الموافقہ بین الحدیث والفقہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
آثار التشریع
الموافقہ بین الحدیث والفقہ
ٍعلامہ خالد محمود
پی- ایچ- ڈی لندن
اس کی تفصیل ہمارا اس وقت کا موضوع نہیں۔حضرت امام شافعی اپنے رسالہ میں اس موضوع کی ایک حدیث پر نہایت مفید بات کہہ گئے ہیں:
دَلَّ عَلٰی اَنَّہٗ قَدْ یَحْمِلُ الْفِقْہَ غَیْرُ فَقِیْہٍ، یَکُوْنُ لَہُ حَافِظًا وَلَایَکُوْنُ فِیْہٖ فَقِیْہًا
[الرسالۃ ص55]
ترجمہ: اس حدیث سے پتہ چلا کہ کبھی حامل فقہ (حدیث روایت کرنے والا)ایسا بھی ہوتا ہے جو خود فقیہ نہ ہو، وہ حافظ حدیث تو ہوسکتا ہے لیکن وہ فقیہ کے مرتبے کو نہیں پہنچتا۔
حق یہ ہے کہ کیا محدثین اور کیا فقہاء مسلمانوں کو دونوں کی ضرورت ہے؟ اگر محدثین اسلام کا علمی سرمایہ ہیں فقہاء اسلام کی علمی شاہراہ ہیں اور ظاہر ہے کہ شاہراہ کے بغیر کسی راہ پر چلا نہیں جاسکتا۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے ایک جگہ تفقہ اور استنباط کے توافق پر ایک نہایت مفید نوٹ تحریر کیا ہے:
”ایک قسم وہ حفاظ ہیں جن کا کام صرف روایات کو یاد رکھنا ہے اور جیسی روایات سنی ہیں ان کو ویسی ہی آگے پہنچا دینا ہے۔ان کا کام مسائل معلوم کرنا اور استنباط کرنا نہیں ہے۔دوسری قسم ان علماء کی ہے جن کام محفوظ سرمایہ سے مسائل نکالنا اور ان کے احکام مستنبط کرنا ہے۔پہلی قسم جیسے حافظ ابوزرعہ،ابوحاتم اور دوسری قسم جیسے امام مالک اور امام شافعی وغیرہ ہیں۔ خود صحابہ میں حفظ روایت اور استنباط مسائل کے لحاظ سے یہ تقسیم موجود تھی۔غور فرمائیے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما حبر امت اور قرآن کے ترجمان ہیں مگر اس کے باوجود آپ کی ان حدیثوں کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں ہے جن میں ذاتی سماع اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے کی تصریح ہو مگر حافظ ابن حزم فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے فتاوے ضخیم جلدوں میں جمع کیے ہیں،حافظ ابن حزم نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ ان کے بحرِ فقاہت کی ایک مٹھی ہے
،ذٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَآءُ_____
ان کے مقابلے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں، حفظ روایت میں علی الاطلاق حافظ امت ہیں مگر تفقہ اور استنباط میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہاکے برابر نہیں، حفظ روایت اور استنباط مسائل میں امت کو یہ تقسیم صحابہ سے ملی ہے۔
[الوابل الصیب ص78مختصرا]
اسلام میں الفاظ حدیث کی رو ایت اور حفاظت اپنی جگہ ضروری ہے لیکن الفاظ حدیث کی گہرائی میں اترنا اور ان میں لپٹے معانی کا استنباط یہ بھی علم کو کوئی کم اہم باب نہیں ہے۔ ہر دو اسلام کی اصلِ اصیل اور وجہِ وجیہ ہیں۔حافظ ابن قیم یہ بھی لکھتے ہیں:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دین کو آگے لے جانا دو طرح سے ہے:
1:الفاظ نبوت کی تبلیغ اور2:معانی کی تبلیغ(نفس مسئلہ کو آگے پہنچانا)۔۔۔ دوسری قسم فقہاء اسلام کی ہے جو مسائل نکالنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ ان حضرات نےپہلے حلال وحرام کے ضابطے مستنبط کیے، اصول فقہ مرتب کیے،فقہاء کا مقام زمین پر ایسا ہے جیسے ستارے آسمان میں۔ان کے ذریعے ہی تاریکیوں میں بھٹکے لوگ رستہ معلوم کرتے ہیں، لوگوں کو ان کی[فقہاء کی]ضرورت کھانے پینے سے بھی زیادہ ہے اور ان کی اطاعت قرآن کی رو سے والدین کی اطاعت سے بھی زیادہ ضروری ہے۔
[اعلام الموقعین ص4مختصراً]
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بھی لکھ گئے:
اَلتَّخْرِیْجُ عَلٰی کَلَامِ الْفُقَہَاءِ وَتَتَبُّعُ لَفْظِ الْحَدِیْثِ لِکُلٍّ مِّنْہُمَا اَصْلٌ اَصِیْلٌ فِی الدِّیْنِ
[حجۃ البالغہ ج1ص52]
ترجمہ: کلام فقہاء پر مسائل کی آگے تخریج کرنا اور الفاظ حدیث کا تتبع، ان دونوں کی دین میں ایک بنیادی حیثیت ہے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم میں عہد نبوت میں یہ دونوں طبقے موجود تھے۔ایک دفعہ اسلام میں کچھ نئے داخل ہونے والوں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ایک بات کہی جو حضور کو اچھی نہ لگی۔اس پر پرانے لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور ہمارے فقہاء نے تو یہ بات نہیں کی:
قَالَ لَهُ فُقَهَاؤُهُمْ أَمَّا ذَوُو آرَائِنَا يَا رَسُولَ اللّهِ فَلَمْ يَقُولُوا شَيْئًا وَأَمَّا أُنَاسٌ مِنَّا حَدِيثَةٌ أَسْنَانُهُمْ فَقَالُوا يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
صحیح بخاری ج1ص445
اس سے پتہ چلا کہ ان دنوں بھی اعتبار فقہاء کی بات کا ہی ہوتا تھا، حدیث الاسنان لوگوں کا نہیں۔حضرت عبدالرحمن بن عوف نے ایک دفعہ حضرت عمر سے عرض کی:
فَأَمْهِلْ حَتَّى تَقْدَمَ الْمَدِينَةَ فَإِنَّهَا دَارُ الْهِجْرَةِ وَالسُّنَّةِ فَتَخْلُصَ بِأَهْلِ الْفِقْهِ وَأَشْرَافِ النَّاسِ [بخاری ج2ص100]
ترجمہ:سو کچھ ٹھہریں ،یہاں تک کہ آپ مدینہ پہنچیں وہ دارالہجرت ہے اور سنت کا گھر ہے، وہاں آپ اہل فقہ سے اور بڑے لوگوں سے علیحدگی میں مل سکیں گے۔