فقیہ ابن فقیہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تذکرۃ الفقہاء:
فقیہ ابن فقیہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما
نام ونسب:
ابوعبدالرحمن عبداللہ بن عمر بن الخطاب بن نفیل القرشی العدوی
ولادت باسعادت:
آپ رضی اللہ عنہماکی ولادت باسعادت تقریباًنبوت کے تیسرے سال ہوئی۔
قبول اسلام:
صحیح قول کے مطابق آپ رضی اللہ عنہمابچپن میں اپنے والد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی کلمہ پڑھا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
(الاصابۃ ج2ص1095)
فضائل ومناقب:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد دین اسلام کے وارث حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بنے ،صحابہ رضی اللہ عنہم میں کئی طبقے تھے۔
1:الفاظ پیغمبر کو محفوظ کرنے والے(محدث:وہ حضرات جنہوں نے الفاظ پیغمبر کو محفوظ کر لیا اور مِن وعن آگے امت کی طرف پہنچا دیا)
2:الفاظ حدیث سے مسائل کا استنباط واستخراج کرنے والے (مجتہد:حضرات صحابہ کرام میں سے وہ شخصیات جنہوں نے احادیث پیغمبر سے امت کی مشکلات کا حل نکالا)
3:مجتہدین کے اجتہاد کو ماننے والے وغیرہ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ شمار ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے جو محدث بھی تھے اور فقیہ ومجتہد بھی۔یعنی الفاظ پیغمبر کو بھی یاد کیا اور اللہ نے مسائل کے استنباط کی طاقت بھی عطا فرمائی۔
لسان نبوت سے آپ رضی اللہ عنہما کے صالح ہونے کی شہادت:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما وہ عظیم صحابی ہیں جس کے صالح اور متقی ہونے کی گواہی خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے چنانچہ آپ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ دو فرشتے مجھے پکڑ کر ایک کنویں کے پاس لے گئے میں ڈر کی وجہ سے یہ جملہ کہا :اعوذ باللہ من النار اعوذباللہ من النار فرشتے نے کہا ڈرنے کی کوئی بات نہیں میں نے یہ خواب اپنی ہمشیرہ امام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو بتایا انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نعم الرجل عبداللہ لوکان یصلی من اللیل ،عبداللہ بہترین شخص ہے اگر وہ تہجد کا اہتمام کرتا تو کیا ہی اچھا تھا۔آپ رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے حضرت سالم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد میرے والد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمارات کو بہت کم سوتے تھے (یعنی اکثر حصہ عبادت میں گزارتے تھے)
صحیح بخاری ج1ص529باب مناقب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما
ترمذی شریف میں آپ رضی اللہ عنہما کا ایک اور خواب مذکور ہے فرماتے ہیں کہ میں نے خواب کی حالت میں خود کو جنت میں دیکھا میرے ہاتھ میں ایک ریشمی کپڑے کا ٹکڑا ہے جنت کی جس طرف اشارہ کرتا ہوں وہ کپڑا مجھے اڑا کر وہیں لے جاتا ہے میں خواب حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو بتایا انہوں نے حضور علیہ السلام کو بتایا۔آپ علیہ السلام نے فرمایا :
ان اخاک رجل صالح
[ترمذی ج2ص222مناقب عبداللہ بن عمر]
اے حفصہ !آپ کا بھائی نیک آدمی ہے۔
اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپ رضی اللہ عنہما کے فضل وکمال۔اور زہد وتقویٰ کے معترف تھے۔سید الفقہاء حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ان املک شباب قریش لنفسہ عن الدنیا عبداللہ بن عمر
(الاصابۃ ج2ص1096)
نوجوان قریش میں حضرت ابن عمر سب سے زیادہ اپنے نفس پر کنٹرول کرنے والے تھے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
مالنا من ادرک الدنیا الامالت ومال بہا غیر عبداللہ بن عمر۔
(الاصابۃ ج2ص1096)
حضرت ابن عمر دنیا سے بالکل بے رغبت تھے۔
محبت واتباع رسول:
مومن کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے محبت اور آپ کی اتباع دونوں ضروری ہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما میں یہ دونوں وصف درجہ کمال میں موجود تھے محبت رسول کا یہ عالم تھا کہ آپ علیہ السلام کے انتقال کے بعد جب بھی آپ سفر سے واپس آتے تو سیدھا روضہ اقدس پر جاکر سلام کرتے۔حضرت نافع فرماتے ہیں :
کان ابن عمر اذا قدم من سفر اتی قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال السلام علیک یا رسول اللہ ،الحدیث
[مصنف عبدالرزاق ج3ص383رقم6753]
ترجمہ:حضرت ابن عمر جب سفر سے واپس آتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر جا کر سلام عرض کرتے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس عمل سے دو باتیں واضح ہوجاتی ہیں۔
1: قبر اسی زمین والے گڑھے کو کہتے ہیں کیونکہ آپ رضی اللہ عنہماحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر والی قبر پہ تشریف لے گئے تھے نہ کہ علیین میں۔
2: جب روضہ مبارک پر حاضری کا موقع ملے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے سلام کہنا چاہیے کیونکہ آپ علیہ السلام قبر میں زندہ ہیں۔
اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عالم تھا کہ دوران سفر جہاں جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا تھا وہاں پر آپ بھی رکتے تھے۔اس جگہ اترتے جہاں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اترے تھے۔ جہاں کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی آپ رضی اللہ عنہمابھی وہاں نماز پڑھتے تھے،یہاں تک کہ اگر حضور علیہ السلام نے کسی موقع پر کھڑے ہوکر دعا فرمائی تو اتباع رسول کے شوق میں آپ نے بھی دعا حالت قیام میں ہی فرمائی۔[جاری ہے]
’’تقویٰ‘‘
انتخاب: مولانا اشفاق احمد۔ خانپور
علامہ ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ 1916۔ 1917 میں مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ اعظم گڑھ آئے، ٹھہرے کہیں اور جگہ تھے مجھ سے ملنے آئے، میں نے چائے پیش کی تو پینے سے انکار کیا۔ انکار کی وجہ معلوم نہ ہوئے مگر بعد میں خیال آیا تو قیاس ہوا کہ چائے کی پیالیاں جو جاپانی تھیں ان پر جانوروں کی تصویریں بنی ہوئی تھیں، اس لیے ان میں پینے سے انکار کیا۔ اس سے ان کے تقویٰ و طہارت اور بزرگوں کی صحبت کا اثر معلوم ہوتا ہے۔
[علمائے دیوبند کے واقعات و کرامات: ص354]