شوال کے چھ روزے اور امام اعظم رحمہ اللہ کا موقف

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
شوال کے چھ روزے اور امام اعظم رحمہ اللہ کا موقف
مولانا محمد عادل منصور
باطل نے ہر دور میں عوام کو اہلِ حق سے دور کرنے کے لیے کئی قسم کے حربے استعمال کیے؛تقریروتحریر کے ذریعے اہلِ حق کی عبارات کو اپنے مطلب کے مطابق ڈھال کر عوام کو بدظن کرنے کی کوشش کی۔
ان دنوں موبائل کے ذریعہ ایک میسج عام کیا جارہا ہےکہ فقہ حنفی قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔ اس کی ایک مثال یوں دی کہ حدیث مبارکہ میں ہے: جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو اس کو سال بھر روزے رکھنے کا ثواب ملے گا۔دوسری طرف فتاویٰ عالمگیریہ کے ایک مسئلہ سے تقابل کیا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک شوال کے چھ روزے رکھنا مکروہ ہے۔حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ فقہ حنفی کی معتبر کتب یہاں تک کہ اسی فتاویٰ عالمگیریہ میں بھی شوال کے 6روزوں کو مستحب کہا گیا۔باقی جہاں ان کو مکروہ کہا گیا ہے وہ مطلق نہیں بلکہ یہ حکم خاص صورتوں کے متعلق ہے۔ جیسےاگر کوئی شخص ایک روزہ عید کے دن رکھے اور پانچ بعد میں تو یہ مکروہ ہے۔اسی طرح جو شخص ان روزوں کو رمضان کی طرح فرض سمجھے تو یہ فرض سمجھ کر رکھنا مکروہ ہے۔اگر کوئی شخص عیدالفطر کے دن کو چھوڑ کر رمضان کی طرح فرض سمجھے بغیر شوال کے6 روزے رکھے تو یہ مستحب ہے۔احناف کے نزدیک راجح یہی قول ہے۔ چند تصریحات ملاحظہ فرمائیں:
1: وَالْأَصَحُّ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ۔۔۔۔ وَتُسْتَحَبُّ السِّتَّةُ مُتَفَرِّقَةً كُلَّ أُسْبُوعٍ يَوْمَانِ۔۔۔۔۔۔۔ وَيُكْرَهُ صَوْمُ الْوِصَالِ وهو أَنْ يَصُومَ السَّنَةَ كُلَّهَا وَلَا يُفْطِرَ في الْأَيَّامِ الْمَنْهِيِّ عنها وإذا أَفْطَرَ في الْأَيَّامِ الْمَنْهِيَّةِ الْمُخْتَارُ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ
(فتاوی عالمگیری ج1ص221کتاب الصوم باب فیمایکرہ للصائم ومالا یکرہ)
حاصل عبارت: شوال کے چھ روزوں کے بارے میں دو قول ہیں۔
۱:مکروہ، ۲:مستحب
اگر کوئی شخص عید کے دن بھی روزہ رکھے تو یہ مکروہ ہے اور اگر عید کا دن چھوڑ کر بعد میں رکھے تو مستحب ہے۔
2: وندب تفريق صوم الست من شوال ولا يكره التتابع على المختار خلافا للثاني۔۔۔ والاتباع المكروه أن يصوم الفطر وخمسة بعده فلو أفطر لم يكره بل يستحب ويسن
(رد المحتار ج3ص485،486کتاب الصوم: مطلب فی صوم الست من شوال)
اس عبارت کا حاصل بھی وہی ہے کہ شوال کے روزے مستحب ہیں لیکن اگر کوئی عید کے دن سے شروع کرے تو مکروہ ہے۔
3: یہی بات بدائع الصنائع میں بھی مذکورہ ہے۔[ ج2ص215کتاب الصوم الصیام فی الایام المکروہۃ]
میسج میں آدھی بات نقل کرنا اور آدھی بات چھوڑ دینا بددیانتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اہلِ حق کے ساتھ وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین