فتاویٰ عالمگیری

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تعارف کتب فقہ حصہ سوم
فتاویٰ عالمگیری
مفتی محمد یوسف حفظہ اللہ
ترتیب دینے کا طریق کار:
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ہزاروں مسائل کا مجموعہ نہایت احتیاط اور کڑی نگرانی میں تیار ہوا۔ اس کی جامعیت اور حسن معیار کو چار چاند لگانے کے لیے تمام ممکنہ ذرائع اور ضعف ونقص سے تحفظ کےلیے سخت احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں۔بہت منظم انداز سے مسائل کو یکجا کرتے ہوئے قابل ستائش طریق عمل میں لایا گیا۔سہولت کے پیش نظر علماء کرام کی مختلف جماعتیں بنا کر کتاب کے مضامین ومباحث کو ان میں تقسیم کردیا گیا،جس کی وجہ سے ہر جماعت نہایت جانفشانی سے اپنے متعلقہ حصہ کی ترتیب میں کوشاں رہتی۔ہر جماعت کا ایک صدر ہوتا اور ان تمام جماعتوں کے نگران اعلیٰ شیخ نظام الدین رحمہ اللہ تھے جو فتاویٰ کی تیاری سے متعلق پیدا ہونے والے مسائل وحالات براہ راست سلطان عالمگیر کے سامنے پیش کرتے۔
عالمگیر کا علمی ذوق اور فتاوی سے دلچسپی:
فتاویٰ کی تالیف میں عالمگیر نے بذات خود بے پناہ دلچسپی لی ہے اور عملی طور پر اس کام کی تیاری میں غیرمعمولی شغف اور انہماک دکھایاہے۔عالمگیر کی علم دوستی اور تدوین فتاوی سے خاص لگاؤ کی ایک جھلک تو ممتاز اور مستند علماء وفقہاء کرام کی تقرری اور ان کی مادی ضروریات کی تکمیل کے لیے بے بہا خزانہ لوٹانے سے دکھائی دیتی ہے مگر ان سب سے بڑھ کر جو بات اس کی علم دوستی کا پتہ دیتی ہےوہ یہ کہ بادشاہ وقت بلاناغہ ایک وقت مقررہ پر فتاوی مرتب کرنے والے علماء کے بورڈ کے صدر شیخ نظام الدین کو بلا کر نہایت باریک بینی اور تنقیدی نظر سے تین یا چار کا صفحات مطالعہ کرتااور شیخ نظام الدین کو غلطیوں اور لغزشوں پر متوجہ کیا کرتا۔ اس قسم کا ایک واقعہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنے والد شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ملا نظام الدین روزانہ دربارشاہی میں حاضر خدمت ہوکر عالمگیر کو فتاویٰ کے چند صفحات سنایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے عجلت میں حاشیہ کے نوٹ اور اصل متن کو ملا دیا جس سے تمام کا تمام مطلب خلط ملط ہوکر رہ گیا۔عالمگیر نے فوراً مداخلت کی اور شیخ نظام سے اس کا مطلب دریافت کیا۔شیخ نظام دم بخود رہ گئے،اپنی غلطی وکوتاہی پر معذرت چاہی اور اگلے دن صحیح مطلب بیان کرنے کی اجازت دئیے جانے کی درخواست کی۔یہ واقعہ اس پر شاہد ہے کہ خود بادشاہ وقت کا اس کام میں بہت بڑا ہاتھ تھا۔عالمگیر چونکہ بذات خود عالم دین اور مسائل فقہیہ پر نہایت گہری نظر رکھتے تھے اس لیے علماء کرام کو ان کے زیر نگرانی اپنے علمی جوہر دکھانے کا خوب موقع ملااور یہی سب سے بڑی امتیازی خصوصیت فتاویٰ عالمگیری کی ہے کہ انسان کے دائرہ اختیار میں جہاں تک غلطیوں اور کوتاہیوں پر قابو پانے کی کوشش کی جاسکتی ہے وہ اس کی ترتیب کے سلسلے میں کی گئی۔
فتاویٰ کی تدوین میں شریک علماء وفقہاء:
درست بات یہ ہے کہ فتاویٰ عالمگیری کی تدوین وترتیب میں شریک علماء کرام کی صحیح تعداد کا آج تک کسی کو پتہ نہیں چل سکا ،مختلف اصحاب تحقیق نے اس موضوع پر لکھا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جس کو جس عالم کے متعلق علم ہو ااس کا تذکرہ کردیا، حتمی تعداد کی صراحت کسی نے نہیں کی۔بعض حضرات نے تلاش بسیار کے بعد اٹھائیس اہل علم کے حالات کو یکجا کیاہے جو فتاویٰ عالمگیری کی تدوین میں شامل تھے۔شیخ نظام الدین چونکہ اس کام کے نگران اعلیٰ تھے اس لیے ذیل میں ان کا مختصر تعارف ذکر کیا جاتاہے۔
شیخ نظام الدین برہان پوری:
آپ کی پیدائش وسط ہند کے شہر برہان پور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے زمانہ کے مشہور قاضی نصیر الدین برہان پوری سے حاصل کی۔شیخ اپنی ذہانت اور علمی صلاحیتوں کی بناء پر مشہور تھے۔ اس وجہ سے شاہ عالمگیر ان کا احترام کرتا تھا۔اورنگ زیب رحمہ اللہ کے نزدیک شیخ نظام الدین اس قدر بلند علمی مرتبہ رکھتے تھے کہ وہ ان سے ہفتہ میں تین دن امام غزالی کی معروف تصنیف احیاء علوم الدین، فقہ حنفی کی مایہ ناز تالیف فتاویٰ عالمگیری اور دیگر بعض کتب سلوک کامذاکرہ کیا کرتے۔نزہۃ الخواطر میں شیخ نظام الدین سے متعلق جو کچھ مرقوم ہے اس کا حاصل یہ ہے: شیخ ،عالم،فقیہ نظام الدین برہان پوری اکابر فقہائے حنفیہ اور ان کے مشہور علماء میں سے تھے۔ ان کا شمار ان بزرگوں میں ہوتاہے جو علوم میں مکمل رسوخ رکھتے تھے اور جنہوں نے تحریر مسائل،نقل احکام اور محاسن فتویٰ نویسی میں خاص طور پر محنت کی۔ان کو قاضی نصیر الدین برہان پوری سے شرف تلمذ حاصل تھا۔جب عالمگیر اپنے والد شاہجہان کی طرف بلاد دکن میں والی کی حیثیت سے متعین تھا، تو اس نے شیخ نظام کو اپنے ساتھ وابستہ کرکے اپنے خاص مشیروں میں شامل کرلیا تھا۔
(نزہۃ الخواطر:ج5ص454)