نبوت کے مقاصد

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
مجلس الشیخ:
نبوت کے مقاصد
ترتیب و عنوانات: مفتی شبیر احمد حنفی حفظہ اللہ
4-اکتوبر2012ء بروز جمعرات حضرت الشیخ متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے خانقاہ اشرفیہ اختریہ مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ 87 جنوبی سرگودھا میں منعقدہ ماہانہ مجلسِ ذکر سے خطاب فرمایا، جس میں نبوت کے مقاصد پر مدلل اور دلنشین گفتگو فرمائی۔ افادۂ عام کے لیے اس بیان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
قال اللہ تعالیٰ: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
البقرۃ:129
[اے ہمارے رب!ان لوگوں میں خود اِنہی کی قوم سے ایک رسول بھیجیے ، جو انہیں تیری آیات سنائے ، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ بے شک آپ غالب اور حکمت والے ہے۔ ]
اللہ رب العزت نے جنات اور انسانوں کی ہدایت کے لیے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا سلسلہ جاری فرمایا، اس کا ظہور حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام پہلے شخص ہیں جنہوں نے کرہ ارض پر اپنی نبوت کا اعلان فرمایا۔ آدم علیہ السلام کے بعد انبیاء کا سلسلہ چلتا رہا اور کچھ انبیاء کے بعد حضرت نوح علیہ السلام وہ نبی ہیں کہ جب لوگوں نے ان کی بات کو نہیں مانا تو اللہ رب العزت نے کرہ ارض کے تمام انسانوں کو ختم کیا سوائے ان کے جنہوں نے نوح علیہ السلام کی بات مانی۔اس لیے اگر یہ بات کہی جائے تو بے جا نہیں کہ قیامت تک آنے والی نسل حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔
جس طرح ہمارے سب سے پہلے والد کا نام حضرت آدم علیہ السلام ہے تو کچھ وقفے کے بعد والد کا نام حضرت نوح علیہ السلام ہے۔ نوح علیہ السلام نے نبوت کا اظہار فرمایا پھر یہ سلسلہ نبوت حضرت ابراہیم علیہ السلام تک چلتا رہا۔ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے؛ ایک کا نام اسحاق،ایک کا نام اسماعیل۔حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل میں سے 4000انبیاء تشریف لائےاورحضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں سے صرف ایک نبی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں۔
بیت اللہ کی تعمیر:
جب کعبہ کی دیواروں کو کھڑا کیا جارہاتھاتوحضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ سے دعا مانگی۔کعبہ کی بنیاد تو آدم علیہ السلام کے دور سے ہے۔حوادث زمانہ کی وجہ سے کعبہ نظر نہیں آتا تھا، بنیاد آدم علیہ السلام نے رکھی ہے اس بنیاد پر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے دیواریں کھڑی کی ہیں۔حکیم الامت حضرت تھانوی
’’وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِد‘‘
[البقرۃ:127]
کا معنیٰ ’’بنیادیں‘‘ نہیں کرتے بلکہ ’’دیواریں‘‘ کرتے ہیں،حالانکہ قواعد ’’قاعدۃ‘‘کی جمع ہے اور قاعدہ بمعنیٰ ’’بنیاد‘‘ ہے ،لیکن حضرت کا ذوق دیکھیں!! اور خود فرماتے ہیں کہ ’’دیواریں‘‘ ترجمہ کرنے پر دلیل’’يَرْفَعُ‘‘ہے۔کیونکہ ’’يَرْفَعُ‘‘ کا معنیٰ ہے ’’اٹھانا‘‘ اور اٹھائی دیواریں جاتی ہیں بنیاد تو نہیں اٹھائی جاتی۔
پھر قرآن نے طرز عجیب اختیار فرمایا:
’’وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ‘‘
دونوں ناموں کے درمیان تین لفظوں کا فاصلہ لا کے اس کی طرف اشارہ ہے کہ اصل دیواریں تو حضرت ابرہیم علیہ السلام نے کھڑی کی ہیں، حضرت اسماعیل علیہ السلام ان کے معاون ہیں۔ اللہ کا احسان دیکھیں ابراہیم علیہ السلام نے دیوار کھڑی کرنی ہے اور سیڑھی پاس موجود نہیں ہے تو اللہ نے سیڑھی کا انتظام کیا۔ ایک پتھر جنت سے آیا ہے، ابراہیم علیہ السلام اس پر کھڑے ہوتے ہیں، پتھر اوپر چلا جاتا، اوپر اینٹ رکھتے ہیں ،پتھر پھر ان کو نیچے لے آتا ہے تو اللہ نے سیڑھی کا کام ایک پتھر سے لیا ہے۔اس پتھر کا نام ہے’’مقام ابراہیم‘‘ اور آج بھی وہ بیت اللہ کے مطاف میں موجود ہے اور آج بھی اس پتھر پر ابراہیم علیہ السلام کے پاؤں کے نشان موجود ہیں۔ پتھر پہ تو کبھی پاؤں کے نشان نہیں بنتے لیکن معجزہ در معجزہ ہےکہ ایک پتھر دیا اور پتھر کے اوپر ایک پاؤں کے نشان بن گئے۔
دعائے حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل علیہما السلام:
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام دونوں نے جب کعبہ کی تعمیر کی ہے اس وقت اللہ سے دعا کی ہے:
’’رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ‘‘
[البقرۃ:129]
اے اللہ! ہم نے کعبہ کھڑا کردیا ہے ،تیرے فرمانے پر ہم نے علاقہ چھوڑ دیا،یہاں پر آگئے تیرے حکم پر ہم نے تیرا گھر بنا دیا ہے، بلکہ ایک روایت میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے جو حکم دیا تھا:
’’ وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ ‘‘
[الحج:27]
اے ابراہیم! آپ یہاں پہ کھڑے ہوں اوراعلان کر دیں،اعلان کرنا آپ کا کام ہے اور دور دراز سے حاجیوں کو خانہ کعبہ تک پہنچانا میرا کام ہے۔ روایت میں ہے کہ جس پتھر پہ کھڑے ہو کر آواز لگائی تھی اس پتھر کا نام بھی’’مقام ابراہیم‘‘ ہے۔
[مشارق الانوار للقاضی عیاض: ج1 ص393]
جنہوں نے’’لبیک اللہم لبیک‘‘ کہہ دیا تھا وہ دھڑا دھڑ آج حج کے لیے وہاں پر خانہ کعبہ پہنچ رہے ہیں۔اللہ پاک ہم سب کو جانے کی توفیق عطا فرمائے۔
حج بیت اللہ کے چند آداب:
وہاں حج پر لوگ جاتے ہیں لیکن بغیر اصلاح کے جاتے ہیں۔ میری بات کا بر ا محسوس نہ فرمانا میں نے خانہ کعبہ میں ایسے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ آپ یقین فرمائیں، کیونکہ شیخ سے تعلق نہیں ہے،تزکیہ نہیں ہے ،خانقاہوں سے جوڑ نہیں ہے، گناہوں سے توبہ کی توفیق نہیں ملی تو پھر وہاں صفا اور مروہ کےدرمیان سعی کے دوران موبائل میں تصویریں بن رہی ہیں !!!، بتاؤ! بیت اللہ میں کھڑے ہیں اور اپنی بیوی کی تصویر بنا رہے ہیں، بیت اللہ میں کھڑے ہیں اور گروپ فوٹو بن رہے ہیں ، کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کے بھی انسان گناہوں کے اندر مبتلا ہے۔
تو میں سمجھا یہ رہاتھا کہ آپ کعبہ پر جائیں۔لیکن جانے سے پہلے دل کا تزکیہ ضروری ہے۔ خدا کی قسم دل کو صاف نہیں کرو گے تو جاتے وقت جہاز میں ائیر ہوسٹس کو دیکھو گے، میں جھوٹ نہیں بولتا، میں نے ایک گروپ کے ساتھ عمرہ کیا، ہمارا چیمبر آف کامرس لاہور کا وفد تھا ، پہلے یمن گئے، پھر جدہ، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ گئے ،عمرہ کر کے جب واپس آئے تو زم زم ٹاور میں سب سے قیمتی ہوٹل ہیں،وہاں آئے اور آتے ہی ایک صاحب نے ٹی وی آن کیا، انڈین فلم دیکھ رہے ہیں۔ کہاں؟ مکہ مکرمہ میں اور آئے کدھر سے ؟حرم سے۔ ایسا کیوں ہوا؟ کہ دل کا تزکیہ نہیں تھا۔ بتاؤ!یہ حج اور عمرہ انسان کو کیا فائدہ دے گا؟اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تومیں کہہ رہا تھا کہ ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام نے اللہ سے دعا مانگی ہے ،دعا کب مانگی ؟ جب بیت اللہ کی دیواریں کھڑی کر رہے تھے او ر ساتھ اللہ سے دعا بھی مانگ رہے تھے۔ اس سے یہ بات سمجھ آئی کہ جب اللہ کسی دینی کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے تو اس وقت ساتھ ساتھ اللہ سے قبولیت کےلیے دعائیں بھی کرنی چاہییں۔
’’اللہ! ہم نے کعبہ بنا دیا ہے، اب تجھ سے دعا مانگتے ہیں:یہاں ایک ایسا بندہ پیدافرما دے جو اس کعبہ کی آبادی کا سبب بن جائے۔ ‘‘
پھر اللہ نے کس کو پیدا فرمایا ؟اسماعیل کی نسل میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا فرمایا۔ اب دیکھو پوری دنیا کا دل دھڑکتاہے اس کعبہ کے ساتھ۔
قبلہ کی حقیقت:
اچھی طرح بات سمجھنا ہمارا قبلہ اس کمرے کا نام نہیں ہے بلکہ اس جگہ کا نام ہے جہاں کعبہ کا کمرہ تعمیر ہے، علامہ شامی نے فتاویٰ شامیہ میں لکھا ہے :
لَوْ ذَهَبَتِ الْكَعْبَةُ لِزِيَارَةِ بَعْضِ الْأَوْلِيَاءِ فَالصَّلَاةُ إلَى هَوَائِهَا
رد المحتار:ج5،ص252، فصل في ثبوت النسب
اگر کعبہ کسی ولی کی کرامت سے مکہ سے چلے اور ولی کے پاس پہنچ جائےتو ہمارا قبلہ پھر بھی تبدیل نہیں ہوگا بلکہ اس جہت کی طرف منہ کر کے نماز ادا کریں گے جہاں کعبہ تعمیر ہے۔تو ہم خانہ کعبہ کی عبادت نہیں کرتے بلکہ کعبہ کے خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ کمرہ وہاں پہ بطور نشانی کے رکھا ہے۔اللہ تعالی ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ایک ہندو نے ایک مولانا صاحب سے سوال کیا ،اس نے کہا: مولانا صاحب! یہ عجیب بات ہے کہ جب ہم ہندو لوگ ایک چھوٹے سے پتھر کی پوجا کریں تو تم ہمیں ’’مشرک ‘‘کہتےہو اور تم اتنا بڑا پتھر کا کمرہ پوجتے ہو اور تم کو کوئی مشرک نہیں کہتا ،ہم بھی پتھر کو پوجتے ہیں تم بھی پتھر کو پوجتے ہو تو دونوں مشرک ہوئے ، ہم میں اور تم میں کیا فرق ہے ؟ مولانا نے برجستہ جواب دیا :
کافر ہے جو سجدہ کرے بت خانہ سمجھ کر
سر رکھ دیا ہم نے در جاناناں سمجھ کر
’’جاناناں‘‘ کہتے ہیں محبوب کو جس پر آدمی جان فدا کرتا ہو یعنی ہم نے بت خانہ سمجھ کر سجدہ نہیں کیا ،ہم نے محبوب کا در سمجھ کے سجدہ کیا ہے۔
دعا کا ثمرہ:
میں عرض کر رہا تھا کہ سیدنا ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام نے دعا مانگی، اللہ نے ان کی نسل میں سے نبی دئیےجن کا نام محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق چونکہ بہت گہرا ہے۔ اس لیے جو سنتیں اور طریقے حضرت ابراہیم علیہ السلام کےچل رہے تھے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےان میں سے اکثر کو باقی رکھا۔ ناخن تراشنا،بغل کے بال صاف کرنا، جسم کے بال صاف کرنا،مسواک کرنا یہ ابراہیم علیہ السلام کے طریقے ہیں۔ یہ طریقے جو ابراہیم علیہ السلام نے دیے تھے ان میں سے ایک طریقہ قربانی کا بھی ہے۔
امت اور ملت میں فرق :
یہاں ایک چھوٹا سا نکتہ ذہن میں رکھیں۔ ہم ابراہیم علیہ السلام کی ملت ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں۔ امت اور ملت میں کیافرق ہے ؟ اصولوں کے اشتراک سے ملت بنتی ہے اور اصول وفروع کے اشتراک سےامت بنتی ہے۔ جن کے اصول ایک ہوں انہیں ’’ملت‘‘ کہتے ہیں اور جن کے اصول و فروع ایک ہوں انہیں ’’امت‘‘ کہتے ہیں۔ تو اصول میں ہم ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہیں ،لیکن فروع اور پوری شریعت میں ان کے پابند نہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پابند ہیں۔ تو’’ملت‘‘ ہم ابراہیم علیہ السلام کی ہیں اور’’ امت‘‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں۔
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اللہ سے جو دعا ئیں مانگیں ہیں ان میں سے ایک دعا کا تذکرہ کرکے تھوڑی سی بات عرض کرنی ہے۔دعاکیا مانگی ؟
’’رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ‘‘
اے اللہ!یہ مکہ آباد ہو گا تو ان کی نسل میں ایک رسول بھیج،رسول ایسا ہو’’يَتْلُوْ عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ‘‘جوتیرے قرآن کی تلاوت کرے ’’وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ‘‘پھران کو قرآن کا ترجمہ اور تفسیر سمجھائے’’وَالْحِكْمَةَ‘‘ ان کو حکمت سمجھائے’’وَيُزَكِّيهِمْ‘‘ان کے دلوں کو پاک کرے’’إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ‘‘اللہ تو عزیز اور حکیم ہے ،یہ ہماری آپ سے دعا ہے۔ اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سیدناابراہیم علیہ السلام کی دعا کانتیجہ ہیں۔
مقصدِ نبوت؛چار کام:
تو کام کتنے مانگے؟(1)قرآن کی تلاوت کرنا(2) قرآن کو سمجھانا(3) حکمت سمجھانا(4) دلوں کو پاک کرنا۔یہ چار کام اس نبی نےکرنے ہیں اور نبی والے یہی چاروں کام اللہ نے اس امت کے ذمہ لگائے ہیں۔ ’’يَتْلُوْ عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ‘‘ تلاوت قرآن،یہ کام دنیابھرکے قراء کر رہے ہیں،’’وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ‘‘ اور ’’وَالْحِكْمَةَ‘‘یہ ہمارے علماءکے ذمے ہے۔ قرآن کی تفسیر وتشریح علماء کے ذمے ہے ،پروفیسروں ،ڈاکٹروں کے ذمے نہیں ہے، نہ یہ کام ان کے ذمے ہے نہ ان کے دروس سن کے اپنا ایمان برباد کریں۔
صحیح بخاری میں ہے:
اسْتَقْرِئُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ فَبَدَأَ بِهِ وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ
[رقم الحدیث:3758]
[چار آدمیوں سے قرآن سیکھو! عبد اللہ بن مسعود، سالم مولی ابو حذیفہ، ابی بن کعب اور معاذ بن جبل]مطلب یہ ہےکہ یہ اسپیشلسٹ ہیں ان سے پڑھنا۔ ہاں پروفیسر عالم ہوتو اور بات ہے ،اگر عالم نہیں تو اس کو کوئی حق نہیں کہ قرآن کی شرح کرے۔’’وَيُزَكِّيهِمْ‘‘ تزکیہ والا کام خانقاہوں والا ہے۔ تو تلاوت کا کام قراء کرتے ہیں، تعلیم کتاب اور حکمت کا کام علماء کرتے ہیں اور تزکیہ والا کام خانقاہ والے کرتے ہیں۔
تحدیث بالنعمۃ:
