پنجہ آفتاب کا سفرِپنجاب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
پنجہ آفتاب کا سفرِپنجاب
مولانا محمد عبد اللہ معتصم
متکلم اسلام،سفیر احناف حضرت مولانا محمد الیاس گھمن دامت فیوضہم نے پنجاب کے مختلف علاقوں کا مختصر تبلیغی دورہ کیا۔
اس دعوت ایمان واتقان کا آغاز درس قرآن سے ہوا جو 11 اکتوبر کو فیصل آباد میں ہوتا ہے۔ موقع کی مناسبت سے درس کا عنوان ’’فضائل ومسائل قربانی‘‘ تھا، اہل علم اور عوام کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔رات قیام استاد جی کی تیسری اہلیہ کے گھر فیصل آباد تھا۔
12 اکتوبر کو ہم لاہور عازم سفر ہوئے وہاں حضرت الاستاذ انوار القرآن مرکزی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھائی خطبہ جمعہ میں تحفظ ناموس رسالت کے حوالے سے حضرت استاذ محترم نے مفصل گفتگوفرمائی۔بعداز جمعہ لاہور بیدیاں کے مقام پرواقع مسجد بلال کی افتتاحی تقریب میں شرکت فرمائی۔استاد جی نے کلمات تبریک ارشاد فرمائے اور مسجد کی تعمیر وترقی کے لیے دعا فرمائی۔ ،رات بعد از نماز عشاء حسب سابق جامعہ حقانیہ میں درس قرآن رہا۔
13۔ اکتوبرصبح 9بجے جامعہ اشرفیہ لاہور میں دورہ حدیث کے طلباء سے حضرت نے بیان فرمایا اور امت کے عقائد واعمال کی اصلاح کے لیے علماء کرام کو ان کی ذمہ داریوں کااحساس دلایا۔ظہر کی نماز کی بعد تبلیغی مرکز رائے ونڈ کے امام مولانا جمیل صاحب سے حضرت استاذ محترم نےملاقات کی۔مولانا جمیل صاحب نے امت کے ایمان واعمال کو بچانے کے حوالے سے حضرت کی مساعی کو سراہا اور اسے دور حاضر کی ایک اہم ضرورت قرار دیا۔رات حضرت جی کا اوکاڑہ بیان طے تھا، وہاں پر مفتی رشید احمد صاحب کی زیر نگرانی منعقد ایک عظیم الشان کانفرنس میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی عظمت کو عقلی ونقلی دلائل سے ثابت کیا۔دوران بیان سٹیج پر اکابر علماء بیٹھے ہوئے تھے جنہوں نے حضرت الاستاذ کی تائید و تصویب فرمائی۔ رات قیام جامعہ اشرفیہ اوکاڑہ میں رہا۔
14 اکتوبر کو حضرت الاستاذ بورے والا ضلع وہاڑی میں جلوہ افروز ہوئے۔ راستے میں جو مدارس تھے یا حضرت کے متوسلین ومتعلقین تھے ان سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ بعداز ظہر قاری طیب حنفی صاحب دامت برکاتہم کی زیرنگرانی جامعہ حنفیہ بورے والا میں منعقد کانفرنس میں ’’کلمہ طیبہ کا معنی ومفہوم‘‘ کے عنوان سےحضرت الاستاذنے وکیلانہ طرز پر گفتگو فرمائی۔اس کے بعد مدرسہ میں مختصر قیام فرمایا رات کو 67شہیداں والا ضلع پاکپتن میں’’عقیدے کا تحفظ‘‘ کے عنوان سے حضرت الاستاذکا بیان ہوا۔ بیان کے بعد سرگودہا کی طرف روانہ ہوئے کیونکہ اگلے دن حضرت الاستاذ کی عدالت میں پیشی تھی۔اس موقع پر مجھے اندازہ ہوا کہ اللہ نے حضرت الاستاذ کو کس قدر دردِ دل اور مسلمانوں کے عقائد واعمال کو بچانے کااحساس عنایت فرمایا ہے۔حفظِ مراتب اور پاسِ وضع سے قطع نظر،دنیاوی مفاد سے صرفِ نظر کرکے سعی وکوشش فرما رہے ہیں۔ صبح عدالت نے آڈر جاری کردیا کہ تاریخ 20۔اکتوبر تک موخر ہے۔چارگھنٹے سفر،ناگفتہ بہ تھکاوٹ،ایک ایک دن میں چار چارجلسے اور ان سب پر مستزاد عدالتی فیصلہ ’’ تاریخ موخر ہے‘‘۔۔۔۔کتنا بڑا سینہ چاہیے ان چیزوں کو برداشت کرنے کے لیے!
