فقہ کی اہمیت محدثین کی نظر میں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
آثار التشریع:
فقہ کی اہمیت محدثین کی نظر میں
حضرت مولانا خالد محمود حفظہ اللہ
پی ایچ ڈی لندن
8: حضرت امام احمد رحمہ اللہ (م241ھ)
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
عن الامام احمد قال:اذا کان عندالرجل الکتب المصنفۃ ،فیہا قول الرسول صلی اللہ علیہ وسلم واختلاف الصحابۃ والتابعین فلا یجور ان یعمل بماشاء و یتخیر فیقضی بہ و یعمل بہ حتی یسئل اھل العلم ما یوخذ بہ فیکون یعمل علی امر صحیح۔
اعلام الموقعین جلد 1صفحہ44
ترجمہ : امام احمد سے مروی ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس حدیث کی کتابیں ہوں تو اس کے لئے جائز نہیں کہ جس پر چاہے عمل کر لے اور جو قول چاہے اختیارکرلے اور اس کے مطابق فیصلہ دے جب تک علماء سے نہ پوچھ لے کہ کون سی بات اختیار کرنی ہے۔ اس صورت میں اس کا عمل صحیح طریق پر ہوسکے گا۔
یہاں” اہل علم“ سے کون لوگ مراد ہیں، محمد عوامہ لکھتے ہیں :
لابدّ من سوال اھل العلم وھم اھل الفقہ والمعرفۃ ھل یوخذ بہذا الحدیث اولا۔
اثر الحدیث الشریف صفحہ71
ترجمہ: اہل علم سے مراد اہل فقہ ہیں وہی بتا سکتےہیں کہ اس حدیث پر عمل کیا جائے گا یا نہ
9:امام شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد امام مزنی رحمہ اللہ جو امام طحاوی رحمہ اللہ کے استاد اور ماموں تھے فرماتے ہیں:
فانظروا- رحمکم اللہ- علی ما احادیثکم التی جمعتموھا واطلبواالعلم عند اھل الفقہ تکونوا فقھاء۔
الفقیہ والمتفقہ جلد 2 صفحہ15
ترجمہ : اللہ تم پر رحم کرے ،ان احادیث پر جو تم نے جمع کیں نظر رکھو اور علم اہل ِفقہ سے حاصل کرو۔ تم خود بھی فقہاء بن جاؤگے۔
10: پہلے دنوں وہ اہلِ علم جن کی بات سند سمجھی جائے ”فقہاء“ کہلاتے تھے۔ ابن جریج رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں مجھے ابن ابی لیلیٰ[م148ھ] نے ایک مسئلہ سنایا :
عن ابن جریج قال قال لی ابن ابی لیلیٰ عن قفہائھم لسید العبد مااصدقھا غلامہ یاخذہ منھا عجلت قبل ان تعلم۔
مصنف عبد الرزاق: ج7، ص262
[ترجمہ: ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ہمارے فقہاء نے یہ مسئلہ بتایا: ایک غلام اپنے آپ کو آزاد ظاہر کر کے کسی عورت سے نکاح کرے اور مہر میں اپنےآقا کا مال دے تو آقا کو اختیار ہو گا چاہے تو وہ مال جوغلام نے عورت کو مہر کے طور پر دیا ہے اے عورت سے لے لے، کیونکہ عورت نے غلام کی حالت جانے بغیر نکاح کرنے میں جلدی کی]
11: امام ترمذی رحمہ اللہ (م279ھ ) ایک بحث میں لکھتے ہیں:
وکذلک قال الفقہاء وھم اعلم بمعانی الحدیث۔
جامع ترمذی جلد 1 صفحہ118
ترجمہ: اور یہی بات فقہاء نے کہی ہے اور فقہاء ہی حدیث کے معنی بہتر جانتے ہیں۔
12: حضرت ابو بکر بن عیاش رحمہ اللہ صحیح بخاری کے راوی ہیں
(دیکھئے جلد 2صفحہ 725)
علم کا آخری فیصلہ آپ کے ہاں فقیہ کا فیصلہ ہے جب تک کسی مسئلہ پر فقیہ کا عمل نہ ہو وہ مسئلہ ہی نہیں۔ آپ ایک مقام پر کہتے ہیں :
مارایت فقیھا قط یفعلہ
طحاوی جلد 1 صفحہ112
ترجمہ: میں نے کسی فقیہ کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔
13: حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (852ھ)لکھتے ہیں :
فان علم الحلال والحرام انما یتلقی من الفقھاء
فتح الباری جلد 9 صفحہ31
ترجمہ: سو حلال و حرام کا علم فقہاء سے ہی حاصل کیا جاتا ہے۔
14: حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ(795ھ) اپنے رسالہ الطیبۃ النافعۃ میں لکھتے ہیں:
اما الائمۃ و فقہا ء اھل الحدیث فانھم یتبعون الحدیث الصحیح حیث کان اذا کان معمولاً بہ عندالصحابۃ ومن بعدھم او عند طائفۃ منہم فاما مااتفق علیٰ ترکہ فلا یجوز العمل بہ لا نہم ما ترکوہ الا علیٰ علم انہ لا یعمل بہ، قال عمر بن عبدالعزیز: خذوامن ای ما کان یوافق قبلکم فانہم کانوااعلم منکم۔
فضل علم السلف علم الخلف صفحہ9
ترجمہ: ائمہ اور فقہاء اہل حدیث حدیث صحیح کی پیروی کرتے ہیں،وہ جہاں بھی ہو بشرطیکہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین کے ہاں یا ان کے کسی ایک حلقے میں معمول بہ رہی ہو لیکن جب اسے سب نے چھوڑ رکھا ہو تو اس پر عمل کرنا جائز نہیں۔ ان حضرات نے اسے کسی علم کی بناء پر ہی چھوڑا ہوگا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ کہتے ہیں کہیں سے حدیث لو بشرطیکہ وہ تم سے پہلے لوگوں میں قبول کی گئی ہو وہ بے شک تم سے زیادہ جاننے والے تھے۔
15: علامہ سیوطی رحمہ اللہ الحاوی میں لکھتے ہیں :
قالت الاقد مون:المحدث بلافقہ کعطار غیر طبیب فالادویۃ حاصلۃ فی دکانہ ولا یدری لماذایصلح والفقیہ بلا حدیث کطبیب لیس بعطار یعرف ماتصلح لہ الادویۃ الا انھا لیست عندہ۔
الحاوی جلد 2صفحہ 398
ترجمہ: پہلے اہل علم نے کہا ہے وہ محدث جو فقہ نہ جانتا ہو اس عطار کی طر ح ہے جو طبیب (ڈاکٹر) نہ ہو سب دوائیں اس کی دکان میں موجود ہوتی ہیں اور وہ نہیں جانتا کہ وہ کس مرض کا علاج ہیں اور فقیہ بلاحدیث اسی طرح ہے جیسے وہ طبیب جو جانتا تو ہے کہ یہ دوائیں کس مرض کی ہیں مگر وہ رکھتا نہیں۔
ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فقہ اور حدیث میں کوئی تضاد نہیں ،فقہ حدیث کا غیر نہیں ،حدیث قالب ہے اور فقہ روح ہے - فقہاءنے کبھی قیاس اور استنباط کو نص پر مقدم نہیں کیا۔نا مناسب نہ ہوگا کہ ہم یہاں اپنے ایک مضمون الموافقہ بین الحدیث والفقہ بھی ہدیہ قارئین کردیں۔ مضمون کی مناسبت سے اگر کوئی بات دوبارہ آجائے تو اس سے درگزر فرمائیں۔