اللہ کی نعمتیں اور ان پر شکر کی اہمیت

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مجلس الشیخ:
اللہ کی نعمتیں اور ان پر شکر کی اہمیت
ترتیب و عنوانات: مفتی شبیر احمد حنفی حفظہ اللہ
6 ستمبر 2012ء بروز جمعرات حضرت الشیخ متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے خانقاہ اشرفیہ اختریہ مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ 87 جنوبی سرگودھا میں منعقدہ ماہانہ مجلسِ ذکر سے خطاب فرمایا، جس میں اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں اور ان پر شکرکرنے کی اہمیت و ضرورت پر دلنشین گفتگو فرمائی۔ افادۂ عام کے لیے اس بیان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
خطبہ مسنونہ:
قال اللہ تعالیٰ: Īمَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًاĨ [النساء:147]
اللہ رب العزت نے انسان کو اس قدر نعمتیں عطا فرمائی ہیں کہ ساری کائنات مل کر اس کو شمار کرنا چاہے تو شمار نہیں کر سکتی۔یہ بات اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں خود فرمائی ہے:
Īوَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَاĨ
[ابراہیم:34]
اگر اللہ کی نعمتوں کو تم شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے۔
پہلی نعمت: ایمان
اللہ تعالیٰ نے جو ہمارے نعمتیں ہمیں عطا کی ہیں ان میں سب سے بڑی نعمت ”ایمان“ ہے۔ایمان اتنی بڑی نعمت ہے آپ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ قرآن کریم میں ہے:
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لِيَفْتَدُوا بِهِ مِنْ عَذَابِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ
[المائد:36]
قیامت کے دن اگر پوری روئے زمین کو سونے سے بھر جائے اور کافر چاہے کہ میں یہ فدیہ میں دوں اور اتنا سونا مزید دوں اور میری جان چھوٹ جائے ایسا نہیں ہوگا۔
سونا کتنا مہنگا ہے لیکن اس دن بے قیمت ہو گااور ایمان کی قیمت کیا ہو گی اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایسا شخص جس کے دل میں رتی برابر ایمان موجود ہے اللہ اس رتی برابر ایمان کی وجہ سے بندے کو جہنم سے نکال کر جنت میں بھیجے گااور یہ تب ہوگا جب جہنم والے اہل ایمان کوطعنہ دیں گے کہ تم نے نبی کا کلمہ پڑھا تم خدا کی بات کہتے تھے آج تم بھی جہنم میں ہو ہم بھی جہنم میں تو تمہارے ایمان نے تمہیں کیا فائدہ دیا۔ اللہ کی غیرت کو جوش آئے گا۔ اللہ حکم دیں گے کہ جن کے دل میں رتی برابر بھی ایمان موجود ہے ان کو جہنم سے نکال کر جنت میں لے جایا جائے۔ یعنی ایک ذرہ ایمان کی قیمت روئے زمین کےبرابر خلاء سونے سے بھی زیادہ ہے۔یہ رتی برابر ایمان کی قیمت ہے۔اللہ کےولی کی قیمت کیا ہوگی،عالم کی قیمت کیا ہوگی،صحابی کی قیمت کیا ہوگی، انبیاء کی قیمت کی ہوگی، پھر خود سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیمت کیا ہوگی؟کیوں کہ ایک رتی برابر ایمان کی قیمت آسمان اور زمین کے درمیان بھرے سونے سے زیادہ ہے اور دنیا میں جس کسی کو ایمان ملا ہے یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی برکت سے ملا ہے۔حتی کہ انبیاء کو بھی جو ایمان ملاہے یہ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے ملاہے۔ اس پر قرآن کریم کی آیت گواہ ہے۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ
(آل عمران:81)