ہم جیسے خوشہ چیں حیرن ہوتے ہیں ان نکتہ چینوں پر جو آرام دہ کمروںمیں بیٹھ کر اُن علماء کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں جن کی سفر کی مشکلات سے ہی پتہ پانی ہو جاتا ہے لیکن میں حضرت کے چہرے کو دیکھتا ہوں کہ یہ سب چیزیں کسی قدر حوصلے سے برداشت کررہے ہیں۔چہرے پر پھیلی حسین مسکراہٹ ختم نہیں ہوتی۔
15اکتوبر کو میاں چنوں ضلع خانیوال کا سفر تھا، ظہر کو ہم سرگودہا سے چل پڑے راستے میں چند علماء کرام سے مسلکی حوالےسے ملاقاتیں ہوئیں۔مغرب تک ہم وہاں پہنچ گئے، رات 8بجے بیان شروع ہوا جو تقریباً2گھنٹے تک چلتارہا۔ حضرت الاستاذ نے ’’انجنئیر اور فقیہ‘‘ کے عنوان پر مفصل گفتگو فرمائی۔شرکاء ِبیان کے اشکالات کے جوابات دئیے اور وہ لوگ جو غیر کے پروپیگنڈوں کی وجہ سے بیان سے پہلے مغموم ومضطرب چہروں کے ساتھ آئے تھے بیان کے بعد مطمئن ومسرور نظر آرہے تھے۔ رات قیام خانقاہ مالکیہ مولانا خواجہ عبدالماجد صدیقی صاحب دامت برکاتہم کے ہاں خانیوال میں رہا۔ حضرت خواجہ صاحب کی درخواست پر حضرت الاستاذ نے بعداز فجر اصلاحی بیان فرمایا۔ بیان کے بعد ناشتہ حضرت صدیقی صاحب کے ہاں کیا۔
دورانِ ناشتہ حضرت صدیقی صاحب کے پوچھنے پر حضرت الاستاذنے ’’اتحاد اہل السنۃ و الجماعۃ‘‘ میں شمولیت کی وجہ بتائی کہ عقائد کے حوالے سے حنفیوں کی حالتِ زار کےپیشِ نظر اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اس کام کا بیڑہ اٹھانے کا داعیہ پیدا کیا تو بزرگوں کے مشورے سے میں نے اس وادی بر خار میں قدم رکھا۔اس کے بعد ہم نے حضرت خواجہ دامت برکاتہم سے اجازت لی اور مظفر گڑھ کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں جامعہ قادریہ حنفیہ ملتان اور اس کی شاخ جامعہ خالد بن ولید قادر پور راواں میں حضرت الاستاذ نے علماء وطلباء سے ملاقاتیں کیں۔ اس کے بعد شاہینِ ختمِ نبوت مولانا اللہ وسایا صاحب دامت برکاتہم کی دعوت پر دفتر ختم نبوت حضوری باغ ملتان تشریف لے گئے، وہاں پر مولانا عزیز الرحمن صاحب دامت برکاتہم سے بھی ملاقات ہوئی۔4بجے ماڑہ ضلع مظفر گڑھ میں حضرت الاستاذ نے عظمت امام اعظم رحمہ اللہ اورتقلید کی اہمیت وضرورت پر بیان فرمایا۔رات حضرت الاستاذ کا جتوئی میں بیان تھا۔ راستے میں مولانا یحییٰ عباسی دامت برکاتہم کے شدید اصرار پر حضرت الاستاذ کچھ دیر ان کے ہاں رکے اور ان کے لیے دعائے خیر فرمائی۔
