سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ
مولانا محمد اکمل راجنپوری
حضرت ابوسعید سعدبن مالک بن سنان خدری رضی اللہ عنہما کا شمار ان اہلِ علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے جو اپنے زمانے کے جبال علم سمجھے جاتے تھے اور انہی کے چشمہ فیض سے متلاشیانِ علوم نبوت نے اپنی پیاس بجھائی۔
غربت اور زمانہ طالبعلمی:
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ابتداءً مالی اعتبار سے کمزور اصحاب رسول کی صف میں شامل تھے، کیونکہ آپ کے والد مالک بن سنان رضی اللہ عنہ جنگ احد میں شہید ہوئے تو پیچھے کوئی جائیداد نہیں چھوڑی ،جس کی وجہ سے آپ پر فاقہ اور پیٹ پر پتھر باندھنے کی نوبت آپڑی لیکن تھوڑے دنوں بعد اللہ تعالیٰ نے علومِ دین کے ساتھ ساتھ مال ودولت سے بھی نواز دیا۔
اپنے زمانہ طالبعلمی کی حالت بیان کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی کلاس تھی،قاری صاحب قراءت کررہے تھے۔ اسی دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ ہم مالی اعتبار سے کمزور تھے---کپڑے نہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کی آڑ میں چھپ چھپ کر بیٹھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اشارہ کیا کہ لوگ حلقہ کی شکل میں بیٹھیں چنانچہ سب حلقہ باندھ کر بیٹھ گئے۔
(مسند احمد ج3ص63)
حلقہ درس:
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ علومِ نبوی کے بحر بیکراں تھے۔ آپ نے زیادہ تر اپنی زندگی علم حدیث اور فقہ کی اشاعت کےلیے وقف کر دی تھی، جس کی وجہ سے آپ کے حلقہ درس میں ہر وقت لوگوں کاہجوم رہتا تھا۔ اگر کسی کو کوئی خاص مسئلہ پوچھنا ہوتا تو دیر بعد موقع ملتا۔
(مسند احمد ج3ص35)
درس کے مخصوص اوقات کے علاوہ اگر کوئی سائل کچھ پوچھنا چاہتا تو جواب سے نواز دیتے۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے علی اور غلام عکرمہ کو بھیجا کہ ابوسعیدرضی اللہ عنہ سے حدیث مبارک سن کر آؤ۔اس وقت آپ باغ میں تھے۔ ان حضرات کو دیکھ کر ان کے پاس آکر بیٹھے اور حدیث بھی بیان فرمائی۔
(مسند احمد ج3ص90،91)
احتیاط فی الحدیث:
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ علومِ نبوی کی اشاعت کے حلقے لگاتے، لیکن ایک بات کاخاص خیال رکھتے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات آپ کے الفاظ میں ہی بیان کیے جائیں۔اگر کسی حدیث کے الفاظ پر اعتماد نہ ہوتا تو اس کے بیان کرنے میں احتیاط کرتے تھے۔چنانچہ ایک مرتبہ حدیث بیان کی لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک نہیں لیاتو ایک آدمی نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے۔ آپ نے فرمایا: میں بھی جانتا ہوں۔
(مسند احمد ج3ص29)
سماع حدیث کے متعلق سوال وجواب:
1: حضرت عبداللہ بن عمر نے کسی آدمی سے حضرت ابوسعید خدری کے واسطے سے حدیث سنی تو ان کو آپ کے دربار میں لائے اور پوچھا: اس نے فلاں حدیث آپ سے سنی ہے اور کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی تھی؟تو آپ نے فرمایا : میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا۔
(مسند احمد ج10ص13رقم10948)
2: حضرت قرعہ رحمہ اللہ کو (آپ کی بیان کردہ احادیث میں سے)ایک حدیث بہت پسند آئی انہوں بڑھ کر پوچھا :کیا آپ نے رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو سنا تھا؟حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو ان کے اس سوال پر غصہ آگیا، فرمایا:”تو کیا میں بےسنے بیان کررہا ہوں؟!ہاں میں نے سنا تھا۔“
حق گوئی آپ کا شعار تھی:
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو حق گوئی کی تاکید کرتے سنا تھا۔چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نےحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اسی فرمان کو سامنے رکھ کر حق گوئی کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔جب کبھی حق بات کہنے کا موقع ملتا تو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر کہہ دیتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ مروان بن حکم نے عید کے دن منبر نکلوایا اور نماز سے پہلے خطبہ پڑھا،ایک شخص نے اٹھ کر ٹوکا اور منع کیا کہ یہ دونوں باتیں خلافِ سنت ہیں۔ مروان نے جواب دیا: پہلاطریقہ متروک ہوچکا ہے۔ اس پر حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا :چاہے کچھ بھی ہو مگر اس نے اپنا فرض ادا کردیا۔
(مسند احمد :رقم11015)
اسی طرح ایک مرتبہ آپ نے فضیلتِ صحابہ کی حدیث سنائی تو مروان بولا: کیا بکتے ہو؟اسی مجلس میں حضرت زید بن ثابت اور حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما بھی بیٹھے ہوئے تھے تو حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان سے پوچھ لو۔کچھ اور باتیں بھی ہوئیں تو مروان نے مارنے کے لیے درہ اٹھایا تو حضرت زید اور رافع رضی اللہ عنہما نے ان کی بات کی تصدیق کی۔
(مسند احمدج3ص33)
متواضع شخصیت:
آپ رضی اللہ عنہ کی شخصیت بہت ہی متواضع تھی۔ حضرت ابوسلمہ رحمہ اللہ جو آپ کے شاگرد رشید اور تابعی تھے،ان سےآپ کا دوستانہ تعلق تھا۔ایک مرتبہ انہوں نے آواز دی تو آپ چادر اوڑھے نکل آئے۔ ابوسلمہ نے کہا: ذرا باغ تک چلیے، آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ چنانچہ آپ ان کےساتھ چلے گئے۔
(مسند احمد ج3ص18)
تعداد مرویات:
1:امام ابوعمر یوسف بن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :آپ کا شمار ان علماء میں ہوتا ہے جن کو کثرت سے احادیث یاد تھیں۔
[الاستیعاب کے ص804]
2:علامہ ذہبی نے آپ کی مرویات کی تعداد1170بتائی ہے۔
[السیر: ج4ص88]
چند مرویات:
1: موسم گرما میں نماز ظہر کا مسنون وقت:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:
ابردوا بالظہر فان شدۃ الحر من فیح جہنم
(صحیح بخاری ج1ص77)
کہ نماز ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے ہے۔
2: نماز کے اوقات ممنوعہ: ان کے متعلق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
لا صلوۃ بعد الصبح حتی ترتفع الشمس ولا صلوۃ بعد العصر حتی تغیب الشمس۔
(صحیح بخاری ج1ص82،83)
کہ صبح کی نماز کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک سورج بلند ہوجائے اور عصر کی نماز کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے۔
3: مرد وعورت کی نماز میں فرق: آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ سجدے میں (اپنی رانوں کو پیٹ سے)جدا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ خوب سمٹ کر (یعنی رانوں کو پیٹ سے ملا کر)سجدہ کریں۔نیز مردوں کو یہ بھی حکم فرماتے تھے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھیں اور دایاں پاؤں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ چہار زانوں بیٹھیں۔
(السنن الکبریٰ بیہقی ج2ص222،223)
4: قرآن مجید سے جھاڑ پھونک اور دم کرنے کی اجرت لینے کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تبسم اور تائید:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر ایک آدمی کو 30بکریاں بطور اجرت لے کر سورۃ الفاتحہ پڑھ کر دم کیا۔بکریاں لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوئے اوریہ واقعہ سنایا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورا قصہ سن کر مسکرائے اور فرمایا :تم نے ٹھیک کیا، اس کو تقسیم کرلو اور میرا حصہ بھی نکالنا۔
(صحیح بخاری کتاب الاجارہ )
سن وفات اور مدفن:
علم وعمل کے پیکر سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بقول علامہ ذہبی رحمہ اللہ اپنی عمر عزیز کی 86بہاریں اس دار الفناء میں گزار کر 74ھ میں جمعۃ المبارک کے دن دار البقاء کی طرف کوچ کرکے جنت البقیع میں نم کنومۃ العروس کا مصداق بن گئے۔
(مسند احمد ج3ص86)