فجر کی جماعت کھڑی ہو جائے تو سنتیں ادا کرنا

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 

>

فجر کی جماعت کھڑی ہو جائے تو سنتیں ادا کرنا
مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
سوال: میرے ایک دوست نے جو اپنے آپ کو اہلحدیث کہتے ہیں، ایک دن مجھے کہا: آپ لوگ جو فجر کی جماعت کھڑی ہونےکے وقت سنتیں ادا کرنے لگتے ہو یہ حدیث کے خلاف ہے، کیونکہ حدیث میں آتا ہے:
اذا اقیمت الصلاۃ فلا صلاۃ الا المکتوبۃ
(جب اقامت ہو جائے تو فرض کے علاوہ کوئی صلاۃ جائز نہیں)۔ نیز اس نے یہ بھی کہا : اس حدیث کے آخر میں ”الا رکعتی الفجر“ کا جھوٹا اضافہ کر کے آپ لوگ فجر کی سنتوں کو مستثنیٰ قرار دیتے ہو جو محض ضد وتعصب کا نتیجہ ہے۔اقامت کے بعد اور تکبیر تحریمہ کے بعد مسجد میں جلدی جلدی ٹکریں مارنے کا قطعاً کوئی جواز نہیں،جھوٹے اضافہ پر ضد چھوڑیں اور صحیح حدیث پر عمل کریں۔
براہِ کرم اس مسئلہ کو واضح فرمائیں۔
السائل
محمد سعود میمن
کلفٹن۔ کراچی
جواب: حامداً و مصلیاً
اہل السنۃ و الجماعۃ احناف کا موقف یہ ہےکہ اگر کسی شخص کو اطمینان ہےکہ وہ سنتیں ادا کرنے کے بعد جماعت کی دوسری رکعت (بلکہ تشہد میں) مل جائے گاتو اسے چاہیے کہ کسی الگ جگہ مثلاً مسجد سے باہر، مسجد کے صحن میں، کسی ستون وغیرہ کی اوٹ میں، جماعت کی جگہ سے ہٹ کرپہلے سنتیں ادا کرے پھر جماعت میں شریک ہو جائے۔ ہاں اگر یہ خیال ہو کہ سنتیں پڑھنے کی صورت میں جماعت فو ت ہو جائے گی تو سنتیں نہ پڑھے بلکہ جماعت میں شریک ہو جائے۔
[رد المحتار مع الدر المختار:ج2: ص56، 57 وغیرہ]
دلائل:
اس مسئلہ میں دو جہتیں ہیں:
جہت نمبر1:احادیث مبارکہ میں تمام سنتوں میں سب سے زیادہ تاکید فجر کی سنتوں کی وارد ہوئی ہے۔مثلاً
1: عَنْ عَائِشَۃَرضی اللہ عنھا قَالَتْ:لَمْ یَکُنِ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلٰی شَیْئٍ مِنَ النَّوَافِلِ اَشَدَّ تُعَاھَدًا مِنْہُ عَلٰی رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ۔
[صحیح البخاری ج1 ص156باب تعاھد رکعتی الفجر،صحیح مسلم ج1ص251 باب استحباب رکعتی ا لفجر والحث علیھا]
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی نفل [جو فرضوں سے زائد ہوتی ہیں،مراد سنن ہیں] کی اتنی زیادہ پابندی نہیں فرماتے تھے جتنی فجر کی دو رکعتوں کی کرتے تھے۔
2: عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم:لَاتَدَعُوْھُمَا وَاِنْ طَرَدَتْکُمُ الْخَیْلُ۔
[سنن ابی داؤد ج1 ص186 باب فی تخفیفھما،شرح معانی الآثار ج1 ص209باب القرأۃ فی رکعتی الفجر]
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فجر کی دو سنتوں کو نہ چھوڑو خواہ تمہیں گھوڑے روند ڈالیں۔
یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔
[اعلاء السنن ج7 ص105]
جہت نمبر2:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے با جماعت نماز کی بھی بہت تاکید فرمائی ہے۔نیز حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جب جماعت ہو رہی ہو تو اس میں شرکت کی جائے۔
اب ایک شخص ایسے وقت میں آیا کہ فجر کی جماعت کھڑی ہےاور اس نے سنتیں بھی ادا نہیں کیں، تو احناف کا مذکورہ موقف ایسا مستقیم ہے کہ اس سے دونوں فضیلتیں جمع ہو جاتی ہیں یعنی فجر کی سنتوں کا جو تاکیدی حکم ہے اس پر بھی عمل ہو جاتا ہے اورجماعت میں شمولیت کے حکم کی بھی تعمیل ہو جاتی ہے۔ یہ موقف حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے عمل سے ثابت ہے۔
دلائل پیش خدمت ہیں۔
دلیل نمبر1:
عن عبد الله بن أبي موسى قال : جاء ابن مسعود والامام يصلي الصبح فصلى ركعتين إلى سارية ولم يكن صلى ركعتي الفجر۔
(المعجم الکبیر: رقم الحدیث9385)
ترجمہ: عبداللہ بن ابی موسیٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تشریف لائے جبکہ امام نماز پڑھا رہا تھا۔ تو آپ نے ستون کی اوٹ میں دو رکعتیں پڑھیں،آپ نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔
امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ورجاله موثقون[اس کے راوی ثقہ ولائق اعتماد ہیں]
( مجمع الزوائد: رقم الحدیث2392)
دلیل نمبر 2:
مالك بن مغول قال سمعت نافعا يقول : أيقظت بن عمر رضي الله عنهما لصلاة الفجر وقد أقيمت الصلاة فقام فصلى الركعتين۔
(سنن الطحاوی: رقم الحدیث2042)
ترجمہ: مالک بن مغول سے روایت ہے کہ میں نے حضرت نافع سے سنا، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کونماز فجر کے لیے اس وقت بیدار کیا جبکہ نماز کھڑی ہو چکی تھی، آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئےاور پہلے دو رکعت سنت ادا فرمائی۔
اسنادہ صحیح (آثار السنن ص202)
تنبیہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما باوجود اقامت ِنماز ہو جانے کے سنتیں ادا فرما رہے ہیں۔
دلیل نمبر 3:
عن أبى عثمان الأنصاري قال : جاء عبد الله بن عباس والإمام في صلاة الغداة ولم يكن صلى الركعتين فصلى عبد الله بن عباس رضي الله عنهما الركعتين خلف الإمام ثم دخل معهم۔
(سنن الطحاوی: رقم الحدیث2040)
ترجمہ: ابو عثمان انصاری فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تشریف لائے جبکہ امام صبح کی نماز پڑھا رہا تھا۔ آپ نے فجر کی دو سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔ پس آپ نے امام کے پیچھے [جماعت سے ہٹ کر]یہ دو رکعتیں ادا کیں ، پھر ان کے ساتھ جماعت میں شریک ہو گئے۔
اسنادہ صحیح (آثار السنن ص204، اعلاء السنن ج7 ص100)
دلیل نمبر 4:
عن محمد بن كعب قال : خرج عبد الله بن عمر رضي الله عنهما من بيته فأقيمت صلاة الصبح فركع ركعتين قبل أن يدخل المسجد وهو في الطريق ثم دخل المسجد فصلى الصبح مع الناس۔
(سنن الطحاوی: رقم 2041)
ترجمہ:محمد بن کعب فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے گھر سے نکلے، صبح کی نماز ادا ہو رہی تھی۔آپ نے مسجد داخل میں ہونے سے پہلے راستہ ہی میں دو رکعت سنت ادا کی۔ پھر مسجد میں داخل ہوئے اور لوگوں کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔
امام محدث ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اسنادہ حسن(اعلاء السنن ج7 ص102)
دلیل نمبر 5:
عن زيد بن أسلم عن بن عمر رضي الله عنهما : أنه جاء والإمام يصلى الصبح ولم يكن صلى الركعتين قبل صلاة الصبح فصلاهما في حجرة حفصة رضي الله عنها ثم إنه صلى مع الإمام
(سنن الطحاوی: رقم الحدیث2043)
ترجمہ:حضرت زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے جبکہ امام صبح کی نماز پڑھا رہا تھا، آپ نے صبح کی دو سنتیں ادا نہیں کی تھیں، تو آپ نے یہ دو رکعتیں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے گھر ادا کیں پھر امام کے ساتھ جماعت میں آ ملے۔
تنبیہ: حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کا گھر ان دنوں مسجد میں داخل تھا۔
(اعلاء السنن ج7 ص102، 103)
اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔
(اعلاء السنن ج7 ص102)
دلیل نمبر 6:
عن أبى الدرداء : أنه كان يدخل المسجد والناس صفوف في صلاة الفجر فيصلى الركعتين في ناحية المسجد ثم يدخل مع القوم في الصلاة
(سنن الطحاوی: رقم الحدیث2044)
ترجمہ:حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہےکہ جب وہ مسجد میں آتے اور لوگ نماز فجر کی جماعت کی صف میں ہوتے تو یہ مسجد کے کسی گوشہ میں سنتِ فجر پڑھ کر لوگوں کے ساتھ جماعت میں شریک ہو جایا کرتے تھے۔
اسنادہ حسن
(آثار السنن ص203، اعلاء السنن ج7 ص103)
مصنف عبد الرزاق میں یہ الفاظ ہیں:
عَنْ اَبِی الدَّرْدَائِ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ: نَعَمْ، وَاللّٰہِ لَئِنْ دَخَلْتُ وَالنَّاسُ فِی الصَّلٰوۃِ لأَعْمَدَنَّ اِلٰی سَارِیَۃٍ مِنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ ثُمَّ لَاَرْکَعَنَّھُمَا ثُمَّ لَاُکُمِّلَنَّھَمَا ثُمَّ لَااَعْجَلُ عَنْ اَکْمَالِھِمَا ثُمَّ امْشِیْ اِلَی النَّاسِ فَاُصَلِّیْ مَعَ النَّاسِ الصُّبْحَ۔
[مصنف عبد الرزاق ج2 ص294 ، رقم 4033]
ترجمہ : حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہاں اللہ کی قسم !اگر میں ایسے وقت میں(مسجد میں) داخل ہوں جبکہ لوگ جماعت میں ہوں تو میں مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے پیچھے جاکر فجر کی سنتوں کی دو رکعتیں ادا کرونگا، ان کو کامل طریقہ سے ادا کروں گااور ان کو کامل کرنے میں جلدی نہ کروں گا۔ پھر جا کر لوگوں کے ساتھ نماز میں شامل ہو جاؤں گا۔
دلیل نمبر 7:
عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ؛ أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ وَأَبَا مُوسَى خَرَجَا مِنْ عِنْدِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ ، فَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ ، فَرَكَعَ ابْنُ مَسْعُودٍ رَكْعَتَيْنِ ، ثُمَّ دَخَلَ مَعَ الْقَوْمِ فِي الصَّلاَة ، وَأَمَّا أَبُو مُوسَى فَدَخَلَ فِي الصَّفِّ.
(مصنف ابن ابی شیبۃ:رقم6476)
ترجمہ: حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہما حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس سے نکلے تو جماعت کھڑی ہو چکی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دو رکعتیں ادا کیں اور نماز میں کوگوں کے ساتھ آملے جبکہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ دو رکعتیں پڑھے بغیر آ ملے۔ اسنادہ صحیح
(آثار السنن ص203، اعلاء السنن ج7 ص104)
وفیہ ایضاً فی طریق اخری: فجلس عبد الله الى أسطوانة من المسجد فصلى الركعتين ثم دخل في الصلاة۔
(سنن الطحاوی: رقم الحدیث2037،مصنف عبد الرزاق: رقم الحدیث 4034)
ایک طریق میں ہے: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد کے ایک ستون کی اوٹ میں بیٹھ گئے، دو رکعتیں ادا کیں، پھر نماز میں شامل ہو گئے۔
دلیل نمبر 8:
عن أبى عثمان النهدي قال : كنا نأتي عمر بن الخطاب رضي الله عنه قبل أن نصلى ركعتين قبل الصبح وهو في الصلاة فنصلى ركعتين في آخر المسجد ثم ندخل مع القوم في صلاتهم
(سنن الطحاوی: رقم الحدیث2046)