تو انبیاء علیہم السلام کو حکم ہے کہ تمہیں بھی ایمان اس پیغمبر پر لانا ہے۔ جس پر آدمی ایمان لائے اس کا ایمان اصل ہوتاہے اور جو ایمان لائے اس ایمان فرع ہوتا ہے۔تو انبیاء کا ایمان بھی فرع ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان کی۔
حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کی توجیہہ:
قاسم العلوم والخیرات،بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی معروف کتاب ہے”تحذیر الناس“۔ اس میں ارشاد فرماتے ہیں اور ایسی دقیق اور باریک بات شاید کہ کم لوگوں نے لکھی ہو،فرمایا :
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ۔
[الاحزاب:40]
اللہ رب العزت نے فرمایا کہ میرا پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی نوجوان کا جسمانی باپ تو نہیں ہے لیکن روحانی باپ ہے اور روحانی باپ کس کا ہے؟ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ فرماکر بتایا کہ انبیاء کا روحانی باپ ہے۔ فرمایا کہ ”رسول اللہ“ کامطلب ہر بندے نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہے اور ”خاتم النبیین“ کا معنیٰ ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت میں اصل ہیں اور باقی انبیاء ان کے تابع ہیں۔تو جب نبوت میں اصل ہے تو ایمان میں بھی اصل ہیں اور باقی انبیاء کا ایمان فرع ہے۔ اب مولانا نانوتوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس طرح آپ ایمان میں اصل اور باقی ایمان میں فرع ہیں تو پھر یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے نبی کا ایمان اصل ہے اور باقی انبیاء کا ایمان نسل ہے۔ نسل اولاد ہوتی ہے تو باقی انبیاء اولاد ہیں ہمارے نبی ان کے بھی باپ ہیں۔
[سبحان اللہ۔ سامعین]
اللہ ہمیں اکابر کے علوم پڑھنے اورسمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ایمان کی قیمت:
میں عرض یہ کررہاتھا کہ ایمان اتنی قیمتی نعمت ہے جو خدانے بغیر محنت کے عطا فرمائی ہے، بتاؤ کتنا خدا کا احسان ہے اور یہ آج سمجھ میں نہیں آئے گی، یہ موت کے بعد قیامت کے دن سمجھ میں آئے گی جب کافر حسرت سے کہے گا :
رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ
[الحجر:2]
کہ اے کاش میں نام کا ہی مسلمان ہوتا۔آج لوگ کہتے ہیں کیا ایمان ہے؟نام کے مسلمان ہیں۔ اس نام کے مسلمان کو بھی غنیمت سمجھو اور اس دور سے بچو جب یہ نام کا مسلمان بھی نہیں ہوگا۔آپ حضرات نے احادیث مبارکہ سنی ہے اور کسی کو یاد بھی ہوگی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَقُوْمُ الساعةُ حتىٰ يُقالَ في الأرضِ : الله اللہ
[مسند البزار:6980]
ایک شخص بھی اس زمین پہ اللہ اللہ کرنے والا موجود ہوگا تو قیامت نہیں آئے گی۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ جتنا بھی کائنات کا نظام چلتا ہے یہ اللہ اللہ اور ایمان کی برکت سے چلتاہے۔ اب بتاؤ ایمان کتنا قیمتی ہے؟جس دن اس زمین سے ایمان والے اٹھ جائیں گے۔ نہ سورج رہے گا، نہ چاند رہے گا، نہ آسمان ہوگا ،نہ زمین ہوگی، نہ زمین کا نظام ہوگا۔تمام چیزوں کو مٹادیا جائے گا چونکہ ایمان والا دنیا میں موجود نہیں ہے۔ میں اس لیے ایک بات عرض کرتا ہوں کہ اللہ دنیا دار کو بھی اور اہل کفر کو بھی یہ بات سمجھا دے کہ آج دنیا دار عیاشی کرتاہے، بڑی بڑی گاڑیوں پر گھومتا ہے، بڑے بنگلوں میں رہتا ہے، بڑے کاروبار اور بزنس چلاتا ہے، بڑے بڑے جہازوں پر سفر کرتا ہے، جہازوں اور کمپنیوں کا مالک ہے، یہ ساری برکت اسی مسکین کے ایمان کے ہے۔ جس دن یہ ایمان والا مسکین ختم ہوجائے گاتو پورا نظام برباد ہوگا۔
”ایمان“ حفاظت و ثابت قدمی کا ذریعہ:
قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَة
[ابراہیم:27]
اللہ اس کلمہ ایمان کی وجہ سے دنیا میں بھی انسان کو محفوظ رکھتے ہیں اور قبر میں بھی محفوظ رکھتے ہیں۔تو دنیا میں بھی حفاظت ایمان کی وجہ سے ہے اور قبر میں بھی ثابت قدمی اسی ایمان کی وجہ سے ہو گی۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب انسان قبر میں جاتا ہے تو روح کو لوٹا دیا جاتا ہے، اللہ کا فرشتہ اس سے پوچھتا ہے :
من ربک؟،من نبیک؟،مادینک؟
[سنن ابی داود:رقم4755]
بتاؤ تمہارا رب کون ہے؟بتاؤ تمہارا نبی کون ہے؟بتاؤ تمہارا دین کیا ہے؟جس نے جواب دے دیا تو اللہ نے فرمایا:
يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَة
[ابراہیم:27]
کہ جس کا کلمہ ٹھیک ہے اللہ اس کو قبر میں ثابت قدم رکھیں گے، یعنی اللہ اس کو قبر میں عذاب سے محفوظ رکھیں گے۔
ایک نکتہ:
میں ایک نکتہ عرض کرنے لگا ہوں۔بتاؤ!قبر میں کتنے سوال ہیں؟ [تین۔سامعین] ۱:تمہارا رب کون ؟۲:تمہارا نبی کون ہے؟۳:تمہارا دین کیا ہے؟
کیافرشتہ یہ پوچھتا ہے:” تو نے نماز پڑھی ہے یا نہیں؟“، ”روزے رکھے ہیں یا نہیں؟“سوال تین کرتا ہے اور اجمالی حساب کتاب ہے،تفصیلی حساب کتاب اور سوالات وجوابات حشر کے وقت ہوں گے۔ یہ بات میں اس لیے عرض کرتا ہوں کہ جب بھی کوئی بات کرو تو لوگ کہتے ہیں: اس کی کیا ضرورت ہے ؟اس کا کوئی قبر میں سوال جواب ہوگا؟ اسے کہو: پھر تو نماز بھی چھوڑ دو ،کیا قبر میں سوال جواب ہوگا؟ یہ نئی منطق بدعقیدہ لوگوں نے اس لیےپیش کی ہے تاکہ اپنا غلط عقیدہ بیان کرتے رہیں گےاور جب آپ ان کے عقیدہ پر چوٹ ماریں گے اور صحیح عقیدہ بیان کریں گے تو پروپیگنڈاکریں گے: اس مسئلہ کا کون سا قبر میں ہوگا ؟کیا تم نے نئی بحثیں چھیڑ دی ہیں۔ اس گمراہ سے پوچھو: جب تو نے چھیڑی تھیں تب قبر میں سوال وجواب ہونا تھا اور جب ہم نے جواب دیا ہے اب فوراً منطق بدل لی ہے کہ اس کا کونسا قبر میں سوال جواب ہونا ہے
عقیدہ عذابِ قبر:
خیر میں عرض یہ کر رہا تھا کہ ایمان کی وجہ سے اللہ رب العزت عذاب قبر سے محفوظ رکھیں گے۔ہمارا اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے جس قبر میں میت کو دفن کرتے ہیں اسی قبر میں اگر دنیا میں نیک ہو تو ثواب ہوتا ہے اور اگر یہ براتھا تو اس کو عذاب ہوتاہے۔
عذاب قبر ہمیں نظر آئے یا نہ آئے ہر حال میں ماننا ہے۔يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْب بھی اسی لیے ہے کہ نظر آئے تب بھی مانتے ہیں اور نظر نہ آئے تب بھی مانتے ہیں۔بعض لوگ گمراہ کرنے کے لیے کہتے ہیں: اگر کسی آدمی کو جانور وغیرہ نے کھالیا تو اس کی قبر کدھر ہے، اور ایک آدمی دریا کے اندر گرا اس کی قبر کدھر ہے، ہندو میت کو جلاتے ہیں اور جلا کر راکھ کو بہا دیتے ہیں۔ اب اس کو عذاب کدھر ہوگا؟ اس کا مطلب اس کو عذاب نہیں ہوگا۔ہم نے کہا: دھوکہ مت دو، قبر کہتے ہیں میت اور اجزاءِ میت کے مقر کو،جہاں میت خود ہوتی ہے اس کا نام قبر ہے اور جہاں میت کے اجزاء ہوتے ہیں اس کانام بھی قبر ہے۔ اگر درندوں نے کھا لیا ہے میت کے اجزاء جہاں کہیں گئے ہیں وہیں قبر بنتی ہے۔ اگر ا سکو جلا دیا ہے جہاں جہاں اس کے ذرے ہیں وہیں اس کی قبر ہے۔ اگر پانی میں گرکر گل سڑ گیا وہیں اس کی قبر ہے۔ اللہ اس کے ساتھ روح کا تعلق قائم کرتا ہے۔ جسم کے ذروں کے ساتھ روح کا تعلق کون کرتا ہے؟[اللہ۔سامعین] کہتے ہیں: ”یہ توحیدی ہیں“، جو اللہ کی طرف سے روح کا اجزاء کے ساتھ تعلق کو بھی نہیں مانتا یہ کیسا توحیدی ہے ؟توحید والے تو وہ ہیں جن کو سمجھ میں نہیں آتا پھر بھی مانتے ہیں۔
ایک سوال کا جواب:
میں سفر میں تھا۔ ایک بندے نے بڑا معقول سوال کیا اورہماری یہ عادت ہے کہ جو معقول سوال کرتا ہے تو ہم شاباش بھی دیتے ہیں اور جو معقول نہیں کرتا تو اس کی درگت بھی بناتے ہیں۔اس بندے نے مجھے کہا: بسا اوقات ہم دیکھتے ہیں بندہ قبر میں موجود ہے، کبھی مٹی گر گئی ہے یا اینٹ گر گئی ہے یا کوئی مسئلہ بنا ہے تو ہم نے دیکھا اور میت کو ہاتھ لگایا میت کو کچھ بھی نہیں ہورہا ہے، اگر عذاب ہوتا تو بندے کو محسوس تو ہوتا۔ ایک بندے نے کہا: اگر ایک انسان جس کو درندے نے کھالیا تو پھر اس کی قبر اس جانور کے پیٹ میں بنی ہے تو پھر جب کافر کو عذاب ہوگا تو پھر جانور کو بھی ہونا چاہیے، جانور تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ اگر اس کو عذاب ہوتا تو جانور کے پیٹ کو تو آگ لگ جانی چاہیے تھی حالانکہ اس کو کچھ بھی نہیں ہوتا۔پھر کیسے مانیں کہ اس کو عذاب ہورہا ہے،اس لیے پتہ چلا کہ آدمی کو اسی قبر میں عذاب وثواب نہیں ہوتاہے۔میں نے کہا :کبھی آپ کے پیٹ میں یا سر میں درد بھی ہوا ہے؟ اس نے کہا :جی ہاں۔ میں نے کہا :جب آپ کے پیٹ میں درد ہوتا ہے تو اوپر کے چمڑے کو درد ہوتا ہےیا اندر ہوتاہے؟کہا: اندر ہوتا ہے۔ میں نے کہا: پھر ثابت ہوا کہ درد
اندر ہوتا ہے اور چمڑے کے باہر نہیں ہوتا۔ایک آدمی کہتاہے: مجھے سخت گرمی لگ رہی ہے، جگ پانی پی لیا لیکن پیاس نہیں بجھ رہی، اندر جل رہا ہے۔ لیکن باہر دیکھو تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ دیکھو ہڈی اندر ٹوٹی ہوتی ہے اور اندر درد ہے لیکن باہر چمڑے پر کچھ بھی نہیں ہے۔دل کا آپریشن ہورہا ہے، دل کےوالو ختم ہوگئے ہیں، دل پھٹ رہا ہے۔ اندر درد ہے اوپر دیکھو تو کچھ بھی نہیں ہے۔تو میں نے کہا: جس طرح جسم کے اندر درد ہو اور باہر کچھ بھی نہیں ہوتا اسی طرح جانور کے جسم کے اندر تو میت کو عذاب ہوتا ہے لیکن جانور کو کچھ بھی نہیں ہوتا۔
اس لیے ہم کہتے ہیں کبھی کوئی بندہ آپ کے سامنے سوال کرے اور عقیدہ کو خراب کرنے کی کوشش کرے تو آپ مرکز [اہل السنۃ و الجماعۃ 87 جنوبی سرگودھا]سے ربطہ ضرور فرمائیں، آپ سوالات کے جوابات مل جایا کریں گے۔آپ اللہ کا شکر ادا کریں کہ اللہ نے آپ کو مرکز اہل السنۃ والجماعۃ جیسا ادارہ عطا فرمایا ہے۔کسی مسئلہ پر الجھن ہو ہم اور ہماری ٹیم موجود ہیں، مسئلہ لاؤ اور جواب لو۔ دنیا بھر میں آپ تلاش کریں- میں تحدیث بالنعمۃ کے طور پر کہتا ہوں- کہ شاید آپ کو ایسا ادارہ نہ ملے۔یہاں ہم 24گھنٹے بیٹھے ہیں آپ کے شبہات دور کرنے کے لیے۔
ایک اہم اصول: یہ میری بات بطور اصول کے نوٹ فرمائیں:
شیطان جب بھی گمراہ کرتاہے تو اس کے گمراہ کرنے کے دو ہی طریقے ہوتے ہیں؛ ۱: شبہات، ۲: شہوات
شبہات ایمانیات میں اور شہوات اعمال میں پیدا کرتا ہے۔
ایمانیات میں شبہات کا مطلب یہ ہے کہ عقیدہ کو خراب کرے گا،اس میں شبہ ڈالا جائے گا،ختم نبوت کا انکار کرائے گا،صحابہ کرام سے دور کرائے گا،کبھی قرآن پر شبہ، کبھی علم پر شبہ، کبھی قبر پر شبہ، کبھی آخرت پر شبہ۔ایسے شبہات پیدا کرتا ہے کہ بندے کا ایمان متزلزل ہوجاتاہے۔
اعمال میں شہوات ڈالتاہے۔شہوت کا معنیٰ صرف یہ نہیں کہ آدمی بدکاری کرےبلکہ ہر قسم کی شہوت ہے، زبان کی الگ ہے، آنکھ کی الگ ہے،پیٹ کی الگ ہے۔شہوت کا معنیٰ خواہشات کی پیروی کرنا ہے۔آدمی سویا ہوا ہے، رات کو تھکا ہوا تھا، اب فجر کا وقت ہوا، دل چاہتاہے نماز نہ پڑھے اسی کوشہوت کہتے ہیں۔
اور میری یہ بات پلے باندھ لو۔آدمی شبہات سے بھی تب بچتا ہے جب اہل فن سے رابطہ ہو اور آدمی شہوات سے بھی تب بچتاہے جب اہل فن سے رابطہ ہو۔ورنہ شبہات سے بھی نہیں بچتا اور شہوات سے بھی نہیں بچتا۔
اہلِ فن سے رابطہ کی نوعیت:
رابطہ عقیدت کے ساتھ ہو، رابطہ چیک کرنے کے لیے نہ ہو۔ بعض لوگ عقیدت سے رابطہ نہیں کرتے وہ چیک کرنے کے لیے رابطہ کرتے ہیں کہ دیکھیں جواب کیسا ملتا ہے ؟
آج ہمارے ہاں کچھ حضرات تشریف لائے تھے ایک جگہ سے ،ان کوخطیب اور امام چاہیے تھا۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے ،ہم خطیب دے دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا: ان کو جمعہ کے دن بھیج دیں۔ میں نے کہا: ان چیک کرنا ہے؟ کہتے ہیں: جی ہاں۔ میں نے کہا: میں نہیں بھیجتا، کسی اور جگہ سے تلاش کرلیں۔خطیب کو چیک کرنا تمہارا کام نہیں وہ ہمارا کام ہے۔ جو ہم دیں گے وہ آپ کو رکھنا پڑے گا پسند آئے تب بھی اور نہ پسند آئے تب بھی، رزلٹ آپ اچھا ملے گا۔میں اس کو عالم کی توہین سمجھتا ہوں ایک کمیٹی بیٹھی ہے۔ ایک جمعہ ایک مولوی صاحب تقریر کرتاہے، پھر دوسرے جمعہ دوسرا اور تیسرے جمعہ تیسرا۔کمیٹی چیک کرنے کے لیے بیٹھی ہے کہ مولانا صاحب بیان کیسے کرتے ہیں؟! تم عالم کا علم کیسے چیک کروگے؟!
پھر وہ مجھے کہنے لگے: آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا: ہم سے خطیب نہ مانگو، ہم سے انسان مانگو۔ ہم تمہیں خطیب نہیں دیں گے ہم تمہیں انسان دیں گے، ہمارے ہاں انسانیت بھی ہوتی ہے خطابت خودبخود آ جاتی ہے۔پھر میں نے ان کو تھوڑی سی بات سمجھائی اور ان کو بات سمجھ آگئی۔
حضرت امیر شریعت کا ایک واقعہ:
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری [اللہ ان کی قبر پر کروڑوں مرتبہ رحمت نازل فرمائے] ان کے پاس ملتان میں کچھ لوگ امام اور خطیب لینے کے لیے آئے اور کہنے لگے:امام ایسا ہو جو خوبصورت ہو، شکل اس کی اچھی ہو اور آواز بھی اس کی اچھی ہو۔حضرت شاہ صاحب نے فرمایا: اور؟ ،کہنے لگے: لالچی بھی نہ ہو،لوگوں کے پیسوں پر بھی نظر نہ کرے ،بے لوث کام کرے۔شاہ جی نے فرمایا: اور؟، وہ بیان کرتے رہے شاہ جی سنتے رہے۔پھر شاہ جی نے فرمایا: تمہیں مولوی چاہیے یا نبی چاہیے؟میں نے تو جیلیں کاٹیں ہیں ،ماریں کھائی ہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان
”اناخاتم النبیین لا نبی بعدی“
[جامع الترمذی:2219]
پر اور تم مجھ سے نبی کا تقاضا کرتے ہو؟۔ یہ صفتیں تو نبیوں کی ہیں مولویوں کی نہیں۔میں جو مولوی بھیجوں گا وہ تم سے پیسے بھی لے گا اور تنخواہ بھی لے گا، بے لوث کام نہیں کرے گا۔مولوی کی بات اور ہوتی ہے نبوت کی بات اور ہوتی ہے۔
حضرت جالندھری رحمہ اللہ کا واقعہ:
حضرت مولانا محمد علی جالندھری عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ناظم اعلیٰ تھے۔بڑی عجیب بات فرمائی،فرمایا: آج جب ہم مرزا قادیانی ملعون مرتد،کذاب،دجال کی ذات پر اعتراض کرتے ہیں کہ وہ شراب پیتا تھا، زنا کرتا تھا،رات کو عورتوں سے خلوت میں ٹانگیں دبواتا تھا، وہ بہت بے ایمان تھا،وہ دن میں سو سو بار پیشاب کرتاتھا، انگریز کا ایجنٹ اور حامی تھا۔تو پھر کالج کا نوجوان طبقہ اور پروفیسر طبقہ جن کے پاس علم تو ہوتاہے لیکن دین کا درد نہیں ہوتا،وہ کہتے ہیں:مولانا صاحب! آپ اس کے مسئلہ پر اٹیک کرو ، اس کی ذات پر اٹیک نہ کرو،کسی کی ذات پر اٹیک کرنا ٹھیک نہیں ہوتا۔مولانا نے بڑا پیارا جواب دیا،فرمایا: مرزا غلام احمد قادیانی مدعی مولویت نہیں تھا،وہ مدعی نبوت تھا۔ اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ میں مولوی ہوں، اس نے کہا تھا:میں نبی ہوں اور نبی کا معاملہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت بعد میں فرمایا پہلے یہ فرمایا:اے اہل مکہ!لبست فیکم عمرامیں نے تمہارے اندر 40سال کی زندگی کا عرصہ گزارا ہے،ہل وجدتمونی صادقا ام کاذبا؟ بتاؤ! تم نے مجھے کیسے پایا ہے؟انہوں نے کہا:جربنا ک غیر مرۃ اے محمد! ہم نے تجھے کئی بار آزمایا ہے، ماوجدنا فیک الا صدقا،ہم نے تجھے سچا پایا ہے۔ پہلے حضور نے ذات کو پیش کیا ہے پھر فرمایا: قولوا لا الہ اللہ تفلحون،پہلے نبی ذات کی ہوتی ہے پھر نبی کی بات ہوتی ہے۔نبی کی ذات پر ایمان فرض ہے نبی کی بات پر بھی ایمان فرض ہے۔مولوی کی ذات پر ایمان نہیں ہوتامولوی کی بات پر ایمان ہوتاہے۔اگر مرزا قادیانی مولوی ہونے کا دعویٰ کرتا ہم اس کی ذات پر بات نہ کرتے، اس کے مسئلہ پر اعتراض کرتے۔اب اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، لہذا پہلے اس کی ذات پر بحث ہوگی پھر اس کی بات پر بحث ہوگی۔
دوسری نعمت: علم
ایمان کے بعد اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ”علم“۔کیوں کہ انسان نبی تو نہیں بن سکتا کہ نبوت کا دروازہ جو بند ہے، ہاں علم کا دروازہ کھلا ہے۔نبی کا وارث عالم ہوتا ہے، نبی کا وارث عامل اور عابد نہیں ہوتا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَضْلُ العَالِمِ عَلَى العَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أدْنَاكُم
[جامع الترمذی: 2685]
ایک عالم کی فضیلت عام آدمی پر ایسی ہے جیسے نبی کی فضیلت عام صحابی پر ہے۔
علم اور نسبت کی لاج رکھیں:
جن کو اللہ نے علم عطا فرمایا ہے، اس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور اللہ سے دعا کریں کہ اے اللہ اس علم کی لاج رکھنے کی بھی توفیق عطا فرما۔ بسا اوقات بندے کا دل کرتا ہےکہ میں گناہ کروں۔ اس وقت اپنے آپ کو روک لے اور علم کی لاج رکھ لے تو اللہ اس بندے کو بہت نوازتے ہیں۔
واقعہ نمبر1:
حضرت امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ ہمارے امام ہیں۔ جن کے ہم مقلد ہیں۔ انہوں نے چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی ہے اور کیوں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ گزر رہے تھے۔ ایک بندے نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں کہا: ان کو جانتے ہو یہ پوری رات نفل پڑھتا ہے۔ امام صاحب نے سن لیا، اس کے بعد فرمایا:میں نے فیصلہ کر لیا اب پوری رات نفل پڑھوں گا، لوگ میرے بارے میں یہ گمان رکھتے ہیں اور میں پوری رات سوتا رہوں، پوری رات امام صاحب نے عشاء کے بعد نفل پڑھے ہیں۔
واقعہ نمبر2:
امام محمد رحمہ اللہ کے بارے میں واقعہ ہے۔ آپ رحمہ اللہ رات کو جاگ رہے تھے اور مطالعہ کر رہے تھے۔ امام محمد رحمہ اللہ کی بیٹی یا باندی نے عرض کیا: آپ پوری رات مطالعہ کر رہے ہیں اور جاگ رہے ہیں، سو جائیں۔ امام محمد رحمہ اللہ نے بڑا پیارا جملہ ارشاد فرمایا: ساری دنیا سو رہی ہے کہ امام محمد جاگتا ہے، ہمیں کوئی مسئلہ پیش آئے گا تو امام محمد بتائے گا۔ اب میں بھی سو گیا تو کس پر اعتماد کریں گے۔
ہمارے دوست ہیں مولانا بشیر احمد کلیار صاحب اور وہ میرے مرید بھی ہیں۔ یہ ہمارےایک ہی خلیفہ ہیں۔وہ فرما رہے تھے مولانا ہم دعا کرتے ہیں اللہ آپ کی حفاظت فرمائے۔ میں نے کہا کیوں؟ کہتے ہیں کہ آپ ہیں تو ہم مطمئن بیٹھے ہیں کہ کوئی مسئلہ پیش آئے تو مولانا بیٹھے ہیں ان سے پوچھ لیں گے۔
واقعہ نمبر3:
عالمگیر بادشاہ بہت معروف بادشاہ ہیں۔شاہی خزانے سے پیسے نہیں لیتے تھے۔ عجیب بادشاہ تھے۔ خود قرآنِ مجید کی جلد بندی کرتے تھے، اس سے پیسے کماتے تھے اور گھر کے خرچے کے لیے بھجو ا دیتے تھے اور یہی عالمگیر بادشاہ تھے جنہوں نے بعض علماء کو جمع کر کے ایک عظیم الشان فتاویٰ لکھوایا جس کا نام ”فتاویٰ عالمگیریہ“ ہے جسے ”فتاویٰ ہندیہ“ بھی کہتے ہیں۔ عالمگیر بادشاہ کے پاس ایک میراثی آیا۔اس نے کچھ مانگا کہ اللہ کے نام پہ کچھ دو۔ عالمگیر نے فرمایا: بھئ ہم دیں گے مگر کچھ اپنا فن دکھاؤ۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے، ہم اپنا فن دکھائیں گے پھر لیں گے۔ اب میراثی وہاں سے چلا گیا۔ اس نے ڈاڑھی رکھ لی، زلفیں رکھ لیں اور موٹی تسبیح لے لی اور ولایت کا روپ دھار کر بیٹھ گیا۔ا س کے علم میں تھا کہ عالمگیرجس علاقہ میں جاتا ہے تو اس کے علماء و صلحاء سے ضرور ملتا ہے۔ اب اس کو پتا چلا کہ عالمگیرکو فلاں علاقہ سے گزرنا ہے وہاں جا کر بیٹھ گیا۔ وزیروں کو حکم ہوتا ہے کہ ہمیں پتا دیں کہ اس علاقہ میں کوئی اللہ کا ولی ہو تو ہم اس سے ملاقات کریں۔ چنانچہ وزیر نے پتا دیا کہ فلاں علاقہ میں اللہ کاولی ہے۔ بادشاہ نے کہا : چلو۔ جب اس درویش کے پاس پہنچے تو وزیر نے کہا کہ بادشاہ آیا ہوا ہے اور آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ اس نے کہا: ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ آخر اس نے منت سماجت کی تو درویش نے کہا:بادشاہ کو لے آؤ۔ بادشاہ آیا اور بہت متاثر ہوا۔ اشرفیوں سے بھرےتھیلے کا ہدیہ پیش کیا۔اس نے ٹھوکر مار کر پھینک دیا اور کہا: جاؤ جاکر یہ مال دنیا کے کتوں کو دو، ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ عالمگیر بہت متاثر ہوا کہ پہلے وقت نہیں مل رہا تھا اور وقت ملا تو اتنا ہدیہ دیا اس کو بھی ٹھوکر مار دی۔ پھر کچھ دن گزرے میراثی بادشاہ کے دربار میں آیا اور کہا: مجھے دو سو انعام دو۔ بادشاہ نے کہا: فن دکھاؤ۔ اس نے کہا: یاد نہیں جب تو ولی کے پاس گیا تھا اور تو نےاسے ہدیہ دیا اور اس نے باہر پھینک دیا تھا، وہ میں ہی تو تھا۔ اس سے بڑا کیا فن دکھاؤں؟ بادشاہ نے کہا:ا س کو دو سو دے دو۔ پھر عالمگیر نے کہا: ظالم اس دن ہم سونے سے بھرا تھیلا دیا تو نے نہ لیا اور آج دو سو روپے کے لیے آ گیا۔ اس میراثی کا جواب سنو۔ اس نے کہا: میں اس وقت اولیاء کے روپ میں تھا۔ اگر میں وہ مال وصول کرتا تو ولی بدنام ہوتے۔ میں نے ولایت کی لاج رکھنے کے لیے اتنے لاکھ قربان کر دئیے۔
واقعہ نمبر4:
حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ سرکاری اور شاہی پہلوان تھے۔ ایک دن کشتی کا اعلان ہوا اور ایک کمزور بوڑھے کے ساتھ ان کی کشتی تیار ہوئی۔ لوگوں نے بہت سمجھایا: بابا جی آپ کی ہڈیاں اور پسلیاں ٹوٹ جائیں گی، یہ شاہی پہلوان ہے اور یہ شاہی بادام کھاتا ہے۔اس نے کہا: ہم دیکھتے ہیں اور اس کے سارے حساب چکا دیں گے۔ ایک طرف بوڑھا اور دوسری طرف جنید بغدادی ہیں؛ لوگ تعجب سے دیکھتے ہیں کہ آج جنید کی توہین ہے اس سے کشتی کرنا۔ اگر اس نے داؤ لگا کر اس کو گرا دیا تو جنید کا کیاکیا رہ جائے گا؟! کشتی ہونے لگی، اس بوڑھے آدمی نے جنید کو کان میں کہا:جنید میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ہوں ، سید زادہ ہوں، میرے گھر والے فاقے میں ہیں اور میری اولاد بھوکی مر رہی ہے۔ میں تو لڑ نہیں سکتا۔ اگر میں آج جیت گیا اور تو گر گیا تو مجھے شاہی خزانے سے انعام ملے گا اور حضور علیہ السلام کی اولاد کے گھر چولہا جلے گا۔ کشتی شروع ہوئی، تھوڑی دیر بعد جنید گر گیا اور بوڑھا اس کے سینے پر چڑھ کھڑا ہوا۔ پھر کیا تھا پورے بغداد میں اس کا ڈنکا بج گیا۔ جنید بغدادی ہا رگیا، شکست ہوئی۔ بتاؤ کتنی ذلت اور رسوائی ہوئی ہو گی۔ جنید نے اپنی عزت لٹائی حضور علیہ السلام کی نسل کی لاج رکھنے کے لیے۔ ہمارے شیخ حضرت اقدس شاہ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم فرماتے ہیں : جنید بغدادی رات کو سوئے اور حضور علیہ السلام تشریف لائے۔فرمایا: تو نے میری اولاد کی لاج رکھی ہے، جس طرح تیری ذلت بغداد نے دیکھی ہے اب اسی طرح پوری دنیا تیری عزت کا تماشا دیکھے گی۔
تیسری نعمت: عزت
اس کے بعد بڑی نعمت ہے ”عزت“۔ اللہ سے دعائیں مانگو کہ اللہ عزت کے ساتھ دین کا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ذلت سے نہیں، کیونکہ ہم کمزور ہیں ذلت کو برداشت نہیں کر سکتے۔
چوتھی نعمت: صحت
چوتھی بہت بڑی نعمت ہے ”صحت“ اور جس کی صحت ہے وہ اللہ شکر ادا کرے کہ اللہ نے صحت عطا فرمائی۔ ہم کمزور لوگ ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بیماری کی وجہ سے کفر کی حد تک جا پہنچیں۔ چناب نگر میں مرزائیوں کا ہسپتال ہے۔ آدمی کو ہارٹ اٹیک ہوتا ہے، آپریشن کے لیےمرزائیوں کے پاس چلا جاتا ہے اور غریب لوگ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے مرزائیوں کے پاس جاتے ہیں علاج کرانے کے لیے۔ کیوں بھئی؟ کہتے ہیں پیسے کا مسئلہ ہے۔ بھئی ایمان کا مسئلہ ہے۔ آدمی کو اللہ موت دے یہ بہتر ہے لیکن اس مسئلہ پر کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ ہمیں بچائے کہ ہم کسی کافر اور قادیانی کے پاس علاج کرائیں۔ اللہ ہمیں صحت پر شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پانچویں نعمت:دولت
یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ قرآن کریم میں پیسے کو خیر فرمایا:
إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ
[البقرۃ:180]
اور دوسری جگہ فرمایا:
وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ
[العادیات:8]
یہاں مال و دولت کو اللہ تعالیٰ نے خیر فرمایا۔ مال پر چڑھائی نہ کیا کرو، خواہ مخواہ پیسے کو برا بھلا نہ کہا کرو۔ دولت اگر جائز طریقے سے آئے تو خدا کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اب دیکھو آپ آرام سے بیٹھے ہوکہ نہیں۔ پکی مسجد ہے، پنکھے چل رہے ہیں، آواز باہر تک آتی ہے، سکون کے ساتھ بیٹھے ہو۔یہ بغیر پیسے کے تو نہیں ہے۔اللہ نے مال کو ”خیر“فرمایا ہے۔ ہاں شرط یہ ہے کہ جائز جگہ سے آیا ہو اور جائز جگہ پہ خرچ ہو۔جائز طریقے پر آئے تو خدا کی نعمت ہے اور ناجائز طریقے پر آئے تو خدا کا عذاب ہے۔
چھٹی نعمت:ہدایت
”ہدایت“ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ ہمیں ہدایت پر کار بند فرمائے اور ذلت و گمراہی سے بچائے۔دعا کریں اللہ ہم سب کو اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔خدا کااعلان ہے:
لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ
[ابراہیم:7]
اگر تم شکر کرو گے تو میں زیادہ دوں گا اور اگر تم نا شکری کرو گے تو جو میں نے دیا ہے وہ بھی چھین لوں گا۔ نعمتوں کے چھن جانے سے بچو، جب نعمت ہوتی ہے تو بندے کو احساس نہیں ہوتا جب نعمت چھین لی جاتی ہے تو پھر بندہ روتا ہے۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین