مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تذکرہ اکابر
مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ
مولانا محمد عبد اللہ معتصم حفظہ اللہ
بیوہ کی طرح اجڑے اور مفلوج الحال ہندوستان میں جب انارکی کا دور دورہ تھا، سامراج گردی کے ہاتھوں مسلمانانِ ہند کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے، معاشی بدحالی سے روحانی زوال تک کوئی چارہ ساز نہ تھا،کوئی نہ تھا جو طوفانِ بلا خیز کے سامنے امتِ مسلمہ کی جانب سے کفایت کرتا کہ مالکِ روزِ جزا ءنے اپنے دین متین کی حفاظت کے لیے ایک شخص کو چنا جسے دنیا ’’مفتی کفایت اللہ ‘‘کے نام سے یاد کرتی ہے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ و اسعۃ
مولد ونسب:
ابو حنیفہ ہند حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی 1292 ہجری کو شاہ جہاں پور محلہ سب زئ میں پیداہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب شیخ جمال یمنی سے جا ملتا ہے جنہوں نے جزیرۂ عر ب کے ساحلی خطے یمن سے ہجرت کرکے ہندوستا ن میں سکونت اختیار کی تھی ۔آپ کے والد ماجد شیخ عنایت اللہ نہایت نیک نفس اور صاحبِ تقویٰ آدمی تھے۔ اعلیٰ کردار اور نرم گفتار کی بدولت خاندان اوراحباب واقران میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ان کی تربیت کااثر تھا کہ حضرت مفتی صاحب بچپن ہی سے سلیم الطبع اور متبع السنۃ تھے،کھیل کود سے بے رغبت اور تعلیم کی طرف مائل تھے۔شائد آپ ہی کے لیے یہ کہا گیا کہ:
یہ رنگ جلوت یہ کیف خلوت یہ جامعیت

خدا کی قدرت

یہ علم و حکمت، یہ زہد تقویٰ، جمال ایسا کمال ایسا
جہان سارا تو چھان مارا، بتاؤ انصاف سے خدارا
کہیں بھی اے مہر و ماہ دیکھا جمال ایسا کمال ایسا
تعلیم وتربیت :
حضرت مفتی صاحب کی عمر جب پانچ سال ہوئی تو ایک مقامی عالم دین حافظ برکت اللہ صاحب کے مدرسہ میں داخلہ لیا۔قرآن پاک پڑھنے کے بعد اردو ،فارسی کی ابتدائی کتابیں مولانا نسیم اللہ کے پاس پڑھیں۔اس کے بعد مولانا اعزاز حسن خان کے مدرسہ اعزازیہ محلہ خلیل شرکی میں داخل ہوئے۔ یہ مدرسہ اپنے قابل اور باصلاحیت اساتذہ کے حوالے سے بہت مشہور تھا۔ حضرت مفتی صاحب کی شخصیت بھی اسی مردم ساز ادارے سے زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوئی۔عربی اور فارسی کی ابتدائی کتابیں حافظ بدھن خان اور مولانا عبیدالحق خان صاحب سے پڑھیں۔یہ دونوں حضرات نہایت مشفق ،جوہرشناس اور اصحابِ فہم وفراست تھے۔ مولانا عبید الحق خان صاحب کی دوررس نگاہوں نےاس دُرِّ یکتا اور جوہرِ قابل کو پہچان لیا اور اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کیلئے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند بھیجنا چاہا مگر والدین غربت و ناداری اور مسافت کی دوری کی وجہ سے رضامند نہ ہوئے۔ چنانچہ طےیہ پایا کہ فی الحال آپ کو مدرسۃ الغرباء شاہی مسجد مرادآباد بھیج دیا جائے جو دارالعلوم ہی کی ایک شاخ تھی۔
1310ہجری میں حضرت مفتی صاحب کو اپنے رفیق ِدرس حافظ عبدالمجید سمیت مدرسۃ الغرباء میں داخل کرایا گیا۔ اس وقت آپ کی عمر 17سال تھی۔ مرادآباد میں آپ نےدو سال پڑھا۔ان دو سالو ں میں آپ نےاس دور کے نابغہ روزگار ہستیوں کے چشمہ ہائے صافی سے اپنے تشنہ لبوں کو سیراب کیا۔ جن میں مولانا عبدالعلیم میرٹھی صاحب ،مولانا محمد حسن صاحب اور مولانا محمد حسن سہسوانی صاحب خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔
1312ہجری میں آپ دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے۔اس وقت دارالعلوم کے صدر مدرس شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی تھے۔ دارالعلوم میں آپ کی تعلیمی مدت تین سال ہے۔ اس دوران آپ نے آسمانِ علم وعمل کے جن درخشاں ستاروں سے نشان منزل پایا ان میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندی ،مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوری اور مولانا عبد العلیم میرٹھی رحمہم اللہ کے نام قابلِ ذکرہیں۔
دیوبند اور مرادآباد کے قیام کے دوران کھانے کا ا نتظام مدرسے کی طرف سے تھا۔ تعلیم کے دیگر اخراجات خود ہی برداشت کرتے تھے۔ آپ کے والد ماجد نہایت مفلس اور نادار تھے اور خطِ غربت سے بھی نیچے خندہ روئی سے گزر بسر کر رہے تھے،اس لئے وہ آپ کے اخراجات کے متحمل نہ تھے۔آپ دھاگے کی ٹوپی کروشیا سے بُنتے اور فروخت کر تے تھے۔ دو تین دن میں ایک ٹوپی تیار ہوتی جو دو روپے میں فروخت ہوتی تھی جس سے حضر ت اپنے تعلیمی اخراجا ت پورے کرتے۔
عملی زندگی :
تقریباً 22سال کی عمر میں حضرت مفتی صاحب نے دارالعلوم سے سند فراغت حاصل کی اور وطن ما لوف واپس تشریف لے آئے۔ اس زمانے میں آپ کے اولین مربی و استاذ مولانا عبیدالحق خان صاحب مدرسہ اعزازیہ میں مبتدعین کے غلبہ سے بیزار ہو کر وہاں سے الگ ہوگئے تھےاو ر ایک نئے مدرسہ ’’عین العلم‘‘ کی بنیاد رکھی تھی۔حضرت مفتی صاحب کی وطن واپسی پر مولانا عبید الحق خان صاحب کے حکم پر ان نے مدرسہ’’عین العلم‘‘ میں تدریس شروع کی۔ 5سال تک مدرسہ ’’عین العلم‘‘ کے متعلمین کو علم وحکمت سے سیراب کرتے رہے۔
اس دور میں انگریزی نبوت کے خود کاشتہ دجال ِقادیان کا فتنہ نہایت عروج پر تھا۔ اس کی تردید میں آپ نے ’’البرھان‘‘ کے نام سے ایک رسالے کا اجراء کیا جس میں ردِ مرزائیت پر نہایت عمدہ ،ادبی، تحقیقی مضامین چھپتے تھے۔ 1321ہجری میں آپ کے مشفق استاد و مربی مولانا عبیدالحق خان صاحب کی وفات ہوگئی تو آپ نے جامعہ عین العلم سے استعفیٰ دے دیا اور جامعہ امینیہ دہلی تشریف لے گئے۔ وہاں پر آپ مسندِ حدیث و افتاء پر جلوہ افروز ہوئے۔رمضان المبارک 1338ہجری میں جامعہ امینیہ کے مہتمم مولانا امین الدین صاحب کا انتقال ہوگیاتو حضرت شیخ الہندرحمہ اللہ نے مدرسہ کا انتظام و اہتمام آپ کے سپرد کر دیا۔ اس وقت سے لے کر تادم ِ حیا ت آپ مدرسہ امینیہ کے مہتمم اور صدر مفتی بلکہ ہند و پاک کے مفتی اعظم رہے۔
طرز ِ تدریس :
طرز ِ تدریس اور طریقہ تعلیم میں حضرت مفتی صاحب اپنے استاد حضرت شیخ الہند کے نقش ِ قدم پر چلے تھے۔ آپکی تقریر انتہائی مختصراورجامع ہوتی۔مسلک حنفی کی توثیق پر دلائل اس حسن و خوبی سے پیش کرتے کہ مستفید ین یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے کہ مسلک احناف اس قدر قرآن و سنت کے موافق ومطابق ہے۔ تو دنیا اُن کو قیاسی کیوں کہتی ہے ؟ [جاری ہے ]