فتاویٰ عالمگیری

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تعارف کتب فقہ
حصہ دوم
فتاویٰ عالمگیری
مولانا محمد یوسف حفظہ اللہ
ہندو راجاؤں کا شہنشاہ جلال الدین اکبر م1014ھ سے یہ یارانہ اور اکبر کی ان کے بارے میں حد سے بڑھی ہوئی رواداری ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی ترقی میں زبردست رکاوٹ ثابت ہوئی اور رفتہ رفتہ اکبر جیسے کم اندیش بادشاہ نے ان نئے اثرات کو قبول کرلیاجو اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی تھے۔ انہی زہریلے اثرات کا نتیجہ تھا کہ اکبر نے ایسے ایسے قانون وضع کیے جو مسلمانوں کی دل آزاری کا باعث بنے۔پھر مسلم ہندو اتحاد کی پالیسی اپنا کردینِ الہٰی کے نام پر ایک نئے مذہب کی داغ بیل ڈالی۔اس کے علاوہ متعدد ایسے احکامات واصلاحات نافذ کیے جن سے اسلام کی تعلیمات بھی مجروح ہوئیں اور مسلمانوں کی وحدت بھی پارہ پارہ ہوئی۔اکبر کی ان غلط پالیسیوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ مسلمانوں میں مشرکانہ رسم ورواج سرایت کرتے گئے،بدعات و کفر کو تقویت ملی۔مسلمان عورتیں علانیہ ہندو اپنے قبضےمیں رکھتے اور مسلمان بے بس نظر آتے تھے۔ اسلامی تعلیمات اور شعائر کا کھلم کھلا مذاق اڑایا جاتا۔
مگر اس سب کے باوجود ان سنگین حالات میں بھی مسلمانوں کا حساس اور خدا ترس طبقہ خاموش نہ تھا۔ چنانچہ اکبر کے آخری دور میں علامہ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے اپنی تحریک احیاءِ اسلام شروع کی اور آپ ہی نے یہ نعرہ بلند کیا :”اسلام اسلام است وکفر کفر است“۔دوسرے لفظوں میں آپ نے ہندو اور مسلمانوں کی مخلوط قومیت کی شدید مخالفت کی، جس کی وجہ سے آپ کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مگرآپ کی پرخلوص اور بے لوث محنت کی برکت سے تحریک احیاءِ اسلام روز افزوں عوام میں مقبول ہوتی چلی گئی۔جس کا ثمرہ یہ برآمد ہوا کہ خود بادشاہِ وقت جہانگیر کو باوجود آزاد خیال ہونے کے شہنشاہ اکبر کویہ پالیسی ترک کرنا پڑی اور چند ایسی اصلاحات کرنا پڑیں جو کسی حد تک کفر وشرک کی قوت کو توڑنے والی تھیں۔
اس کے بعد جہانگیر کے بیٹے شاہجہان کا دور اقتدار آیا۔ یہ دور بنسبت پہلے ادوار کے مسلمانوں کے حق میں سود مند ثابت ہوا۔چنانچہ شاہجہان کی کامیابی اور اس کے مختلف اقدامات سے ہندوؤں کے اثرات کو نقصان پہنچا۔ اس نے نئے مندروں کی تعمیرکو رکوا دیا۔ان ہندو امراء کوجن کے قبضہ میں مسلمان عورتیں تھیں، حکم دیا کہ وہ مسلمان ہوجائیں یا عورتوں کو آزاد کردیں، جن مقامات پر نماز باجماعت نہ ہوسکتی تھی وہاں رکاوٹوں کو دور کرکے نماز باجماعت کا انتظام کیا۔اس طرح شاہجہان کے دور میں کفرو شرک کی طاقت کو اچھا خاصا نقصان پہنچا اور مسلمانوں کا بکھرا ہوا شیرازہ مجتمع ہونا شروع ہوا۔لیکن شاہجہان کے عہد کے آخر میں داراشکوہ (عالمگیر کا بڑا بھائی)جیسے شہزادے کی موجودگی سے آئندہ کے لیے سخت خطرہ پیدا ہوگیا تھا کیونکہ شہزادہ مذکوراپنی عیاشی اور دیگر دلچسپیوں کی وجہ سے ہندو نواز تھا۔عالمگیر کے ”دارا“ سے اختلاف کی وجہ بھی یہی تھی۔جیسا کہ ماٰثر عالمگیری کے مصنف نے تحریر کیا ہے :”دارا شکوہ کے اطوار وعادات میں جو ادا سب سے زیادہ عالمگیر کو ناپسند تھی وہ شہزادہ مذکور کی ہندو پرست طبیعت تھی“ جبکہ عالمگیر کی طبیعت یکسر مختلف تھی کہ آپ اوائل زندگی ہی سے قول وعمل، افعال وکردار،دلچسپیوں اور معاملات کے ہر پہلو سے اسلامی تصورات اور عقائد کے پابند تھے۔آپ کے قول وعمل میں ہم آہنگی تھی۔ اسی وجہ سے مسلمانوں کا سوادِ اعظم آپ کی دیانت، صداقت اور صلاحیت پر اعتماد کرتا تھا اور انہیں یہ یقین تھا کہ عالمگیر کے کامیاب ہوجانے پر اسلام کا احیاء ممکن ہوسکے گا۔چنانچہ عامۃ المسلمین کے بھرپور تعاون کی بدولت عالمگیر کو اپنے بھائی دارا کے مقابلہ میں کامیابی ہوئی اور وہ ہندوستان کا حکمران ہوا۔
فتاویٰ عالمگیری کی تدوین کی ضرورت:
عالمگیر کی اصلاحات سے حکومت کے ڈھانچے میں اسلامی تصورات کو بہت کچھ عمل دخل ہوچکا تھا، لیکن حکومت کا سب سے بنیادی اور اہم مسئلہ اس کے عدلیہ کے قوانین ہوتے ہیں، کیوں کہ یہ روز مرہ کی زندگی اور معاملات کو کنٹرول کرتے ہیں اور بہت ہی دور رس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔عالمگیر کی دلی خواہش یہ تھی کہ اپنی رعایا کو شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کرے اور اسی بات کے خواہاں اور آرزومند ہندوستان کے مسلمان تھے۔ چنانچہ اپنی رعایا کے نیک جذبات اور اپنی قلبی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے عالمگیر نے اس دور کے جید علمائے کرام اور مستند فقہائے کرام کا ایک بورڈ تشکیل دیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ سب مل کر کامل تحقیق اور پوری عرق ریزی سے تمام کتب فقہ کو کھنگال کر ایک ایسی جامع کتاب مرتب کریں جو اپنے موضوع پر انسائیکلوپیڈیاہو، جس کے تمام مسائل مفتیٰ بہ مستند اور مضبوط ہوں تاکہ فتویٰ جاری کرنے کے باب میں قاضی حضرات اور مفتیان کرام اس موضوع سے متعلق تمام کتب اور مختلف ذخائر فقہ سے بے نیاز ہوجائیں۔اس مہم کو کامیابی سے سرانجام دینے کے لیے بادشاہ وقت نے اس کے اہتمام اور نگرانی کی تمام تر ذمہ داریاں شیخ نظام الدین برہان پوری علیہ الرحمۃ کے سپرد کیں، جو ظاہری وباطنی خوبیوں سے آراستہ تھے۔چنانچہ شیخ نظام الدین کی زیرنگرانی اہل فضل ودانش نے کمر ہمت باندھ لی اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مسائل فقہیہ کی جمع وتالیف میں مشغول ہوگئے۔اس سلسلے میں ان کے لیے معقول وظائف اور مناسب عطیات کا بھی بہترین انتظام کردیاگیا تاکہ یہ حضرات فکر معاش سے بےپرواہ ہوکر کامل یکسوئی کے ساتھ اس اہم ترین ہدف کو پورا کرسکیں۔ ہر سال سرکاری خزانے سے اس کار خیر کے لیے ایک کثیر رقم عطا کی جاتی۔سرسری اندازہ کے مطابق اس کام پر دولاکھ روپے (اس زمانے کے اعتبار سے)خرچ ہوئے۔بالآخر وہ پاکیزہ نفوس اپنی نیک نیتی،بے لوث قربانی،خلوص اور انتھک محنت کی بدولت ایک ایسا مجموعہ تیارکرنے میں کامیاب ہوگئے جو یقیناًاپنی مثال آپ تھا۔
( جاری ہے)