ماہِ محرم؛فضائل و مسائل

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
ماہِ محرم؛فضائل و مسائل
متکلمِ اسلام مولانامحمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
’’محرم‘‘اسلا می سال کا اول مہینہ:
ماہ محر م الحرا م اسلا می سال کا پہلا مہینہ ہے جو اپنی بر کا ت و فضائل میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس مہینہ کی تاریخی حیثیت تو اپنی جگہ مسلم ہے لیکن اس کی حرمت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ا س مہینہ میں خصوصی اعمال اس کی عظمت کو چا ر چاند لگا دیتے ہیں۔ تاریخ اسلا می کے کئی واقعات اسی مہینہ میں پیش آئے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ تاریخ کے بیشتر اہم اور سبق آموز واقعا ت اسی مہینہ میں رو نماہو ئے۔ لہذا جہا ں ماہ محرم سال نو کی ابتداء کی نوید دیتا ہے وہیں ان واقعات وحا دثات کی بھی خبر دیتا ہے جن کایاد رکھنا امت مسلمہ کے لئے ضروری ہے۔ زندہ اقوام کی علامت یہی ہو تی ہے کہ وہ اپنی تاریخ ،اسلاف کے کا رنامو ں اور واقعات سے بے خبر نہیں رہتیں۔ تو محرم کا آغاز ہمیں ان تاریخی حقائق سے با خبر ہو نے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
سن ہجری کی ابتداء :
مسلمانوں کی با قاعدہ تاریخ کا آغاز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ہجرت سے ہوا۔ اس سے قبل مسلمان سنِ نبوت یا آنحضر ت صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری حج وغیرہ سے تاریخ کا حسا ب کیا کرتے تھے ،با قاعدہ سن مقرر نہیں تھا۔ اہل عر ب کے ہا ں مختلف واقعات مشہور تھے جن کی بنیاد پر تاریخ کا تخمینہ لگا تے تھے۔ مثلاً جنگ بسوس ، جنگ داحس ، جنگ فجار اور عا م الفیل وغیرہ۔
(الکامل لابن اثیر:ج:1:ص:13،14:)
اس لئے با ضا بطہ سن مقرر کر نے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔
جب حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلا فت آیا اور فتو حا ت کا سلسلہ بڑھا تو عر ب کے علا وہ دیگر عجم ممالک میں بھی اسلامی حکو مت با قا عدہ طور پر معرض وجود میں آئی تو انفرادی و اجتماعی اور سر کا ری سطح پر اس با ت کی ضرورت محسوس کی گئی کہ با قاعدہ طور پر کو ئی سن مقر ر کیا جا ئے۔
چنانچہ خلیفہ ثا نی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحا بہ کرام سے مشاورت فر ما ئی اور سن ہجری کا تقر ر ہوا یعنی آ نحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مدینہ کی طرف ہجرت کے واقعہ کو اسلا می تقویم کی بنیاد بنایا گیا۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر :ج:1، ص:44)
نیزحضرات صحا بہ رضی اللہ عنہم کا اس با ت پر بھی اتفاق ہوا کہ سال کی ابتدا ء ماہ محرم سے کی جا ئے۔ چنانچہ محرم ہی سے اسلا می سال کا آغاز ہونے لگا۔
(المختصر فی اخبارالبشر لابی الفداء اسما عیل بن علی :ج: 1 ص: 80،ا لہجرۃ النبویہ علیٰ صا حبہا افضل الصلوٰۃ والسلام)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل سنت ہے:
ماہ محرم سے اسلا می سال کا آغاز کرنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور دیگر صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم کے عمل ہو نے کی وجہ سے ہما رے لئے سنت کا درجہ رکھتا ہے۔اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے طریقے کی طرح خلفاء را شدین رضی اللہ عنہم کے طریقے کو بھی سنت فرمایا ہے۔ صحا بہ کرا م ؓمیں سے ہر ایک اپنی جگہ ہدایت کے آفتا ب کا رو شن ستا رہ ہے۔ لیکن ا ن میں جیسا فیض خلفاء را شدین رضی اللہ عنہم کو در جہ بدرجہ حاصل ہوا مجمو عی لحا ظ سے وہ دوسروں سے افضل واعلیٰ ہے۔اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے متصلا ً بعد انہی ہستیو ں کو اپنے دین حق کی ترویج واشا عت کے لئے زمین کی نیا بت وخلا فت سپرد فر مائی۔ یہی وجہ ہے کہ نبی علیہ السلام نے ان کو معیار حق بتلاتے ہو ئے ان کی اتبا ع کا حکم دیا۔ چنانچہ حضرت عر با ض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکر م صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشا د فرمایا:
’’ فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّا شِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ ‘‘۔
(سنن ابوداؤد:ج:2:ص:287:باب فی لزوم السنۃ)
تر جمہ :میری اور میرے خلفاء را شدین کی سنت کو لا زم پکڑو۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت پر عمل کرنا ضروری قراردیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے ا سلامی سال کی ابتداء کے لئے واقعہ ہجرت کو بنیاد قرار دے کرماہ محرم سے اس کا آغا ز فرمایا ہے۔ لہذا اسکے مطابق اپنے روز مرہ کے معمولات کا حساب لگا نا سنت پر عمل کرنا شمار ہو تا ہے۔
ماہ ِمحرم کے فضائل:
ماہ محرم اپنی فضیلت وعظمت ، حرمت و برکت اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے انفرادی خصوصیت کا حامل ہے۔ اسی وجہ سے شریعت محمدیہ علیٰ صا حبہا الصلوٰۃ والسلام کے ابتدائی دور میں اس کے اعزازو اکرام میں قتال کو ممنوع قرار دیا گیا۔ ارشاد ربا نی ہے :
’’قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ‘‘۔
( البقرہ : 217 )
ترجمہ:کہہ دیجئے اس میں قتال کرنا بہت بڑا گنا ہ ہے۔
اسے حر مت والے مہینوں میں سے بھی شمار کیا گیا ہے۔ارشاد با ری ہے :
’’ اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَاللّٰہِ اثْنَا عَشَرَشَھْراً …مِنْھَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ‘‘۔
(التوبہ : 36)
تر جمہ:مہینوں کی گنتی اللہ تعالیٰ کے نزدیک با رہ مہینے ہے …ان میں چا ر مہینے ادب کے ہیں۔
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’ اِنَّ الزَّمَانَ قَدِ ا سْتَدَارَ کَھَیْأَ تِہِ یَوْمَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوَاتِ وَالَارْضَ، اَلسَّنَۃُ اِثْنَا عَشَرَ شَھْراً، مِنْھَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ثَلَا ثٌ مُتَوَالِیاَتٌ ذُوالْقَعْدَۃِ وَ ذُوالْحَجَّۃِ وَ الْمُحَرَّمُ وَ رَجَبُ مُضَرَ الَّذِیْ بَیْنَ جُمَادٰی وَ شَعْبَانَ۔
( صحیح بخا ری :ج 2:ص: 672:باب قولہ ان عدۃ الشہورالخ )
تر جمہ : زمانے کی رفتا ر وہی ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا تھا۔ ایک سال با رہ مہینو ں کا ہو تا ہے ان میں سے چا ر مہینے حرمت والے ہیں جن میں سے تین مہینے مسلسل ہیں یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ، محرم اور ایک مہینہ رجب کا ہے جو جما دی الثا نی اور شعبا ن کے در میان آتا ہے۔
محرم کے رو زوں کی فضیلت:
یوں تو اس ماہ میں کی جا نے والے ہر عبادت قابل قدر اور با عث اجر ہے مگر احادیث مبارکہ میں محرم کے روزوں کی خصوصی ترغیب دی گئی ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرما تے ہیں:
’’ وَاَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ شَھْرِ رَمَضَانَ صِیَامُ شَھْرِاللّٰہِ الْمُحَرَّمِ‘‘۔
( مسلم :ج :1: ص: 368 :با ب فضل صوم المحرم )
تر جمہ:رمضا ن کے رو زو ں کے بعد سب سے بہتر ین رو زے اللہ کے مہینہ’’محرم ‘‘ کے رو زے ہیں۔
حضرت ابن عبا س ؓ سے روا یت ہے :
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم ’’مَنْ صَامَ یَوْماً مِنَ الْمُحَرَّمِ فَلَہُ بِکُلِّ یَوْمٍ ثَلاَثُونَ یَوْماً ‘‘۔
( غنیۃ الطا لبین للشیخ جیلانیؒ: ص:314: مجلس فی فضائل یو م عا شوراء)
ترجمہ : جو محرم کے ایک دن کا روزہ رکھے اسکو ایک مہینہ کے روزوں کا ثواب ملے گا۔
پھر اس ماہ کے تمام ایام میں سے اللہ رب العزت نے ’’ یوم عاشوراء ‘‘کو ایک ممتاز مقام عطا ء فرمایا ہے۔ یہ دن بہت سے فضائل کا حامل اور نیکیوں کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
’’وَ صِیَامُ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ احْتَسَبَ عَلَی اللّٰہِ اَنْ یُّکَفِّرَ اَلسَّنَۃَ الَّتِی قَبْلَہٗ ‘‘۔
( صحیح مسلم :ج :1: ص: 367:باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام الخ)
ترجمہ : جو شخص عاشورا کے دن کا روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعا لی اس کے گزشتہ سال کے (صغیرہ) گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔
ایک دوسری روایت میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا یہ فر ما ن ہے:
’’مَا رَأَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ و سلم یَتَحَرّیٰ صِیَامَ یَوْمٍ فَضَّلَہٗ عَلٰی غَیْرِہٖ اِلَّا ھٰذَ االْیَوْمَ یَوْمَ عَاشُوْرَا ئَ وَ ھٰذَاالشَّھْرَیَعْنِیْ شَھْرَ رَمَضَانَ‘‘۔
( صحیح بخا ری: ج:1 ص: 268 :باب صیام یو م عا شوراء)
ترجمہ : حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم رمضان المبارک کے مہینہ اور دس محرم کے دن روزہ رکھنے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
نوٹ:اہل ایمان کو یہود کی مخا لفت کا حکم دیا گیا ہے اور اس دسویں محرم کا روزہ چونکہ یہود بھی رکھتے ہیں اس لئے اب ہما رے لئے حکم یہ ہے کہ دسویں تاریخ کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا رو زہ بھی رکھیں تا کہ سنت بھی ادا ہو جائے اور مخا لفتِ یہود کا پہلو بھی نکل آ ئے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت میں ہے:
’’ قَا لَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم : صُوْمُوْا یَوْمَ عَاشُوْرَائَ وَ خَالِفُوْا فِیْہِ الیَھُوْد َوَصُوْمُوْا قَبْلَہٗ یَوْماً اَوْ بَعْدَہٗ یَوْماً‘‘۔
( مسند احمد :ج:1: ص: 241 حدیث نمبر 2154 )
ترجمہ : تم عاشورہ کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو اور اس سے ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ بھی رکھو۔
عاشوراء کے دن اہل وعیا ل پرو سعت سے خر چ کر نا :
دسویں محرم کے دن اپنی استطا عت کے مطا بق حلال آ مدنی سے اپنے اہل و عیال پر کھا نے پینے میں وسعت کر نا بر کت رزق کا ذریعہ اور فقرو فاقہ سے نجات کا سبب ہے۔حضرت جا بر ؓ سے روا یت ہے کہ رسول پا ک صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
مَنْ وَسَّعَ عَلٰی نَفْسِہٖ وَ اَھْلِہٖ یَوْمَ عَا شُوْرَائَ وَسَّعَ اللّٰہُ عَلَیْہِ سَائِرَ سَنَتِہٖ‘‘۔
( الاستذکار لا بن عبد البر المالکی ج :3: ص: 331 کتا ب الصیام )
ترجمہ : جو آ دمی اپنے آپ پر اور اپنے گھر والوں پر عاشوراء کے دن ( کھا نے پینے میں ) وسعت کرے گا اللہ تعا لی اس پر پورے سال وسعت فرما ئیں گے۔
یعنی اس مبا رک عمل کی تا ثیر یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعا لی سا رے سال رزق میں فراخی اور وسعت کر دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے جلیل القدر صحا بی حضرت جا بر ؓ ، مشہور محدث یحیٰ بن سعیدؒ اور معروف امام و فقیہ سفیان بن عیینہ ؒ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو اس کو درست اور اسی طرح پا یا۔ (ایضاً)
لیکن یہ بات واضح رہے کہ مذ کورہ امور جس درجے میں ثابت ہیں ان کو اسی درجے میں رکھ کر مانا اور عمل جائے افراط و تفریط سے از حد اجتناب کیا جائے۔
ماہ محر م کی بدعات ورسوما ت :
ماہ محرم بر کا ت کا حامل مہنیہ ہے لیکن بعض لو گ اس کی برکا ت سے فا ئدہ حاصل کر نے کی بجا ئے بدعات ورسوما ت میں پڑ کر اس کی حقیقی فضیلت سے محرو م ہو جاتے ہیں۔ذیل میں چند بدعات ورسومات کی نشاندہی کی جا تی ہے تا کہ ان سے بچ کر صحیح اعمال اختیار کیا جا ئیں۔
تعزیہ: تعزیہ کرنا نا جا ئز ہے، کیوں کہ قر آ ن مجید میں ارشاد با ری ہے:
’’أَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ‘‘
(الصافات :95)
ترجمہ:کیا تم ایسی چیزوں کی عبا دت کرتے ہو جس کو خود ہی تم نے تراشا اور بنایا ہے۔
ظاہر ہے کہ تعزیہ انسان اپنے ہا تھ سے تراش کر بنا تا ہے پھر منت مانی جا تی ہے اور اس سے مرادیں ما نی جا تی ہیں، اسکے سا منے اولاد وغیرہ کی صحت کی دعائیں کی جا تی ہیں اس کو سجدہ کیا جا تا ہے اس کی زیا رت کو زیا رت امام حسین سمجھا جا تا ہے یہ سب با تیں روح ایمان او رتعلیم اسلام کے اعتبار سے نا جا ئز ہیں۔
مجالس:
ذکر شہادت کے لیے مجالس منعقد کر نا ، ان میں ماتم کر نا، نوحہ کر نا روا فض کی مشا بہت کر نے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ کیو ں کہ حد یث شریف میں آتا ہے :
’’ مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْہُمْ‘‘۔
(سنن ابی دا ؤد:ج:2:ص:203 باب فی لبس الشہرۃ)
ترجمہ: جس نے جس قوم کی مشا بہت اختیار کی وہ اس قوم میں سے ہے۔
علامہ ابن حجر الہیثمی المکیؒ لکھتے ہیں :’
’وَاِیَّاہٗ ثُمَّ اِیَّاہٗ اَنْ یَّشْغَلَہٗ بِبِدَعِ الرَّا فِضَۃِ مِنَ النَّدْبِ وَالنِّیَا حَۃِ وَالْحُزْ نِ اِذْ لَیْسَ ذٰلِکَ مِنْ اَخْلَا قِ الْمُؤ مِنِیْنَ وَاِلَّا لَکَانَ یَوْ مُ وَفَا تِہٖ صلی اللہ علیہ و سلم اَوْلیٰ بِذٰلِکَ وَاَحْریٰ‘‘
(الصواعق المحرقہ:ج:2 :ص:534)
تر جمہ : خبر دا ر (اس محرم کا ) روافض کی بد عتو ں میں مبتلا ء نہ ہو نا جیسے مرثیہ خوا نی ، آہ بکا ہ ، اور رنج والم وغیرہ کیو ں کہ یہ مسلمانو ں کی شایان شا ن نہیں اگر ایسا کر نا جا ئز ہو تا تو ا س کا زیا دہ مستحق حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یو م وفات ہو سکتا تھا۔
محرم کے مہینہ میں شادی بیاہ نہ کر نا :
بعض لوگوںمیں یہ با ت مشہور ہو گئی ہے کہ محرم کے مہینہ خصوصاً محرم کے شروع کے دس دنوں میں شادی بیاہ اور خوشی کی تقریبات وغیرہ کرنا حرام ہے اور اس مہینہ میں خوشی کی تقریبات کر نے میں خیر وبرکت نہیں ہو تی اور وہ کا م منہوس ہو جاتا ہے اس میں بعض پڑ ھے لکھے لوگ بھی مبتلاء ہیں۔ یہ سوچ غلط ہے کیو نکہ شریعت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔شریعت میں محرم یا کسی دوسرے مہینہ میں نکا ح سے منع نہیں کیا گیا اور اس مہینہ میں زیادہ عبادت کر نے کا حکم دیا گیا ہے اور نکاح بھی ایک عبا دت ہے کیو ں کہ نکا ح سے اللہ کا قر ب اور تقویٰ نصیب ہو تا ہے۔ ایک حد یث میں آیا ہے:
’’اِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدْ کَمُلَ نِصْفُ الدِّیْنِ فَلْیَتَّقِ اللّٰہَ فِی النِّصْفِ الْبَا قِیْ‘‘۔
(شعب الایمان للبیہقی:ج:4:ص:383:رقم الحدیث:5100)
تر جمہ :جب آدمی شادی کر تا ہے تو اس کا آدھا دین مکمل ہو جا تا ہے تو اس کو چا ہئے با قی آدھے کے معا ملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔ لہذا اس ماہ میں نکاح کر ناممنوع نہیں ہے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر سبیل ادا کر نا:
بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو لوگ محرم کے دس دنو ں میں بڑی پا بندی کے ساتھ کر تے ہیں مثلاً حضرت حسین کے نام پر سبیل لگا نا اور کھانا پکا کر کھلانا اس کوکا ر ثوا ب سمجھا جا تا ہے لیکن اس میں کئی خرا بیا ں ہیں۔ محرم کے مہینہ کو خاص طور پر پہلے عشرہ میں سبیلیں لگا نا پا نی شربت وغیرہ کوخاص کر نا یہ دین میں زیا دتی ہے لوگ اس میں ایک غلط عقیدہ یہ بھی رکھتے ہیں کہ حضرت حسین ؓ کر بلا میں بھو کے پیا سے شہید ہو ئے تھے یہ کھا نا اور شربت ان کی پیاس کو بجھا ئے گا سو اس کی کو ئی حقیقت نہیں ہے۔
نوحہ :
غم اور مصیبت میں آنسوں بہہ جا ئیں اس پرشریعت میں کو ئی منع نہیں۔ لیکن نوحہ کر نا اور ماتم کر نا اور میت کے اوصا ف کو بیان کر کے رو نا گنا ہ ہے۔ کیوں کہ نوحہ کرنے ، چیخنے ، چلا نے ، کپڑے پھا ڑنے اور منہ پر طماچے ما رنے وغیرہ جیسے کا م شریعت میں منع ہیں اور آج کل جو محرم میں ماتم اور نوحہ کیا جاتا ہے یہ صبر کے بھی خلا ف ہے۔ قر آ ن کریم نے خود صبر کی تلقین کی ہے:
’’وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا بِا للّٰہِ‘‘
(النحل:127)
تر جمہ:آپ صبر کر یں آپ کا صبر کر نا اللہ کے لیے ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
’’یٰاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِا لصَّبْرِ وَالصَّلوٰ ۃِ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ‘‘
(البقرہ :153)
تر جمہ:اے ایمان والو! نماز او ر صبر کے ذریعے اپنے رب سے مدد طلب کرو ، اس لئے کہ اللہ صبر کر نے والوں کے سا تھ ہے۔
محرم الحرام کے اہم واقعا ت
1:۔ ماہ محرم 7ھ میں غزوہ خیبر پیش آیا جس میں مسلمانو ں کے مقا بلے میں یہود تھے۔ اللہ رب العز ت کی مدد ونصرت کے طفیل مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔
2:۔ ماہ محرم 18 ھ میں امین الامت ابو عبیدۃ بن الجرا ح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ؓ نے ہزاروں فرزندا ن اسلا م کے ساتھ جا م شہادت نو ش فر ما کیا۔ آپ ؓشا م وعراق کے علا قوں میں پرچم اسلام کی سر بلندی کیلئے مصروف عمل تھے۔انہیں علا قوں میں مہلک وباء ’’طاعون‘‘پھیل گئی۔جس کے نتیجے میں آپ ؓ کی شہادت ہوئی۔ آپ کی وصیت کے مطابق اردن کے شہر نحل میں آپ کی تد فین ہو ئی۔
3:۔ محرم الحرا م 18ھ میں گورنر دمشق یزید بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی وفات ہو ئی تو امیر المؤ منین سیدنا عمر ؓنے ان کے بھا ئی حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیا ن ؓ کو گورنر مقررفرمایا۔ پھر عہد عثمانی میں امیر المؤ منین سید نا عثما ن ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے آپؓ کی اما نت وذہانت،قابلیت کو دیکھتے ہو ئے لبنان،اردن اور قبلہ اول فلسطین کی گورنری بھی آپ کے سپرد کر دی۔
4:۔محرم الحرا م 21 ھ میں فاتح مصر جلیل القدر صحا بی حضرت عَمرو بن العا ص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فا تحا نہ طور پر مصر میں دا خل ہو ئے۔ آپ کی قابل قدر شا ن دار فتو حا ت کی وجہ سے امیر المؤ منین حضرت عمر فارو ق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ہی کو مصر کا گور نر مقرر فر ما دیا۔
5:۔ یکم محرم الحرا م 24ھ کو خلیفہ ثا نی حضرت عمر فارو ق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہا دت کے بعدخلا فت کی تما م ذمہ دا ریا ں صحا بہ کرا م رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے باہمی مشا ورت سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سپرد کردی گئیں،حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت کے مطا بق اراکین شوریٰ کے اسما ء گرا می در ج ذیل ہیں :
(1) حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (2)حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (3)حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ (4)حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ (5) حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ (6) حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
6:۔محرم الحرا م 37ھ خلیفہ راشد حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کا تب وحی حضرت امیر معا ویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ما بین عارضی صلح ہو نے پر جنگ صفین ختم ہوئی۔
7:۔دس محرم الحرا م 61ھ میں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میدا ن کر بلا میں اپنا اور اپنے اہل بیت کے خون کا نذرا نہ پیش کرکے رتبہ شہادت پر فائز ہو ئے اور جرأت وبہا دری کی ایک تاریخ رقم فر ما گئے۔
Īبقیہ نماز اہل السنۃ و الجماعتĨ
اِصْنَعْ کَمَاکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ۔ قُلْتُ وَکَیْفَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ؟ قَالَ کَانَ اِذَا جَلَسَ فِی الصَّلٰوۃِ وَضَعَ کَفَّہٗ الْیُمْنٰی عَلٰی فَخِذِہٖ الْیُمْنٰی وَقبَضَ اَصَابِعَہٗ کُلَّھَا وَاَشَارَبِاِصْبَعِہِ الَّتِیْ تَلِی الْاِبْھَامَ وَوَضَعَ کَفَّہٗ الْیُسْریٰ عَلٰی فَخِذِہٖ الْیُسْریٰ۔
(صحیح مسلم ج 1ص216 باب صفۃ الجلوس فی الصلوٰۃ وکیفیتہ ووضع الیدین ،سنن ابی داؤد ج1 ص149 باب الاشارۃ فی التشہد)
ترجمہ: جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے ویسے کیا کرو۔ میں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے کرتے تھے ؟ تو فرمایا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بیٹھتے تھے تو اپنی دائیں ہتھیلی دائیں ران پر رکھتے تھے اور اپنی تمام انگلیاں بند کرکے شہادت والی انگلی سے اشارہ فرماتے تھے اور اپنی بائیں ہتھیلی بائیں ران پر رکھتے تھے۔