیں:
أَتَانَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ بِالْيَمَنِ مُعَلِّمًا وَأَمِيرًا فَسَأَلْنَاهُ عَنْ رَجُلٍ تُوُفِّيَ وَتَرَكَ ابْنَتَهُ وَأُخْتَهُ فَأَعْطَى الِابْنَةَ النِّصْفَ وَالْأُخْتَ النِّصْفَ۔
(صحیح البخاری: ج2ص997)
ترجمہ:حضرت معاذ رضی اللہ عنہ یمن میں معلم یا امیر بن کر آئے۔ ہم نے ان سے ایک مسئلہ پوچھا کہ ایک شخص فوت ہوگیا اور اس نے ورثاء میں ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑی ہے۔اب وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟ تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اس کی وراثت کا نصف حصہ اس کی بیٹی کو دیا اور نصف اس کی بہن کو۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نےلوگوں کو یہ مسئلہ بتایا تولوگوں نے بغیر مطالبہ دلیل کے محض ان پر اعتماد کرتےہوئے مسئلہ مان لیا ،اسی کا نام تقلید ہے کہ کسی مجتہد کے قول کو بلامطالبۂ دلیل مان لینا۔
قارئین کرام!حضرت معاذ رضی اللہ عنہ وہ مجتہد ہیں جن کو اجتہاد کی سند خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کی تائید فرمائی۔اس سے اندازہ لگائیں کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کتنےعظیم المرتبت مجتہد وفقیہ تھے۔اسی وجہ سے امام ذہبی رحمہ اللہ ان کا تذکرہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں
کان من نجباء الصحابۃ وفقہائہم
(تذکرۃ الحفاظ: ج1ص19رقم الترجمہ8)
ترجمہ:حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فقہاء اور اونچے درجہ کے صحابہ کرام میں سے تھے۔
وفات حسرت آیات:
18ھ میں 36سال کی انتہائی کم عمر میں فقہ واجتہاد کایہ نامور سپوت دنیا فانی چھوڑ کر دنیا باقی کی طرف رخصت ہو گیا۔ فرضی اللہ عنہ وبحقہ عنا،آمین بجاہ النبی الکریم