میں تحدیث بالنعمۃ کے طور پر کہتا ہوں کہ وہ مراکز کتنے اچھے ہوں گے جہاں پر قاری تلاوت والا بھی ہو،تفسیر والے علماء بھی ہوں اور تزکیہ والے شیخ اور مرشد بھی ہوں۔ جیسے ایک سپر جنرل سٹور ہوتا ہے جہاں ساری کی ساری اشیاء ملتی ہیں۔ میں کہتا ہوں اللہ نے اس مرکز [اہل السنۃ و الجماعۃ]میں بحمد اللہ ساری نعمتیں عطا فرما دی ہیں۔ آپ قرآن پڑھنا چاہیں پڑھانے والے موجود ہیں ،تفسیر پڑھنا چاہیں پڑھانے والے موجود ہیں ،اللہ اللہ کرنا چاہیں تو خانقاہ کھلی پڑی ہے۔ دنیا کے کسی کونے میں جائیں گےتو آپ اس مرکز کے اثرات محسوس کریں گے ان شاء اللہ۔ میں بحرین کے دورے پر تھا، مجھے اتنا تعجب ہوا کہ وہاں بنگلہ دیش کے ، برما کے، پاکستان کے، دیگر ملکوں کے علماء آرہے ہیں۔ مولانا!آپ کے بیانات سنے ہیں ،استفادہ کے لیے آ سکتے ہیں؟ میری سی ڈیز بہت تقسیم ہوئیں مولانا طارق جمیل صاحب کے دفاع میں ،فضائل اعمال کے دفاع میں، آپ یقین فرمائیں مجھے ایک پولیس ملازم نے کہا: مولانا بحرین میں پہلی بار جب توصیف الرحمٰن غیر مقلد آیا تھا تو اس کے مجمعے دیکھنے والے تھے اور جب آپ کی سی ڈیز تقسیم کی گئیں تو آئندہ وہی توصیف الرحمٰن تھا اور اس کی تقریر سننے والا کوئی نہیں تھا۔ اس نے کہا: ہم سے پوچھیں اس دو گھنٹے کی سی ڈی میں کیا کمال ہے ؟ پاکستان والوں کے ہاں تو اس کی قدر نہیں ہے، ہم سے پوچھو! خیر میں بات کہہ رہا تھا کہ چار کام ہیں اور نبی نےچاروں کام کیے اور ہر میدان میں شاہ سوار پیدا کیے۔
پہلا کام:تلاوت قرآن
اس کامطلب ہے کہ مخارج کے ساتھ اورعربی لہجے کے ساتھ تلاوت کی جائے۔
دوسرا کام:تعلیم قرآن
اس سے مراد قرآن کامعنی اور تفسیر ہے، جو علماء کے ذمے ہے نہ کہ ڈاکٹروں اور پروفیسروں کے ذمے۔ ان کے درس میں نہ شرکت کیا کرو، نہ سنا کرو، اس شرکت نہ کرنے پر تمہیں گناہ نہیں ملے گا۔
تیسرا کام:تعلیم حکمت
اس پر چھوٹی سی بات کرنا چاہتا ہوں۔علامہ آلوسی مفتی بغداد رحمہ اللہ نے حکمت کے پانچ معنی بیان فرمائے اور یہ وہ شخص ہیں جن کے پاس مطالعہ کے لیے چراغ نہیں ہوتا تھا۔خود فرماتے ہیں:کُنْتُ اُطَالِعُ الْکُتُبَ فِیْ ضَوْءِ الْقَمَرَ۔[میں چاند کی روشنی میں کتب کا مطالعہ کرتا تھا]پھر جب روح المعانی لکھ کے بادشاہ کو پیش کی تب پتہ چلا کہ بغداد میں کتنا بڑا عالم اور مفتی رہتا ہے۔ تو وہ فرماتے ہیں حکمت کے پانچ معنی ہیں:
حکمت کے معانی:
معنی نمبر1:حَقَائَقُ الْکِتَابِ وَ دَقَائِقُہٗ۔۔۔ یعنی ایسا نبی عطا فرما جو ان کو دین کی باریکیاں سمجھائے۔ میں ایک بات کہتا ہوں:عقل کے چار درجے ہیں۔ ایک درجہ نابالغ کا ،ایک درجہ بالغ کا ،ایک درجہ عالم کا اور ایک درجہ نبی کا۔ نا بالغ کی عقل نہ حکم سمجھتی نہ حکمت سمجھتی ہے، بالغ حکم سمجھتا ہے حکمت نہیں سمجھتا، اس لیے یہ حکم کا پابند ہے۔ لوگوں کو حکمتیں نہ بتایا کرو آتی ہوں تب بھی نہ بتایا کرو ورنہ ہر مسئلہ پر حکمتیں پوچھیں گے، جب نہیں بتاؤ گے تو پھر بے دین ہو جائیں گے۔ کیونکہ عام آدمی حکم سمجھتا ہے حکمت نہیں سمجھتا۔ اس کے بعد عقل ہے عالم کی جو حکم بھی سمجھتا ہے حکمت بھی سمجھتا ہے لیکن حکمت وحی سے نہیں سمجھتا بلکہ اجتہاد سے سمجھتا ہے جس میں خطا بھی ہوسکتی ہےاور نبی حکم بھی سمجھتا ہے اور حکمت بھی سمجھتا ہے اور وحی کے ساتھ سمجھتا ہے جو یقین کے درجہ میں ہوتی ہے۔
حکمت ہر آدمی نہیں جانتا۔ حکمتوں کو بیان کیا ہے امام غزالی نے ،پھر شاہ ولی اللہ دہلوی نے پھر قاسم العلوم والخیرات حضرت نانوتوی رحمہم اللہ نے۔ان شخصوں پر حکمتیں ختم ہیں۔
