روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرعی حکم

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرعی حکم
مولانا محمد ارشد سجاد
مکہ مکرمہ کی حاضری اور حج کے ارکان ادا کرنے کے سے حج مکمل ہوجاتا ہے مکہ مکرمہ کی حاضری کے ساتھ ساتھ اگر مدینہ منورہ حاضری نہ ہو تو گویا یہ سفر نا تمام اور نامکمل رہتا ہے۔ کیونکہ مکہ مکرمہ کی حاضری سے عبادت کی تکمیل جبکہ مدینہ منورہ کی حاضری سے عشق ومحبت کی تکمیل ہوتی ہے۔ حج کے ا بتدائی دنوں میں جانے والے حجاج کرام کو اکثر وبیشتر پہلےمدینہ طیبہ بھیج دیا جاتا ہے۔ایسے حجاج کرام کے لئے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”میرے نزدیک اور علماء کے ایک گروہ کے نزدیک پہلے مدینہ منورہ جانا افضل ہے :
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا۔
ہمارے آقانامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام امت بلکہ تمام عالم کے لئے رحمت ہیں۔آپ کے پاس حاضری د ے کر عرض کرو: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم حاضر ہوئے ہیں۔ ہمارے لئے حج کی قبولیت کی دعا فرمائیے، شفاعت فرمائیے۔ پھرجناب باری سبحانہ کے گھر کی طرف لوٹا جائے تاکہ آپ کے وسیلہ سے اللہ پاک حج کی اس عاشقانہ عبادت کو قبول فرمائے۔“
[معارف حضرت مدنی: ص575]
مدنیہ منورہ جانا محض ایک سفر ہی نہیں بلکہ ایک اہم عبادت بھی ہے۔ لہذا اس مبارک سفر کے دوران سید الانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کی زیارت کی نیت کرنی چاہیے۔ علماءِ امت نے اسے جائز بلکہ مستحب لکھا ہے:
1: شارح مسلم امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
اذاانصرف الحجاج والمعتمرون من مکۃ فلیتوجھو ا الی مدینۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لزیارۃتربتہ صلی اللہ علیہ وسلم فانہا من اھم القربات و انجح المساعی۔
[الایضاح ص 447]
ترجمہ: جب حج اور عمرہ کرنے والے مکہ سے لوٹیں تو نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کے لئے مدینۃالرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر کریں کیونکہ یہ تقرب کے ذرائع میں سے اہم ذریعہ اور کامیابی کی کوششوں میں سے اہم ترین کوشش ہے۔
2 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
من زار قبری وجبت لہ شفاعتی
[سنن دار قطنی ج2ص278]
ترجمہ:جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔
اس حدیث کے تحت علامہ ابن حجر مکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ثم یشمل زیارتہ صلی اللہ علیہ وسلم حیا ومیتاً ویشمل للذکر والانثیٰ الاتی فمن قرب او بعد فیستدل بہ علی فضیلۃ شد الرحال لذالک وندب السفر للزیارۃ اذ للوسائل حکم المقاصد۔
[حاشیہ علی الایضاح ص481]
ترجمہ: یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور موت کے بعد دونوں حالتوں کی زیارت کو شامل ہے۔نیز یہ حدیث قریب و بعید کے ہر زائر کو شامل ہے خواہ وہ مرد ہو یاعورت۔یہ حدیث نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی طرف سفر کرنے کی فضیلت اور اس کے مستحب ہونے پردلالت کرتی ہے، اس لیے کہ وسائل کا حکم مقاصد والا ہوتاہے۔
3: فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
قال مَشَايِخُنَا رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى إنَّهَا أَفْضَلُ الْمَنْدُوبَاتِ وفي مَنَاسِكِ الْفَارِسِيِّ وَشَرْحِ الْمُخْتَارِ أنها قَرِيبَةٌ من الْوُجُوبِ لِمَنْ له سَعَةٌ وَالْحَجُّ إنْ كان فَرْضًا فَالْأَحْسَنُ أَنْ يَبْدَأَ بِهِ ثُمَّ يُثَنِّيَ بِالزِّيَارَةِ وَإِنْ كان نَفْلًا كان بِالْخِيَارِ فإذا نَوَى زِيَارَةَ الْقَبْرِ فَلْيَنْوِ معه زِيَارَةَ مَسْجِدِ رسول اللَّهِ صلى اللَّهُ عليه وسلم
[ ج1ص291]
ترجمہ: ہمارے مشائخ نے فرمایا: نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت افضل مستحب ہے۔مناسکِ فارسی اور شرح محتار میں ہے: جس میں ہمت ہو اس کے لیے وجوب کے قریب ہے۔ اگر حج فرض ہے تو پہلے حج کرے اوربعد میں زیارت اور اگر حج نفل ہے تو پھر اختیار ہے۔ہاں اگر زائر روضہ رسول کی زیارت کی نیت کرے تو اسے چاہیے کہ مسجد نبوی کی زیارت کی نیت بھی کر لے۔
4: فقہ حنفی کی بے مثال کتاب الدر المختار مع شرح رد المحتار میں لکھا ہے: زیارۃ قبر ہ مندوبۃ باجماع المسلمین کما فی اللباب
[در مختار مع رد المحتار ج4ص63]
ترجمہ:تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت مستحب ہے۔
5: علامہ سمہودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد ثبت خروج النبی صلی اللہ علیہ وسلم وحینئذ فقبرہ صلی اللہ علیہ وسلم اولیٰ قد انعقد الاجماع علی ذالک لاطباق السلف والخلف علیہ
[وفاء الوفاء ج4ص188]
ترجمہ:نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ سے شہداء احد کی قبور کی زیارت کے لیے جانا ثابت ہے۔[ جب قریب سے قبر کی زیارت کےلیے نکلنا جائز ہے تو دور سے بھی جائز ہوگا] اور نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اس کے زیادہ مستحق ہے کہ اس کے لیے سفر کیا جائے اور اس پر سلف وخلف کے اتفاق کی وجہ سے اجماع بھی منعقد ہوچکاہے۔
6: قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”جب مدینہ کا عزم ہو تو بہتر یوں ہے کہ نیت زیارت قبر مطہر کی کرکے جاوے تاکہ مصداق اس حدیث کا ہوجاوے کہ جو کوئی محض میری زیارت کو آوے شفاعت اس کو مجھ پر حق ہوگئی۔“
[زبدۃ المناسک ملحق تالیفات رشیدیہ ص648،649]
7: شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”ہمارے اکابر زیارت مطہرہ کے لیے سفر کرنے کو نہ صرف جائز بلکہ افضل المستحبات اور قریب واجب قرار دیتے ہیں بلکہ محض زیارت کے لیے سفر کرنا جس میں اور کوئی دوسری قربت منوی اور ملحوظ نہ ہو افضل اور اعلیٰ قرار دیتے ہیں“
[نقش حیات ص161]
8: فخر المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
عندنا وعندمشائخنا زیارۃ قبر سیدالمرسلین [روحی فداہ]من اعظم القربات واہم المثوبات وانجح لنیل الدرجات بل قریبۃ من الواجبات
[المہند علی المفند ص34]
ترجمہ:ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک زیارت قبر سیدالمرسلین [میری روح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فداہ ہو]اعلیٰ درجہ کی قربت اور نہایت ثواب اور سبب حصول درجات ہے بلکہ واجب کے قریب ہے۔