ترجمہ:ابو عثمان النہدی فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے جبکہ آپ نماز پڑھا رہے ہوتے تھے اور ہم نے نماز فجر سے پہلے سنتیں ادا نہ کی ہوتی تھیں، تو ہم پہلے مسجد کے کسی کونہ میں سنتیں ادا کرتے پھر لوگوں کے ساتھ نماز (کی جماعت )میں شریک ہو جاتے تھے۔
اسنادہ حسن(آثار السنن ص204، اعلاء السنن ج7 ص104)
تنبیہ: اس روایت میں ”كنا نأتي “ جمع کا صیغہ دلالت کرتا ہے کہ عہدِ فاروقی میں یہ صورت کثرت سے پیش آتی تھی اور بہت سے حضرات کا عمل اس کے مطابق تھا۔
(نمازِ مدلل از مولانا فیض احمد الملتانی ص208)
دلیل نمبر 9:
عن الشعبي يقول : كان مسروق يجىء الى القوم وهم في الصلاة ولم يكن ركع ركعتي الفجر فيصلى ركعتين في المسجد ثم يدخل مع القوم في صلاتهم
(سنن الطحاوی: رقم الحدیث2048)
ترجمہ:امام شعبی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ امام مسروق (مسجد میں) تشریف لاتے جبکہ لوگ نماز ادا کر رہے ہوتے اور آپ نے صبح کی سنتیں ادا نہ کی ہوتیں تو آپ پہلے دو رکعتیں مسجد میں ادا کرتے، پھرلوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہو جاتے۔
اسنادہ صحیح (آثار السنن ص203، اعلاء السنن ج7 ص105)
دلیل نمبر 10:
عن يزيد بن إبراهيم عن الحسن : أنه كان يقول إذا دخلت المسجد ولم تصل ركعتي الفجر فصلهما وان كان الإمام يصلى ثم ادخل مع الإمام
(سنن الطحاوی: رقم الحدیث2050)
ترجمہ:یزید بن ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تم مسجد میں ایسے وقت میں داخل ہو کہ امام نماز میں ہو اور تم نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں تو پہلے سنتیں پڑھو، پھر امام کے ساتھ شریک ہو جاؤ۔
اسنادہ صحیح (آثار السنن ص204)
و فی لفظ لہ: عن يونس قال : كان الحسن يقول يصليهما في ناحية المسجد ثم يدخل مع القوم في صلاتهم
(سنن الطحاوی: رقم الحدیث2051)
اسنادہ صحیح (آثار السنن ص205، اعلاء السنن ج7 ص105)
ترجمہ:ایک روایت میں یوں ہے :حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وہ شخص(جس نے ابھی سنتِ فجر ادا نہیں کی) ان دو رکعتوں کو مسجد کے کسی کونہ میں پڑھے، پھرلوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہو جائے۔
دلیل نمبر 11:
عن الحارث عن علي قال : كان النبي صلى الله عليه و سلم يصلي الركعتين عند الإقامة
(سنن ابن ماجۃ:رقم الحدیث 1147)
قال الامام المحدث العثمانی:و فیہ الحارث ضعفہ بعضہم و و ثقہ آخرون وہو حسن الحدیث
(اعلاء السنن ج7 ص105)
ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی اقامت کے وقت دو رکعتیں ادا فرماتے تھے۔
تنبیہ: اس میں جواز موجود ہے کہ اقامت کے وقت امام دو رکعتیں ادا کر سکتا ہے، تو مندرجہ بالا آثارِ صحابہ و تابعین اور حدیث ” لَاتَدَعُوْھُمَا وَاِنْ طَرَدَتْکُمُ الْخَیْلُ “ کی وجہ سے مقتدی کے لیے بھی ان دو رکعتوں کا جواز ثابت ہوتا ہے جبکہ صفوفِ جماعت میں مخالط نہ ہو۔
(اعلاء السنن ج7 ص105)
خلاصہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہم، ابو عثمان النہدی، امام مسروق، امام حسن بصری رحمہم اللہ کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں آنے والے شخص نےاگر سنتیں ادا نہیں کیں تو مسجد سے باہر، مسجد کے صحن میں، کسی ستون وغیرہ کی اوٹ میں، جماعت کی جگہ سے ہٹ کرپہلے سنتیں ادا کرے پھر جماعت میں شریک ہو جائے اور یہی احناف کا موقف ہے۔
ان آثار کو ملاحظہ کرنے کے بعداُن صاحب کو غور فرمانا چاہیے کہ یہ جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کیا کسی جھوٹے اضافے پر عامل تھے؟ بقول آپ کے:”اقامت کے بعد اور تکبیر تحریمہ کے بعد مسجد میں جلدی جلدی ٹکریں مارنے کا قطعاً کوئی جواز نہیں“ توکیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ [معاذ اللہ] ایک بے جواز عمل پر عامل رہے؟ہوش کے ناخن لیجیے اور ان عظیم ہستیوں سے متعلق اپنی رائے درست کیجیے۔ یقیناً توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔
موصوف کے شبہ کا جائزہ:
موصوف نے شبہ یہ ظاہر کیا کہ حدیث”اذا اقیمت الصلوۃ فلا صلوۃ الا المکتوبۃ“کے آخر میں ”الا رکعتی الفجر“ کا جھوٹا اضافہ کر کے آپ لوگ فجر کی سنتوں کو مستثنیٰ قرار دیتے ہو۔
جواب نمبر 1:
اللہ تعالیٰ موصوف کو فہم نصیب فرمائے۔اہل السنۃ والجماعۃ احناف کثراللہ سوادھم کا موقف اس روایت پر موقوف نہیں۔[خواہ مخواہ کی وکالت سے باز رہیں]بلکہ ان کا مستدل حضرت ابن مسعود ، حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہم، امام مسروق،امام حسن بصری،امام ابوعثمان نہدی وغیرہ کے آثار ہیں، جو سندا صحیح /حسن ہیں۔ [ما قبل میں گزر چکے ہیں]
رہا حدیث”اذا اقیمت الصلوۃ فلا صلوۃ الا المکتوبۃ“کے آخر میں ”الا رکعتی الفجر“ کو جھوٹا اضافہ کہنا سو یہ بات بلا دلیل ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔ ممکن ہے کہ موصوف یہ کہہ دیں کہ اس حدیث کے دو روات حجاج بن نصیر اور عباد بن کثیرکے بارے میں امام بیہقی نے کلام کیا ہے۔
جواب یہ ہے کہ
پہلا راوی :حجاج بن نصیر
1: آپ سنن ترمذی کے راوی ہے۔
2:امام ابن معین ان کے بارے میں فرماتے ہیں: کان شیخا صدوق لکنہم اخذوا علیہ اشیاء فی احادیثہ شعبۃ۔ [آپ سچے شیخ تھے، البتہ ائمہ نے آپ کی ان احادیث پر گرفت کی ہے جو آپ نے امام شعبہ سے روایت کی ہیں]
3:ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا۔
4:امام ابن عدی اپنی کتاب ”الکامل“میں ان کی وہ روایات جو شعبہ سے ہیں لائے ہیں جن پر محدثین نے گرفت کی ہے۔یہ تین احادیث ہیں اور ان کی سند پر گرفت کی ہے نہ کہ متن میں۔خود ابن عدی فرماتے ہیں: حجاج کی ان تین روایات کے علاوہ باقی احادیث صالح ہیں۔
امام عجلی فرماتے ہیں:کان معروفا بالحدیث [آپ علم حدیث کے حوالے سے معروف شخصیت ہیں]
(تہذیب التہذیب لابن حجر ج1ص671،672ملخصاً)
امام ابن عدی نے”الا رکعتی الفجر“ کی حدیث ان تین احادیث میں ذکر نہیں کی۔نیز حجاج بن نصیر یہ روایت شعبہ سے روایت نہیں کررہے ہیں۔پس بقول ابن عدی یہ صالح الحدیث ہیں
(اعلاء السنن ج7ص110)
دوسرا راوی :عباد بن کثیر
یہ راوی مختلف فیہ ہے۔
1:امام ابن معین نے اس کی توثیق کی ہے۔ ایک مرتبہ فرمایا: لیس بہ باس۔ [اس راوی میں کوئی حرج نہیں]
2: ابوبکر بن ابی شیبہ: یہ ثقہ تھے۔
(تہذیب التہذیب لابن حجر ج 3ص372)
3:علی بن المدینی:عباد بن کثیر الرملی ثقہ تھے۔
(المیزان للذہبی ج2ص336)
پس یہ روایت حسن ہے
(اعلاء السنن ج7ص110)
خلاصہ یہ ہے کہ احناف کا موقف جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے عمل مبارکہ سے ثابت ہے جو یقیناً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کو زیادہ جانتے تھے۔ لہذاموصوف کا اپنے آپ کو حدیث پر عمل پیرا اور دوسروں کو مخالفِ حدیث کہنا جہالت کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وساوس سے بچا کر صراط مستقیم پر قائم رکھے۔ آمین