حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تذکرۃ المحدثین
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
مولانا محمد اکمل راجنپوری حفظہ اللہ
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فضل وکمال کے اعتبار سے اپنے زمانے کے صف اول کے علماء میں سے تھے جن کی ذات گرامی ایسا صحیفہ تھی جس میں تمام علوم ومعارف جمع تھے۔ قرآن ،تفسیر،حدیث،فقہ،ادب،شعر وشاعری، فرائض اور مغازی وغیرہ۔ کوئی ایسا علم نہ تھا جس میں سے اللہ تعالیٰ نے ان کو حظِ وافر عطاء نہ فرمایا ہو،بالخصوص کلام اللہ کی تفسیر وتاویل میں جو مہارت اور آیاتِ قرآنی کے شانِ نزول اور ناسخ ومنسوخ کے علم میں جو وسعت اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطافرمائی تھی شاید کسی کے حصہ میں آئی ہو۔
فہم قرآن اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما:
چنانچہ ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حلقۂ مجلس میں بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہ موجود تھے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی تشریف فرما تھے۔حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس آیت کا مطلب پوچھا:
”أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ“
[البقرۃ:266]
تو لوگوں نے کہا :واللہ اعلم۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس بے معنیٰ جواب پر غصہ آگیا ،بولے: اگر معلوم نہیں تو صاف کہہ دو کہ ہمیں علم نہیں۔ اسی اثناء میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جھجکتے ہوئے بولے:میں کچھ عرض کرنا چاہتاہوں۔ فرمایا: تم اپنے آپ کو چھوٹا نہ سمجھو، جو دل میں ہو بیان کرو۔ فرمایا کہ اس میں عمل کی مثال دی گئی ہے۔
(صحیح البخاری :کتاب التفسیر باب قولہ أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے فہم قرآن کا اعتراف:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نعم ترجمان القرآن ابن عباس
(الاصابہ:ج2ص1070،المعجم الکبیر للطبرانی رقم الحدیث11108)
ترجمہ:عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما قرآن کےبہت اچھے ترجمان ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے آیت
Īكَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَاĨ
[الانبیاء:30]
کا مطلب پوچھا۔ انہوں نے (امتحان کی غرض سے) حضرت ا بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بھیج دیا کہ ان سے پوچھو، پھر مجھے بھی بتانا۔ اس نے جاکر پوچھا تو حضرت ا بن عباس رضی اللہ عنہما نےفرمایا: آسمان کا” فتق“ یہ ہے کہ پانی نہ برسائے اور زمین کا ” فتق“ یہ ہے کہ نباتات نہ اگائے۔سائل نے واپس آکر یہ جواب حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو بتایا تو انہوں نے کہا:
لقد أوتي بن عباس علما صدقا هكذا لقد كنت أقول ما يعجبني جرأة بن عباس على تفسير القرآن فالآن قد علمت أنه قد أوتي علما
(الاصابہ:ج2ص1077)
ترجمہ:ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سچا علم عطا ہوا ہے۔مجھ کو تفسیر قرآن میں ان کی دلیری پر حیرت ہوتی تھی ،لیکن اب معلوم ہوا کہ درحقیقت علم ان ہی کا حصہ ہے۔
عمیر بن بشر الخثعمی فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نےحضرت ابن عمر رضی اللہ عنہماسےکسی آیت کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے فرمایا :
سل ابن عباس فإنه أعلم من بقي بما أنزل الله على محمد
(الاصابہ: ج2ص1077)
ترجمہ:عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھو، اس لیے کہ قرآن کے جاننے والےجتنے لوگ باقی رہ گئے ہیں ،ان میں سب سے زیادہ معلومات وہی رکھتے ہیں۔
علم حدیث:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا شمار ان مخصوص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتاہے جو علمِ حدیث کے سلاطین سمجھے جاتے ہیں۔ اگر حدیث کی کتابوں سے ان کی روایات الگ کرلی جائیں تو ان کے بہت سے اوراق سادہ رہ جائیں گے۔
کثرتِ روایات کا سبب:
روایات کی کثرت ان کی محنت،جستجواور ذوقِ علم کا نتیجہ ہے۔ بہت سی روایات براہِ راست خود زبان نبوت سے سنی ہیں۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دار الفنا سے دارالبقا کی طرف انتقال فرمایا اس وقت آپ کی عمر 13برس تھی۔
(الاصابہ:ج2ص1074)
آپ خود فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو میں نے ایک انصاری نوجوان کو بلایا کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کثیر تعداد ابھی موجود ہے ہم ان سے علم حاصل کرلیں۔انصاری نوجوان نے کہا:مجھے آپ پر حیرت ہوتی ہے،آپ دیکھ رہے ہیں کہ لوگ علم میں آپ کے محتاج ہیں، پھر آپ دوسروں کے پاس جاتے ہیں۔یہ جواب سن کرمیں نے اس کو چھوڑ دیا اور جہاں کہیں پتہ چلتا کہ فلاں شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنی ہے تو تنہا اس کے دولت خانے پر جاتا، اگروہ اس وقت قیلولہ کر رہا ہوتا تو اپنی چادر کو اس کے دروازپر بچھاتا ، ہوا مجھ پر مٹی ڈالتی رہتی تھی۔ جب وہ باہر تشریف لاتے اور مجھےدیکھتے تو کہتے: اے حضور کے چچا زاد بھائی!آپ نے کیوں مشقت اٹھائی، کسی اورکو بھیج دیا ہوتا۔ تومیں کہتا: نہیں، یہ میرا فرض تھا۔میں اس سے حدیث کے بارے میں پوچھتا(اس طریقہ سے عرب کے گوشہ گوشہ سے ایک ایک دانہ چن کر علم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جمع کیا، جب ان کے فضل وکما ل کا چرچا زیادہ ہوا)تو اس وقت وہ انصاری نوجوان حیات تھا۔ اس وقت اس نے مجھ کو دیکھا کہ لوگ میرے ارد گرد جمع ہیں اور مجھ سے سوال کر رہے ہیں اور علم حاصل کررہے ہیں تو اس وقت اس نے (مارے ندامت کے )کہا :
ہذا الفتی کان اعقل منی
(جامع السنن والمسانید لابن کثیر:ج10ص30)
کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مجھ سے زیادہ عقل مند تھے۔
حضرت ابوسلمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ا بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ جس شخص کے متعلق مجھے پتہ چلتا کہ اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنی ہے تو میں خود اس کے مکان پر جاکر حاصل کرتا۔
(تذکرۃ الحفاظ ج1ص5)
اسی تلاش اور جستجو نے آپ کو اقوال و افعال نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا حافظ بنادیا۔ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم جو عمر اور مرتبہ میں آپ سےبڑے تھے، آپ کےعلمی مقام کے معترف تھےمثلاًحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما یہ فتویٰ دیتے تھے حائضہ عورت طواف رخصت کیے بغیر لوٹ جائے۔ حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو انہوں نے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ یہ فتویٰ دیتے ہیں۔ انہوں نےہاں میں جواب دیا تو حضرت زید نے فرمایا:یہ فتویٰ نہ دیا کرو۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں یہی فتویٰ دوں گا ،اگر آپ کو شک ہے تو فلاں انصاریہ سے پوچھ لو۔حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ صحیح نکلا۔ہنستے ہوئے واپس آئے اور فرمایا کہ آپ نے سچ کہا تھا۔
(مسند احمد ج1ص226)
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مُحرم کے سر دھونے کے بارے میں اختلاف ہوا۔ابن عباس رضی اللہ عنہما قائل تھے اورحضرت مسور بن مخرمہ قائل نہ تھے۔تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے اس مسئلہ کے تحقیق کرائی۔ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تائید کرتے ہوئے عملاً نقشہ کھینچ کر بتادیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حالتِ احرام میں اس طرح سر مبارک دھویا کرتے تھے۔
(سنن ابی داؤد: کتاب المناسک)
احتیاط فی الحدیث:
زیادہ احادیث بیان کرنے والے راویوں کے متعلق یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ وہ روایت کرنے میں احتیاط نہیں کرتے، بلکہ ہر طرح کی روایت لے لیتے ہیں، لیکن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ذات گرامی اس طرح کے شکوک وشبہات سے منزہ تھی۔آپ حدیث نبوی بیان کرتے وقت بہت احتیاط کرتے تھے کہ کہیں غلط بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہوجائے۔ اگر کسی موقع پر کوئی خفیف سا بھی شبہ اور خطرہ ہوتا تو اس بات کو بیان نہ کرتے۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہم اس وقت تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے تھے جب تک جھوٹ کا خطرہ نہ تھا، لیکن جب سے لوگوں ہر قسم کی روایات بیان کرنا شروع کیں تو اس وقت سے ہم نے روایت کرنا ہی چھوڑ دیا۔
(مسند الدارمی: باب فی الحدیث عن الثقات)
حلقہ درس:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا حلقۂدرس بہت وسیع تھا، سینکڑوں طلبگار روزانہ ان کے چشمۂ علم وعمل سے سیراب ہوتے تھے ،گویا کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کررکھی تھی،ایک حصہ تحصیلِ علم اور دوسرا حصہ درس وتدریس اور اشاعتِ دینِ متین کے لیے وقف کر رکھا تھا۔کبھی کوئی سائل ان کے چشمۂ فیض سے ناکام واپس نہ ہوا۔اس عام فیض کے علاوہ بعض مجلسیں خصوصیت کے ساتھ درس وتدریس اور علمی مذاکروں کے لیے مخصوص تھیں اور ان میں باقاعدہ ہر علم وفن کی جدا جدا تعلیم ہوا کرتی تھی۔
اس علم وعمل کے پیکر کا فیض حضرمیں نہیں بلکہ سفر وحضر میں دونوں میں یکساں جاری رہتا تھا۔ چنانچہ جب چند دنوں کے لیے حج کی غرض سے مکہ مکرمہ تشریف لے جاتے تھے اس وقت بھی ان کی قیام گاہ متلاشیانِ علم کی درسگاہ بن جاتی
(الاستیعاب ج1ص353)
آپ کا فقہ میں مقام:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ترجمان القرآن اور محدث ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم فقیہ بھی تھے۔ آپ نے مکہ مکرمہ میں فقہ کی بنیاد رکھی۔آپ کی فقہ دانی کا سرسری اندازہ اس سے ہوسکتا ہےکہ ابوبکر محمد بن موسیٰ جو اپنے زمانے کے امام تھے، انہوں نے آپ کے فتاویٰ جات 20جلدوں میں جمع کیے تھے۔
(اعلام الموقعین ج1ص12)
علم الفرائض میں منفرد مقام:
آپ رضی اللہ عنہ علم الفرائض میں اگرچہ حضرت معاذ بن جبل،زید بن ثابت اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے ہم پلہ نہ تھے لیکن عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں آپ اس فن میں ممتاز درجہ رکھتے تھے۔
(اسد الغابہ: ج3ص97)
قوتِ مناظرہ:
آپ رضی اللہ عنہما بلند پایہ مناظر بھی تھے۔چنانچہ جب خارجیوں نے فتنہ کھڑا کیا اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے جدا ہونے کے بعد آپ پر طرح طرح کے الزام لگا رہے تھے تو آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکو ان کے ساتھ مباحثہ و مناظرہ کےلیے منتخب فرمایا۔اس قوت حضرت ا بن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے مباحثہ و مناظرہ کرتے ہوئے ان کے الزامات اور شبہات کے ایسے مدلل جوابات دئیے کہ ان کی عقلیں دنگ رہ گئیں۔ اسی دوران بیس ہزار خارجیوں نے توبہ کی اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی حمایت کا اعلان کیا۔
تعداد مرویات :
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی کل مرویات کی تعداد سولہ سو ساٹھ(1660) ہیں جن میں سے پچہتر(75)بخاری و مسلم دونوں میں ہیں۔ جو روایات صرف بخاری میں ہیں ان کی تعداد ایک سو بیس (120) اور جو صرف مسلم میں ہیں ان کی تعداد نو(9) ہے۔
(سیر اعلام النبلاء ج:4ص:180)
تدفین اور نماز جنازہ :
آخر کار علم و عمل کا یہ پیکر،حبر الامۃ، ابن عم رسول سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما 68 ھجری دار فانی سے دارِ باقی کی طرف تشریف لے گئے۔ سید نا علی المرتضی ٰ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادےحضرت محمد بن حنیفہ رحمہ اللہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور تدفین کے بعد فرمایا
”الیوم مات ربانی ھذہ الامۃ“
(سیر اعلام النبلاء ج:4 ص:180)
کہ آج اس امت کا ایک عالمِ ربانی دنیا سے رخصت ہو گیا۔