معنی نمبر2: اَلْفَہْمُ فِی الدِّیْنِ۔۔۔دین میں سمجھ۔ اللہ دین میں سمجھ عطا فرمائے۔میں ایک بات کہتا ہوں طلباء کو اور مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے کہ میں جو بھی جملہ کہتا ہوں آپ کو میرا ہر جملہ اپنے کسی نہ کسی اکابر کی کتاب میں مل جائے گا۔ایک ساتھی مجھےکہنے لگا آپ کہتے ہیں اجماع’’معصوم ‘‘ہے ، یہ کہاں لکھا ہے؟ ابھی جب تفسیر عثمانی دیکھ رہا تھا تو اس میں حضرت عثمانی رحمہ اللہ نے’’وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ‘‘کےتحت محکم کا معنی بیان کرتے ہوئےلکھا ہے کہ ایک محکم ہے ،ایک متشابہ ہے۔ محکم وہ ہوتا ہے جس کا معنی نصوص مستفیضہ سے واضح ہو یا اس کا معنی’’اجماع معصوم‘‘واضح کردے۔ میں نے کہا اجماع کو معصوم علامہ عثمانی نے لکھا ہے۔
میں نے تخصص کے طلباء کو کہا تھا ہمارے ہاں دو شرطیں ہیں۔نمبر ایک: مولوی ہو، نمبر دو:بے وقوف نہ ہو۔ میں سوچ رہا تھا یہ کہاں سے ملے گا؟ آج میں اپنے شیخ حضرت حکیم صاحب کا وعظ پڑھ رہا تھا ، حضرت نےفرمایا :حکمت کا ایک معنی ہے:’’دین میں سمجھ‘‘،تو اگر یہ مولوی بے وقوف ہوگا تو بلاوجہ طاقت کا استعما ل کر ے گا۔ اس لیے سمجھ کا ہونا ضروری ہے۔ یہ علم اکابرین کی جوتیاں اٹھانے سے ملا ہے۔ جب آدمی ان مراحل سے گزرتاہے پھر سمجھ آتی ہے۔
ایک واقعہ شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمہ اللہ کا حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے نقل فرمایا ہے کہ ایک بندہ مرید ہوگیا اور تھا بریلوی، آ کے مسئلہ پوچھا: جی! میں درود لکھّی پڑھتا تھا،درود تاج پڑھتاتھا،اب پڑھوں کہ نہ پڑھوں ؟ اب اگر حضرت فرماتے کہ نہ پڑھو، بدعت ہے ،تو دوڑ جاتا، تو حضرت نے یہ نہیں فرمایا ، اب دین میں سمجھ دیکھو، فرمایا:ایک درود وہ ہے جو علماء نے بنایا اور ایک وہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا ہے، بتاؤ کونسا افضل ہے؟ اس نے کہا :حضور والا۔ فرمایا: یہ مولویوں نے لکھا ہے جو میں بتاتا ہوں وہ حضور نے بتایا ہے ، اب بتا کون سا پڑھے گا ؟ اس نے کہا: حضور والا۔ اب دیکھو بدعت سے بچا کے سنت پر لگا دیا اسے کہتے ہیں’’ اَلْفَہْمُ فِی الدِّیْنِ‘‘۔
معنی نمبر3:طَرِیْقُ السُّنَّۃِ۔۔۔ سنت کا راستہ۔ اللہ ہمیں سنت پر چلنےکی توفیق عطا فرمائے۔
معنی نمبر4: وَضْعُ الشَّئِ فِیْ مَحَلِّہٖ۔۔۔ کسی بھی چیز کو اپنی جگہ پر رکھنا، جو عضو اللہ نے جس مقصد کےلیے پیدا فرمایا اس کے لیے استعمال کرنا۔بس حکمت کا معنی یہ ہے کہ ہر چیز کو جس مقصد کے لیے ہے اسی کے لیے استعمال کرنا۔
معنی نمبر5: مَا تکملُ بھا النفسُ من المعانی والاحکام۔۔۔ جس کے ذریعے نفس کی تکمیل ہو۔
چوتھا کام: تزکیہ نفوس
کہ انھیں شرک، معاصی، شکوک و شبہات جیسے امراض سےبچائے اور توحید، نیکی اور اطمینان جیسے اعمال و اطوار سے مزین کرے۔ اللہ ہم سب کا تزکیہ فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
وآخر دعوانا عن الحمد للہ رب العٰلمین
انا للہ و انا الیہ راجعون
فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی دامت برکاتہم امیر انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے چچا ملک عبد الغنی وفات پا گئے ہیں۔ مدیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین