کیا یہی آزادی ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
کیا یہی آزادی ہے؟
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
ایک بار پھر پورے عالمِ اسلام کو ایک دلآزار فلم نےسراپا احتجاج بنا دیا۔ دنیا بھر کے مسلمان اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں جو ایک طرف آزادی رائے کا نعرہ لگانے والے ان وحشیوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے جو آئے روز اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس پر حملہ آور ہوتے ہیں اور دوسری طرف یہی مظاہرے مسلمانوں کے ایمانی جذبات کا مظہر ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان خواہ وہ کسی بھی علاقہ سے تعلق رکھتا ہو،جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شانِ اقدس میں کسی قسم کی گستاخی کو برداشت نہیں کر سکتا۔
نائن الیون کی گیارھویں برسی کے موقع پر جاری ہونے والی اس گستاخانہ فلم Innocence Of Muslims [مسلمانوں کی معصومیت] کا رائٹر اور پروڈیوسر امریکی ریاست کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والا ایک امریکی یہودی سام باسل ہے۔52 سالہ اس ملعون کا کہنا ہے: ”میری یہ فلم ایک سیاسی فلم ہے، جو اسلام اور مسلمانوں کے منافقانہ چہرے کو بے نقاب کرتی ہے[معاذ اللہ]، اسلام ایک سرطان ہے جس کے خلاف ہمیں اپنی بساط کے مطابق کوشش کرنی چاہیے۔“
اسلام کے خلاف یہ زہریلی زبان اور انتہائی نفرفت انگیز جذبات کا سلسلہ عرصہ درازسے جاری ہے۔ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کے خلاف جاری ہونے والی جنگوں کو امریکی صدر نے ”صلیبی جنگوں“ کا نام دیا، ڈنمارک کے ایک ملعون نے گستاخانہ خاکے شائع کر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا، ایک عیسائی پادری ٹیرف جونز نے قرآن مجید کو ایک بناوٹی عدالت میں بطور مجرم کھڑا کر کے سزا سنائی جسے ایک اور ملعون نے یوں پورا کیا کہ قرآن مجید کو جلا ڈالا، فلم Messageمیں مسلمانوں کی قابل قدر شخصیات کو سکرین پر فلما کر توہین آمیز جملے ان کی شان میں کہے گئے،قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے خلاف توہین انگیز تحریرات لکھی گئیں،سلمان رشدی جیسے ملعون شاتمِ رسول کو وائٹ ہاوس بلوا کر خصوصی پروٹوکول سے نوازا گیا اور اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ توہین آمیز فلم ہے۔جب ان شر انگیز سلسلہ وار اقدامات پر نطر ڈالی جاتی ہے توہر کڑی کے پیچھے مغربی لابی کار فرما نظر آتی ہے جو آزادی رائے کے نام پر دوسروں کی دل آزاری پر تلی ہے، جن کے نزدیک بے حمیتی، بے غیرتی اور بزدلی کو تحمل، برداشت اور احترامِ رائے کے معنی پہنائے گئے ہیں، جن کے ہاں غیرت و حمیت اور خود مختاری کو انتہاء پسندی اور بنیاد پرستی کا نام دیا جاتا ہے۔
ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسا کوئی سنجیدہ و مؤثر قدم اٹھایا جائےجس کی وجہ سے آئے روز مسلمانوں کی دل آزاری نہ ہو،خود ساختہ آزادی رائے کا یوں بے دریغ استعمال نہ کیا جائےجو عالم میں اشتعال انگیزی کا سبب نہ بنے۔مسلم حکمرانوں کو چاہیے کہ اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کریں۔ نیز اقوامِ متحدہ کو اس سلسلہ میں کوئی ٹھوس اور مؤثر قدم اٹھانا چاہیےجس سے انسانیت کے عظیم معلمین حضرات انبیاء کرام علیہم السلام خصوصاً خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی حفاظت ایک بین الاقوامی قانون بن جائےجس سے ان برگزیدہ ہستیوں کی ناموس پر کیچڑ اچھالنے والوں کو عبرت ناک سزا دی جا سکے۔