جتوئی میں حضرت الاستاذ نے ’’حیاۃ الانبیاء علیہم السلام ‘‘ کے عنوان پر مفصل بیان فرمایا، جس میں عوام وخواص کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔رات قیام جامعہ امدادیہ حبیب المدارس میں رہا۔بعداز فجر طلباء وعلماء سے عقیدے کے تحفظ کی اہمیت پر بیان فرمایا۔ بیان کے بعد مدرسہ کے مدیر پروفیسر محمد مکی صاحب کے ساتھ نشست ہوئی،جس مین عقیدہ حیاۃ الانبیاء علیہم السلام کی اہمیت کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ کی حیات ،خدمات اورواقعات کا تذکرہ ہوا،10بجے حضرت نے کلر والی میں ’’مسائل وفضائل قربانی‘‘ کے عنوان پر بیان فرمایا۔بیان کے بعد مقامی علماء کرام سے ملاقاتیں کیں۔ظہر کو جامعہ اسلامیہ مدنیہ مظفر گڑھ شہر تشریف لے گئے۔ مہتمم صاحب اور دیگر علماء سے نشست ہوئی۔ قریب ہی ایک جگہ پر حضرت مولانا عبدالستار تونسوی دامت برکاتہم کی قیام گاہ تھی۔حضرت الاستاذنے وہاں جاکر ان سے ملاقات کی ، ان کی اہلیہ کی وفات پر تعزیت بھی کی اور رد ِرافضیت پر عالمی کام کرنے کے حوالےسے ان سے گفتگو فرمائی۔ آگے حضرت کا سفر ڈیرہ غازیخان کی طرف تھا۔بعد از ظہر3 بجے جامعہ عبداللہ بن مسعود لاڈن میں حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت واہمیت پر بیانفرمایا۔ دورانِ بیان سٹیج پر ناظم اعلیٰ جمعیۃ علماء اسلام ڈی جی خان اور دیگر علماء وشیوخ جلوہ افروز تھے۔مغرب کی نماز حضرت الاستاذ نے جامعہ ابو ہریرہ شاخ رائیونڈ بمقام سناواہ تحصیل کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ میں ادا فرمائی۔ نماز کے بعد علماء وطلباء کے ایک بڑے مجمعے سے حضرت الاستاذنے خطاب فرمایا۔ بیان کے بعد مدرسے کے مہتمم صاحب اور دیگر اساتذہ سے ملاقات ہوئی، حفظان اعمال وعقائد پر گفتگو ہوئی۔رات قیام کوٹ ادو میں تھا، راستے میں جامعہ مظاہر العلوم کوٹ ادو کی طرف حضرت نے گاڑی موڑ دی اور مدرسے کے اساتذہ کے ساتھ نشست ہوئی۔
8 اکتوبر صبح ہم لیہ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں مختصر وقت کے لیے ڈاکٹر لیاقت صاحب کے ہاں آرام کیا۔ ظہر تین بجے حضرت الاستاذ نے لیہ بستی کمہاراں میں اصلاحی بیان فرمایا، ساتھ مجلس ذکر بھی ہوئی۔ مغرب کلی نماز کے بعد مولانا عبد اللہ صاحب دامت برکاتہم سابق امیر پنجاب جمیعت علماءاسلام سے نشست ہوئی۔ حضرت الاستاذ کی مسلکی خدمات اور ایامِ اسارت موضوعِ سخن رہا۔ رات 9 بجے بھکر حسین آباد میں حضرت الاستاذ نے ’’صراط مستقیم ‘‘ کے عنوان پر ڈیڑھ گھنٹہ مفصل گفتگو فرمائی۔ بیان کے بعد مفتی عبد الواحد قریشی صاحب کے ہمراہ ڈی آئی خان کا سفر شروع کیا جو ایک قافلہ کی شکل میں حضرت الاستاذ کو لینے آئے تھے۔ رات قیام مفتی صاحب کے گھر رہا، اگلے دن سے صوبہ سرحد کا سفر تھا۔